آہ قاضی حسین احمد

آہ قاضی حسین احمد

اسلام آباد کی یخ بستہ رات اور وہ بھی حد سے زیادہ دھندآلود۔ شام دوستوں کے ساتھ گپ شپ میں گزری لیکن خلاف روایت طبیعت بجھی بجھی سی تھی اور اس پر مستزاد یہ کہ علت بھی سمجھ نہیں آرہی تھی۔
لاہور سے آئے ہوئے محترم دوست منیب فاروق کی معلومات افزا اور نثار شینواری کی لطیفہ نما گفتگو پر لگنے والے قہقہے بھی طبیعت کے بوجھل پن کو دور نہ کر سکے۔ ان سے رخصت لے کر گھر میں اپنے کمرے کا رخ کیا۔ مطالعے کے قابل نہیں تھا چنانچہ ٹی وی دیکھنے لگا ۔ دل کے بجھنے کی وجہ تلاش کر اور اپنے آپ سے یہی سوال پوچھ رہا تھا کہ ”جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی“۔ رات کا ڈیڑھ بجھ گیا تو جواب مل گیا۔ سمجھ گیا کہ وہ چھٹی حس تھی جو مجھے بے چین کئے ہوئے تھی۔ یہ دردناک خبر ملی کہ محترم قاضی حسین احمد وفات پاگئے۔ فوراً بستر سے اٹھا، چھوٹے بھائی رشید صافی کو جگایا۔ عقیل ‘ سعید اور نثار شینواری کو ساتھ لیا اور معروف اسپتال کی طرف روانہ ہوئے۔ سردی کے موسم میں اسلام آباد کی راتیں یوں بھی اداس رہتی ہیں لیکن عظیم سانحہ کی وجہ سے تو اس روز یوں محسوس ہورہا تھا جیسے آسمان رو رو کر برف کے آنسو بہا رہا ہے۔ اسپتال پہنچا تو قاضی حسین احمد کے دونوں صاحبزادوں کو وہاں اداس مگر حوصلہ مند پایا، ابھی دیگر اہل خانہ اسپتال پہنچ رہے تھے۔ جماعت اسلامی اسلام آباد کی قیادت بھی اسپتال میں جمع ہورہی تھی۔ قاضی حسین احمد میدان سیاست میں میری پہلی محبت کا درجہ رکھتے تھے اور اللہ نے مجھے ان لوگوں کی صف میں بھی شامل کردیا جنہیں رحلت کے بعد سب سے پہلے ان کی زیارت نصیب ہوئی۔ ان کے مبارک چہرے پر نظر پڑتے ہی ان کے ساتھ وابستہ تمام یادیں ذہن میں امڈ آئیں۔ مجھے دور طالب علمی کا وہ وقت یاد آیا جب ہم نعرے لگایا کرتے تھے کہ ”ہم بیٹے کس کے قاضی کے ‘ ہم سب دیوانے قاضی کے ‘ ہم سب پروانے قاضی کے “۔ پھر مجھے ان کے حوالے سے اپنی ایک ایک گستاخی یاد آرہی تھی‘ ان پر کرنے والی شدید تنقید ذہن میں تازہ ہورہی تھی اور ان کے جواب میں ان کی وہ محبت اور شفقت یاد آ رہی تھی جس کا مظاہرہ وہ عمر بھر کرتے رہے۔ وہ ڈانٹتے بھی تھے لیکن ان کی ڈانٹ میں بھی شفقت ہوا کرتی تھی ۔ وہ مجھ سے ناراض بھی ہوجاتے تھے لیکن وہ ناراضی بھی محبت آمیز ہوا کرتی تھی ۔ جب بھی ملتے‘ ابتدا میں چند کھری کھری سنا دیتے لیکن پھر تھوڑی دیر بعد ہنس کر روایتی پدرانہ شفقت اور محبت کا رویہ اپنا لیتے۔ چند روز قبل ان پر مہمندایجنسی میں خودکش حملہ ہوا تو میں اگلے روز مزاج پرسی کے لئے ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ طالبان اور عسکریت پسندی کا موضوع میرے اور ان کے مابین شدید اختلاف کا موضوع رہا۔ اس دن بھی اس حوالے سے شدید نوک جھونک ہوئی لیکن انہوں نے ماحول کو تلخ اور طبیعت کو مکدر ہونے نہیں دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس روز جب میں ان کی میت کے ساتھ کھڑا ان کے چہرے کی زیارت کررہا تھا تو مجھے یوں محسوس ہورہا تھا کہ آج صرف آصف لقمان نہیں بلکہ شاید میں خود بھی دوبارہ یتیم ہوگیا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس رشتے کو ختم کرنے میں شاید میں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی لیکن یہ ان کی اعلیٰ ظرفی تھی کہ اس رشتے کو نبھاتے رہے تاہم اپنا ضمیر اس بات پر مطمئن ہے کہ ان پر جتنی بھی تنقید کی‘ نیک نیتی کے ساتھ کی۔ ان کی پالیسی اور حکمت عملی کا شدید ناقد بن گیا تھا لیکن ان کی نیت پر کبھی شک نہیں کیا۔ میں ان کی پالیسیوں اور ترجیحات پر ماتم کرتا رہا لیکن ان کے جذبے اور خلوص پر آخری وقت تک رشک کرتا رہا۔ افغانستان اور داخلی سیاست کے حوالے سے ان کی پالیسیوں کا ایک وقت میں، میں جس قدر مداح رہا ‘ وقت کے ساتھ ساتھ میں ان کا اس قدر مخالف بن گیا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ قاضی حسین احمد غیرمعمولی خوبیوں اور متنوع صلاحیتوں کے مالک تھے۔ کٹر نظریاتی انسان اور نظریاتی جماعت کا سربراہ ہونے کے باوجود ان کی وسیع القلبی اپنی مثال آپ تھی۔ ان کی امارت سے قبل جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتوں کے مابین بعدالمشرقین تھا لیکن انہوں نے جماعت اسلامی کو دیوبندی اور بریلوی تنظیموں کے ساتھ بغلگیر کرادیا۔ مخالفین اور بیرونی قوتوں کے معاملے میں وہ انتہائی بے لچک اور سخت گیر انسان تھے اور یوں دکھائی دیتا ہے کہ وہ ہمہ وقت سربکف اور تیروتفنگ سے مسلح رہتے ہیں لیکن اپنوں کی صفوں میں وہ محبت اور شفقت کا نمونہ ہوا کرتے تھے۔ وہ اقبال کے دلدادہ تھے اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ ان کے اس شعر کہ
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
کو گویا انہوں نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے۔ ان سے قبل جماعت اسلامی مخصوص نظریئے اور سوچ کے حامل‘ مخصوص وضع قطع کے حامل لوگوں کی جماعت تھی لیکن قاضی صاحب نے اس کو سیاسی اور عوامی جماعت بنانے کی کوشش کی ۔ جماعت اسلامی کے اکثر قائدین ہمہ وقت کارکن ہیں لیکن قاضی صاحب کا کمال یہ تھا کہ وہ ایک دن کے لئے بھی جماعت اسلامی پر بوجھ نہیں بنے اور آخری وقت تک اپنے ذاتی کاروبار کو بھی چلاتے رہے ۔ وہ مولوی نہیں بلکہ پروفیسر تھے اور یہ انہی کا کمال تھا کہ وہ مولوی اور مسٹر کو کبھی ایک فورم پر اور کبھی دوسرے فورم پر جمع کر لیتے تھے۔ وہ حقیقی معنوں میں مسلکی اختلافات سے بالاتر تھے اور پاکستان کے اندر شیعہ اور سنی طبقات میں اگر کوئی دینی شخصیت یکساں احترام کے حامل تھی تو وہ قاضی صاحب ہی تھے ۔ وہ برملا کہا کرتے تھے کہ سارے جہاں کا درد ان کے جگر میں ہے اور اس درد کو اپنے دل میں انہوں نے اس شدت سے سمو رکھا تھا کہ وہ اس بوجھ تلے دب گیا۔ پہلے دو بائی پاس کرا رکھے تھے اور اب دل کا تیسرا دورہ جان لیوا ثابت ہوگیا۔ فلسطین‘ عراق‘ کشمیر‘ افغانستان اور سوڈان وغیرہ کے بارے میں وہ اس قدر بے چین رہتے تھے کہ ہم جیسوں کو یہ اعتراض ہونے لگا تھا کہ قاضی صاحب عالم اسلام کے غم میں اہالیان پاکستان کو بھول گئے ہیں۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ اس غم میں اگر وہ پاکستان کو بھول گئے تھے تو ساتھ ہی ساتھ اپنی ذات کو بھی بھول گئے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ شدید بیماری کے باوجود بھی آرام سے نہیں بیٹھے اور زندگی کے آخری سانس تک متحرک رہے ۔ قاضی صاحب کی شخصیت کی تنوع کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اقبال کا حافظ اور دلدادہ ہونے کے باوجود وہ فیض کو اپنا پسندیدہ شاعر قرار دیتے تھے۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے ارشاد فرمایا تھا کہ انہیں پھولوں کی نرمی اور پہاڑوں کی کرختگی پسند ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب جیو نیوز کے اینکر نے مجھ سے سوال کیا کہ میں قاضی صاحب کی شخصیت کو دو الفاظ میں بیان کروں تو جواب میں عرض کیا کہ ”پہاڑ کی طرح سخت اور پھول کی طرح نرم“۔ آئیے ہم سب دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس مردجری کو اپنی جوار رحمت میں جگہ دے، ان کی لغزشوں سے درگزر فرمائے اور ان کے پسماندگان اور چاہنے والوں کو صبر جمیل عطا کرے، آمین ثم آمین ۔

سلیم صافی
جنگ نیوز


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں