مالک یوم الدین

مالک یوم الدین

میری چند دن قبل ملک کی نامور مذہبی اور روحانی شخصیت سے ملاقات ہوئی‘ ملاقات کے دوران قرآن مجید پر گفتگو شروع ہو گئی‘ میں نے انھیں بتایا میں آج کل قرآن مجید کا ترجمہ پڑھ رہا ہوں اور میں جوں جوں ترجمہ پڑھتا جا رہا ہوں میری حیرت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے‘ انھوں نے پوچھا ’’ آپ کیا محسوس کر رہے ہیں؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’آپ اگرقرآن مجید کو سمجھنا چاہتے ہیں تو آپ کو قرآن مجید کو کتاب کی طرح پڑھنا ہو گا‘ اللہ کا کلام آہستہ آہستہ آپ پر کھل جائے گا‘‘ انھوں نے ہنس کر فرمایا ’’آپ کی بات سو فیصد درست ہے‘ قرآن مجید کتاب ہے لیکن ہم اسے کبھی کتاب کی طرح نہیں پڑھتے چنانچہ ہم قرآن کے مطالب تک نہیں پہنچ پاتے‘‘ میں نے عرض کیا ’’دوسری بات قرآن مجید کا ترجمہ ہے.
قرآن مجید دنیا کی بلیغ ترین زبان عربی میں اترا‘ عربی کی بلاغت کا انداز یہ ہے اس میں اونٹ کی چالیس قسمیں ہیں اور ہر قسم کے لیے الگ لفظ استعمال ہوتاہے‘ عرب اونٹی کے نوزائیدہ بچے کو نتیجہ کہتے ہیں چنانچہ آپ اس وقت تک نتیجہ جیسے لفظ کو نہیں سمجھ سکتے جب تک آپ اونٹی کے زچگی کے عمل اور اس کی پیچیدگیوں کو نہیں سمجھ جاتے جب کہ عربی کے مقابلے میں اردو ایک نئی زبان ہے‘ اس کے لسانی کلیے تک 1810ء میں فورٹ ولیم کالج میں انگریزوں نے طے کیے تھے ‘ اردو کے زیادہ تر لفظ دوسری زبانوں سے مستعار لیے گئے ہیں لہٰذا اردو دنیا کی قدیم اور بلیغ ترین زبان میں اتارے گئے قرآن مجید کے مطالب کا احاطہ نہیں کر پاتی‘ اس کے پاس قرآن مجید کے مطالب کے لیے مناسب الفاظ ہی نہیں ہیں اور یوں ہمارے ذہن میں کنفیوژن پیدا ہو جاتی ہے.‘‘
وہ مسکرائے اور فرمایا ’’مثلاً‘‘ میں نے عرض کیا ’’مثلاً آپ جنت کی دودھ اور شہد کی نہروں اور حوروں کو لے لیجیے‘ اللہ بہشت‘ دودھ‘ شہد‘ شراب طہورہ اور حور سے کیا مراد لے رہا ہے‘ ہم اس وقت تک نہیں سمجھ سکیں گے جب تک عربی زبان پوری طرح ہماری گرفت میں نہیں آتی چنانچہ ہمارے سامنے جب بھی حلیب کا لفظ آئے گا ہم اس کا ترجمہ دودھ کر دیں گے اور دودھ کے ساتھ ہی ہمارے ذہن میں بھینس اور گائے آ جائے گی اور اس کے ساتھ یہ سوال بھی پیدا ہوجائے گا کیا جنت میں جانور بھی ہوں گے‘‘ انھوں نے قہقہہ لگایا اور فرمایا ’’نکتے کی حد تک آپ کی بات درست ہے لیکن کیا آپ اردو کے ترجموں کو ناقص سمجھتے ہیں؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’ہر گز نہیں‘ اردو کے ترجمے اچھے ہیں‘ میں اردو ترجمے ہی پڑھ رہا ہوں مگر اس کے ساتھ ساتھ مجھے محسوس ہوتا ہے انگریزی اور فرنچ زبان کے ترجمے زیادہ بلیغ ہیں‘ انگریز مسلم اسکالر اور فرنچ اسکالر جس خوبصورتی سے قرآن مجید کے مطالب بیان کرتے ہیں وہ اردو زبان میں ممکن نہیں‘ فرانسیسی اور انگریزی دونوں عربی کی طرح قدیم زبانیں ہیں‘ ان کے پاس اردوسے زیادہ الفاظ اور مترادفات ہیں‘ مثلاً سورۃ اخلاص کا جتنا اچھا ترجمہ انگریز مسلم اسکالرز نے انگریزی میں کیا یہ اردو میں ممکن ہی نہیں ‘‘۔
انھوں نے میرا نکتہ تسلیم کیا اور انگریزی کے چند تراجم کا حوالہ بھی دیا‘ یہ تراجم ایسے لوگوں نے کیے تھے جو بیک وقت عربی اور انگریزی کے عالم تھے‘ اللہ نے کرم کیا ‘یہ مسلمان ہو گئے اور انھوں نے دنیا کی ایک قدیم زبان کا بیان دوسری قدیم زبان میں ڈھال دیا اورآج یورپ کا جو شخص یہ ترجمہ پڑھتا ہے اس کے دل میں ایمان کا بیج جڑ پکڑ لیتا ہے۔وہ فرمانے لگے ’’آپ نے اب تک قرآن مجید سے کیا سیکھا‘‘ میں نے عرض کیا ’’میں نے اسلام کا مطالعہ چار سال پہلے شروع کیا تھا اور ترجمہ پچھلے مہینے سے پڑھ رہا ہوں‘ میں اس لحاظ سے نو مسلم ہوں لہٰذا میری رائے ہر گز ہر گز قطعی نہیں‘ یہ لولے لنگڑے خیالات ہیں جنھیں میں روز ٹھیک کرنے کی کوشش کرتا رہتاہوں‘‘ انھوں نے فرمایا ’’آپ بیان کریں‘ گھبرائیں نہیں‘‘ میں نے عرض کیا ’’مثلاً ہم لوگ اپنی روز مرہ زبان میں کافر کا لفظ استعمال کرتے ہیں‘ میں لفظ کافر کا مطلب تلاش کررہا تھا‘ مجھے یہ مطلب قرآن مجید کی ابتدائی آیات میں ملا.
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کافر وہ ہیں جو انکار کرتے ہیں اور تکبر کرتے ہیں‘ یہ پڑھنے کے بعد مجھے پہلی بار معلوم ہوا انکار اور تکبر جب تک دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہوتے کوئی شخص اس وقت تک کافر نہیں ہو سکتا‘ میں اب انکار اور تکبر کے اصل معانی تلاش کر رہا ہوں‘ میں اس جستجو میں ہوں اللہ کس کو انکار سمجھتا ہے اور کس کو تکبر‘ مجھے جس دن ان دونوں لفظوں کے معانی مل جائیں گے مجھے کفر اور کافر کی سمجھ آ جائے گی‘‘ وہ مسکرائے‘ میرے کندھے پر تھپکی دی اور فرمایا ’’آپ کی سمت ٹھیک ہے‘‘ ذرا سے رکے اور فرمایا ’’اللہ نے اس کے علاوہ آپ کو کیا سکھایا‘‘ میں نے عرض کیا ’’اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں خود کو مالک یوم الدین قرار دیا‘ ہمارے علماء یوم الدین کا ترجمہ یوم حشر کرتے ہیں‘ میں اس پر تھوڑا سا کنفیوژ ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے پاس لفظوں کی کمی نہیں ‘ وہ اگر یوم الدین کو یوم حشر کہنا چاہتا تو وہ یوم حشر‘ یوم قیامت کے لفظ نازل فرمادیتا‘ اسے اس دن کو یوم الدین کہنے کی کیا ضرورت تھی‘‘ انھوں نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور فرمایا ’’پھر آپ نے کیا نتیجہ نکالا‘‘ میں نے عرض کیا ’’میرے رائے حتمی نہیں‘ یہ ابھی محض ایک سوچ ہے اور اس کے غلط ہونے کے سو فیصد امکانات ہیں‘‘ انھوں نے فرمایا ’’آپ اپنی رائے پیش کریں‘ اس کے درست یا غلط ہونے کا فیصلہ بعد میں کیا جائے گا‘‘ میں نے عرض کیا ’’عبادت اور اخلاقیات ایک جگہ جمع ہوتی ہیں تو یہ دین بن جاتی ہیں‘ اسلام میں عبادت کا شیئر دس فیصد اور معاشرے یعنی اخلاقیات کا نوے فیصد ہے.
ہم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے ہم جب تک اخلاقیات کے اعلیٰ معیارکو نہیں چھو لیتے ہیں اور ہم اس وقت تک مسلمان بھی نہیں ہو سکتے جب تک ہماری زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ نہیں ہوجاتا چنانچہ ایک مسلمان صرف کلمہ‘ نماز‘ زکوٰۃ‘ روزے اور حج کی بنیاد پر یوم الدین کا امتحان پاس نہیں کر سکے گا‘ اسے عبادت کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کے تمام پرچے بھی پاس کرناہوں گے‘یہ جب تک نرم آواز میں نہیںبولے گا‘ یہ جب تک دوسرے انسانوں کو رنگ‘ نسل‘ مذہب اور زبان سے بالاتر ہو کر اپنے جیسا انسان نہیں سمجھے گا‘ یہ معاشرے میں انصاف قائم نہیں کرے گا‘ یہ پورا نہیں تولے گا‘ یہ پورا نہیں ناپے گا‘ یہ ملاوٹ سے نہیں بچے گا‘ یہ گھر کے دودھ کو بھی پانی سے نہیں بچائے گا‘ یہ قانون کو سب کے لیے برابرنہیں کرے گا‘یہ ادویات اور خوراک کی کوالٹی کی ضمانت نہیں دے گا‘ یہ صفائی کو نصف ایمان ثابت نہیں کرے گا‘ یہ بچوں کو شفقت‘ خواتین کو احترام‘ بوڑھوں کو محبت اور ملازموں کو عزت نہیں دے گا‘یہ جانوروں کے حقوق کا خیال نہیں رکھے گا‘ یہ دوسروں کے خیالات برداشت نہیں کرے گا‘ یہ خود کو دوسروں کے خدائوں کو برا کہنے سے باز نہیں رکھے گا‘ یہ پبلک پراپرٹی کو ذاتی پراپرٹی سے زیادہ اہمیت نہیں دے گا‘ یہ خود کو دوسروں کی ذاتی زندگی سے دور نہیں رکھے گا‘یہ غیبت‘ نفرت‘ منافقت سے پرہیز نہیں کرے گا‘ یہ اپنی زندگی فلاح عام کے لیے وقف نہیں کرے گا‘ یہ یتیموں‘ بیوا=ں‘ مسکینوں اور بیماروں کا خیال نہیں رکھے گا‘ یہ فٹ پاتھ کے حقوق بھی نہیں سمجھے گا‘یہ عام آدمی کو سڑک پر چلنے کا حق نہیں دے گا‘ یہ لوگوں کے ساتھ شائستگی‘ رواداری اور اخوت کا مظاہرہ نہیں کرے گا اور یہ دنیا کے ہر مظلوم کے لیے اٹھ کرکھڑا نہیں ہو گاتو یہ اس وقت تک یوم الدین کا امتحان پاس نہیں کر سکے گا جس کا مالک خود اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس دن کو یوم الدین اس لیے قرار دیا کہ وہ اس دن صرف عبادت کا حساب نہیں لے گا یہ دین کا حساب مانگے گا اور دین دنیاوی اخلاقیات کے بغیر مکمل نہیں ہوتا‘ ہم صرف کلمے‘ نماز‘ روزے‘ زکوٰۃ اور حج کی بنیاد پر اپنے اللہ کو راضی نہیں کر سکیں گے‘‘ ۔وہ مسکرائے‘ میری طرف غور سے دیکھا اور فرمایا ’’آپ کی بات بڑی حد تک درست ہے مگر سوال پیدا ہوتا ہے کیا دنیا میں کوئی ایسا معاشرہ موجود ہے جو اس کسوٹی پر پورا اترتا ہو؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’جناب منہ چھوٹاہے لیکن بات بڑی کرنے لگا ہوں‘آپ معاف فرما دیجیے گا‘ یہ حقیقت ہے یورپ‘ امریکا اور مشرق بعید کے ممالک اخلاقیات کے معیار پر پورے اتر رہے ہیں‘ وہاں وہ اخلاقیات ہیں جن کی توقع اللہ تعالیٰ ہم مسلمانوں سے کرتا ہے لہٰذا ہم اگر غیر جانبداری سے دیکھیں تو وہاں نوے فیصد دین موجود ہے بس اگر وہ لوگ کلمے‘ نماز‘ روزے‘ زکوٰۃ اور حج کا دس فیصد اسلام اپنالیں تو یہ یوم الدین کی کسوٹی پر پورا اتر جائیں گے جب کہ ان کے مقابلے میں ہم صرف دس نمبروں پر کھڑے ہیں اور ہمیں یہ امتحان پاس کرنے کے لیے مزید 90 نمبر درکارہوں گے ‘ ہمارا ایمان ہے اللہ کی ذات جو چاہے کرتی ہے اور ہم اس سے حساب نہیں مانگ سکتے چنانچہ اگر اللہ تعالیٰ نے یوم الدین کے موقع پر گوروں کو دس نمبروں کی رعایت دے دی توکیا ہم تمام پرہیزگاری کے باوجود مارے نہیںجائیں گے‘ کیاگورے ہم سے آخرت میں بھی آگے نہیںنکل جائیں گے کیونکہ یہ اخلاقیات کے پورشن میں ہم سے نوے فیصد آگے ہیں‘‘ انھوں نے قہقہہ لگایا‘ مجھے تھپکی دی اور رخصت ہو گئے۔


جاوید چودھری
ایکسپریس نیوز


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں