شام کے النصرہ فرنٹ سے مغرب خوفزدہ کیوں؟

شام کے النصرہ فرنٹ سے مغرب خوفزدہ کیوں؟

شام میں بیالیس سالہ خاندانی آمریت کے خاتمے کے لئے بائیس ماہ سے جاری جدوجہد میں ایک سال پہلے منظر عام پر آنے والے النصرہ محاذ برائے اہل شام ( جبھة النصرہ لاہل الشام )کو امریکہ نے دسمبر کے دوسرے ہفتے میں القاعدہ سے تعلق کا الزام عائد کرتے ہوئے دہشت گرد قرار دیا تو اس کے بارے میں دنیا بھر میں تجسس بھی بڑھا۔ اس سے پہلے یکم دسمبر کو واشنگٹن پوسٹ میں ڈیوڈ اگنیشس کی ایک رپورٹ ”القاعدہ سے وابستہ گروپ شامی بغاوت میں زیادہ بڑا کردار ادا کررہا ہے“ کے عنوان سے شائع ہوئی ۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ آزاد شامی فوج( فری سیرین آرمی ، مخفف :ایف ایس اے) کی صفوں میں جبھة النصرہ کے پرچم تلے لڑنے والوں کا تناسب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔رپورٹ میں ان کی تعداد چھ ہزار سے دس ہزار کے درمیان بتائی گئی تھی۔

رپورٹ کے مطابق ایف ایس اے کی ایک زیادہ معتدل تنظیم کے ایک ذمہ دار نے بتایا کہ ایف ایس اے میں اب القاعدہ سے تعلق رکھنے والے جنگجووٴں کا تناسب ساڑھے سات سے نو فی صد کے درمیان ہے جبکہ تین ماہ پہلے یہ تناسب تین اور ایک سال پہلے صرف ایک فی صد تھا۔ رپورٹ کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کو بھیجی جانے والی رپورٹوں میں بتایا گیا تھا کہ نصرہ کے جنگجو ، جن پر القاعدہ سے تعلق کا شبہ ہے،فری سیرین آرمی کی دوسری تنظیموں کے سپاہیوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہادری اور بے خوفی کے ساتھ لڑتے ہیں ، یہ لوگ ہمیشہ اگلی صفوں میں رہتے ہیں چنانچہ مرنے اور زخمی ہونے والوں میں ان کا تناسب دوسری تنظیموں کے افراد سے زیادہ ہوتا ہے۔ ان رپورٹوں میں امریکی قیادت کو خبردار کیا گیا تھا کہ شام کے مزاحمتی گروپوں میں النصرہ کی شکل میں انتہا پسند عناصر طاقتور ہورہے ہیں لہٰذا امریکہ کو احتیاطی تدابیر شروع کردینی چاہئیں۔ چنانچہ چند ہی روز بعد جبھة النصرہ کو دہشت گرد گروپ قرار دے ڈالا گیا۔ تاہم واقعاتی صورتحال سے پتہ چلتا ہے کہ جبھة النصرہ شامی عوام میں اپنی جرأت و شجاعت ، دیانتداری اور عوام کے مسائل کے حل کے لئے اپنی مخلصانہ اور موٴثر کوششوں کی وجہ سے سب سے زیادہ مقبول ہے اور لوگ اس پر پوری طرح اعتماد کرتے ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی ایک تازہ ترین رپورٹ اس حوالے سے نہایت چشم کشا ہے۔

بی بی سی کے پال وڈ کی اس رپورٹ میں النصرہ کے ابو لقمان کی عرفیت رکھنے والے ایک سینئر کمانڈر کے انٹرویو کے ساتھ ساتھ مجموعی ماحول کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے، اس سے النصرہ اور فری سیرین آرمی کے دوسرے گروپوں کی سرگرمیوں کے بارے میں بڑی قیمتی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ پال وڈ لکھتے ہیں : ” گھپ اندھیرے اور منجمد کردینے والی سردی میں کئی گھنٹے بیکری کھلنے کے انتظار کے بعد قطار کے پہلے سرے پر کھڑے لوگ بے چینی کے ساتھ دکان کے دروازے پیٹنے لگے۔ایف ایس اے کا ایک کارکن مجھے بتارہا تھا کہ حلب میں باغیوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں روٹی کی قلت ایک اور جرم ہے جو بشار الاسد کے سرتھوپا جارہا ہے۔ اس پرحجاب اور لمبے عبائے میں ملبوس ایک عمر رسیدہ خاتون اسے ایک طرف کرتے ہوئے بولی ”بشار کو الزام مت دو، جو کچھ ہمارے ساتھ ہورہا ہے، یہ ہمارا ہی کیا دھرا ہے“۔ جبکہ اس کے پیچھے فری سیرین آرمی کے جنگجو ہجوم میں نظم و ضبط قائم رکھنے کی کوشش کررہے تھے۔رپورٹ وضاحت کرتی ہے کہ ”حلب میں عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ روٹی کی قلت کا سبب فری سیرین آرمی کی جانب سے آٹے کی چوری ہے جو کسی دوسری جگہ فروخت کیا جاتا ہے۔“پال وڈ بتاتے ہیں کہ جب انہوں نے ایف ایس اے کے ایک اہلکار سے پوچھا کہ یہ کام بعض جنگجو انفرادی طور پر کرتے ہیں یا کمانڈروں کے حکم پر آپریشنوں کے لئے مالی وسائل کی فراہمی کی خاطر ایسا کیا جاتا ہے، تو اس نے کہا کہ یہ کام دونوں وجوہ سے کیا جاتا ہے اور اس میں خود میرا بریگیڈ بھی شامل ہے۔پھر وہ درد بھرے لہجے میں بولا ”ہم سب چور ہیں“۔

رپورٹ کے مطابق ان حالات کا فائدہ کٹر اسلامی عناصر خصوصاً جبھة النصرہ یا نصرہ فرنٹ کو پہنچ رہا ہے۔حلب کے مفتوحہ علاقوں میں بیکریوں کو آٹے کی تقسیم کی ذمہ داری اب انہوں نے سنبھال لی ہے۔پال وڈ کو بتایا گیا کہ نصرہ فرنٹ کے سوا لوگ کسی پر اعتبار نہیں کرتے جبکہ فری سیرین آرمی کے تمام بریگیڈ خود بھی ایک دوسرے پر الزامات لگاتے ہیں۔نصرہ فرنٹ دیانتداری اور نظم و ضبط کے حوالے سے اچھی شہرت رکھتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ ایک جہادی گروپ بھی اور شام میں ہونے والے اکثر خودکش دھماکوں کا ذمہ داربھی ، لہٰذا امریکہ کی جانب سے اسے دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا گیا ہے۔ایک سال پہلے انٹرنیٹ پر جاری کی گئی ایک وڈیو کے ذریعے اس تنظیم نے دنیا کے سامنے اپنا تعارف کرایا تھا۔اس وڈیو میں ایک نقاب پوش شخص کہتا ہے ”ہم شامی مجاہد ہیں جو مختلف جہادی محاذوں سے واپس آئے ہیں،ہمارا مقصد زمین پر اللہ کی حکمرانی قائم کرنا اور عزتیں لوٹنے اور خون بہانے والے شامیوں سے انتقام لینا ہے“۔ نقاب پوش اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مزید کہتا ہے ” ہر آزاد اور شریف آدمی کولازماً ہتھیار اٹھالینے چاہئیں،چاہے اس کیلئے اسے اپنے گھر کا فرنیچر بیچنا پڑے، اے بہادر لوگو، جبھة النصرہ نے اس ملک میں امت مسلمہ کا ہتھیار بننے کی ذمہ داری اٹھالی ہے“۔

رپورٹ کے مطابق نصرہ فرنٹ کے کمانڈر ابولقمان سے پوچھا گیا کہ آپ خود کش حملوں کو کیونکر جائز سمجھتے ہیں جبکہ ان میں عام شہری بھی مارے جاسکتے ہیں تو انہوں نے کہا” یہ بات ہم پر صادق نہیں آتی، کیونکہ ہم خود کش حملے کا طریقہ استعمال کرتے ہیں، البتہ ایف ایس اے کی دوسری کئی تنظیمیں ایسا کرتی ہیں۔حکومت بھی ہم پر الزام تراشی کرنے اور ہماری نیک نامی کو نقصان پہنچانے کے لئے شہریوں کو کار بموں کا نشانہ بناتی ہے… جبکہ ہم کسی بھی شہری کی جان لینا نہیں چاہتے خواہ وہ مسلمان ہو یا غیرمسلم ، عیسائی ہو یا کچھ اور“۔

پوچھا گیا کہ ” امریکہ آپ کو دہشت گرد تنظیم کیوں کہتا ہے“ تو انہوں نے کہا ”مغرب میں مسلمانوں کو ظالم اور سفاک بنا کر پیش کیا جاتا ہے، مغرب ہمارے خلاف سازشوں میں مصروف ہے۔امریکہ نے ہمیں دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کردیا ہے تو اس سے ہمیں کوئی تکلیف نہیں،اس سے ہماری مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ شام کے لوگ امریکہ سے نفرت کرتے ہیں، ( اسلئے امریکہ کی طرف سے )دہشت گرد قرار دیئے جانے کو ہم اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں اور اس پر خدا کا شکر ادا کرتے ہیں“۔

اس سوال پر کہ کیا آپ القاعدہ کا حصہ ہیں؟ النصرہ کے لیڈر نے جواب دیا ”ہم دونوں ایک ہی زبان استعمال کرتے ہیں، ہماری اصطلاحات یکساں ہیں کیونکہ ہم سب عربی بولنے والے ہیں لیکن ہمارے درمیان ( جبھة النصرہ اور القاعدہ کے مابین)کوئی تعلق نہیں ہے۔ہم شامی ہیں“۔ پوچھا گیا کہ اگر امریکہ اور دوسری طاقتیں شامی حکومت پر بمباری کرنا چاہیں تو آپ کیا کہیں گے؟ جواب تھا ” بلاشبہ اگر وہ حکومت کی فوجی طاقت کو تباہ کریں تو یہ ہمارے حق میں ہوگا،لیکن ہم کوئی مداخلت نہیں چاہتے۔ ہم اس ملک کے لوگ ہیں اور اپنے وطن کا دفاع کرسکتے ہیں“۔ ابو لقمان نے اپنی تنظیم کی پوزیشن واضح کرتے ہوئے بتایا کہ ہماری جنگ شام تک محدود ہے، یہ کسی وسیع تر جہاد کا حصہ نہیں،ہم کسی ملک کے خلاف معاندانہ عزائم نہیں رکھتے جب تک کہ وہ اس حکومت کی تائید نہ کرے جس کے خاتمے کی ہم جدوجہد کررہے ہیں۔جبھة النصر ہ کے کمانڈر کا کہنا تھا کہ ہم کسی فرقے اور کسی اقلیت پر حملے نہیں کرتے، مسیحیوں کو ہم سے ہرگز خائف نہیں ہونا چاہئے۔

ہمارا مذہب ہمیں عیسائیوں میں شادی کرنے اور آپ کے ساتھ رہنے بسنے اور کھانے پینے کی اجازت دیتا ہے۔ ہمارے علماء نے اپنے فتووں میں عیسائیوں کی جانوں اور مالوں کو نقصان نہ پہنچانے کی تاکید کی ہے۔ حضرت عیسیٰ ہمارے پیغمبر بھی ہیں،آپ حضرت مسیح سے جتنی محبت کرتے ہیں، ہم ان سے اس سے بھی زیادہ محبت کرتے ہیں۔ بی بی سی کے نمائندے کے مطابق اس بات چیت کے دوران حلب کے شہری کمانڈر کے پاس اپنے مسائل لے کر آتے رہے۔ایک شخص نے چولہا جلانے کے لئے گیس نہ ملنے کی شکایت کی، ایک بوڑھا آدمی یہ شکوہ لے کر آیا کہ اس کے بچے اس ضعیفی میں بھی اس کی دیکھ بھال اور مالی مدد نہیں کرتے،ایک بیوہ مرحوم شوہر کے ورثے میں حصہ دلوانے میں مدد کی درخواست لے کر آئی کیونکہ شوہر کے خاندان والے اس کا حصہ دینے کو تیار نہیں تھے،ایک شخص اپنے قریبی عزیز کو ایف ایس اے کے کسی گروپ کی قید سے رہا کرانے میں مدد مانگنے آیا جسے بشار الاسد سے وفاداری رکھنے کے الزام میں اغوا کرکے رہائی کے لئے کئی ملین شامی پونڈ کا تاوان مانگا جارہا تھا۔

رپورٹ کے مطابق ایف ایس اے کے مختلف گروپوں کی جانب سے ایسے واقعات کا ذکر عام ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ النصرہ فرنٹ نے تین دوسرے زیادہ اسلامی رجحانات کے حامل گروپوں کے اشتراک سے حلب میں ایک شرعی عدالت قائم کی ہے، جہاں باہمی تنازعات اور شکایات کے فیصلے ہوتے ہیں اور سرکاری عدالتوں کے مقابلے میں اس شرعی عدالت کی مقبولیت بہت نمایاں ہے۔النصرہ فرنٹ کے اس صاف ستھرے اور کھرے کردار اور اتنی عوامی مقبولیت کے باوجود مغرب کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ وہ شام میں خالص اسلامی حکومت کے قیام کا علمبردار ہے۔ فری سیرین آرمی میں سیکولر تنظیموں کی موجودگی کے باوجود یہ خطرہ بہت واضح ہے کہ بشار الاسد کے جانے کے بعد اس میں موجود النصرہ فرنٹ اور دوسری اسلامی تنظیمیں عوامی مقبولیت کی بنا پر سب کو پیچھے چھوڑ دیں گی ، جیسا کہ مصر اور تیونس میں ہوچکا ہے۔ایسی صورت میں اسرائیل کو شدید ناسازگار صورتحال سے سابقہ پیش آسکتا ہے اور مشرق وسطیٰ میں امریکی اور مغربی مفادات بھی خطرے میں پڑسکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے لئے کوئی فیصلہ کن قدم اٹھانے میں امریکی قیادت مسلسل پس و پیش کا شکار ہے۔

روس ، چین اور ایران اپنی سیاسی اور معاشی مصلحتوں کی خاطر اسد حکومت کے خاتمے کے مخالف ہیں جبکہ ایک اسرائیلی تجزیہ کار کے بقول بشار الاسد ایک معلوم برائی ہے جبکہ ان کے مخالفین کی حکومت ایک نامعلوم برائی ہوگی۔ اس طرح بیشتر عالمی اور علاقائی طاقتیں عملاً اسد حکومت کی پشت پناہ بنی ہوئی ہیں چاہے بظاہر مخالفت کررہی ہوں۔یہی وجہ ہے کہ شام کے 70 فی صد علاقے پر مخالفین کے کنٹرول کے باوجود چھ جنوری کو اپنے نشری خطاب میں بشار الاسد نے دعویٰ کیا کہ انہیں زندگی بھر کوئی اقتدار سے الگ نہیں کرسکتا۔ ان کے پاس فضائیہ کی طاقت موجود ہے اور انہیں اسلحہ کی سپلائی بھی مسلسل جاری ہے، اس تناظر میں دکھائی یہی دیتا ہے کہ شام میں ابھی حکومت کے خلاف مسلح مزاحمت کا سلسلہ خاصی مدت تک جاری رہے گا اور بشار الاسد کی ظالم اور سفاک حکومت سے نجات شام کے لوگوں کو اپنی ہی جدوجہد کے بل پر حاصل کرنا ہوگی جس میں وہ کم از کم ساٹھ ہزار جانوں کی قربانی دے چکے ہیں جبکہ چالیس لاکھ شامی باشندے فاقہ کشی کے خطرے سے دوچار ہیں اور گھر بار سے محروم ہوچکے ہیں۔

ثروت جمال اصمعی
بہ شکریہ روزنامہ جنگ


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں