افغانستان میں امریکی فوج کی2676خود کشیاں

افغانستان میں امریکی فوج کی2676خود کشیاں

بتایا گیا ہے کہ سال2001ء سے 2013ء تک کے بارہ سالوں میں انسانی تاریخ کی سب سے زیادہ خوفناک جنگی طاقت اور دنیا کی اکلوتی سپر پاور امریکہ بہادر کے عالمی دہشتگردی کے خلاف جنگ میں دنیا کے سب سے کمزور اور اتنے ہی پسماندہ اور غریب ملک افغانستان میں اب تک ایک ہزار نو سو پچاس(1950)فوجی مارے گئے ہیں۔ جبکہ امریکی نیوی کے سیل کمانڈر ڈبلیو پرائس نے وحشت کے عالم میں اپنے آپ کو گولی مار کر اس عرصہ میں افغانستان میں خود کشی کرنے والے امریکی فوجیوں کی تعداد2676تک پہنچا دی ہے۔ گویا خود کشی کرنے والے امریکی فوجی جنگ میں مارے جانے والے امریکی فوجیوں سے تعداد میں726زیادہ ہوگئے ہیں۔
یہ اعداد و شمار امریکہ کے مونیٹری انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل سٹڈیز میں ریسرچ کرنے والی افغان خاتون سبینا خان نے جمع کئے ہیں جن کا آبائی تعلق ساؤتھ وزیرستان سے ہے اور جو تنازعات کے ریزولیوشن کے مضمون میں ماسٹر کی ڈگری لے چکی ہیں۔ سبینا خان کے مطابق سال2012ء میں عراق اور افغانستان میں نبرد آزما امریکی فوجیوں نے ستائیس گھنٹوں میں ایک کی رفتار سے خودکشیاں کی ہیں۔ ان دونوں ملکوں میں جنگ لڑنے والے ہر سو امریکیوں میں سے گیارہ سے لے کر بیس تک نے اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے والے ذہنی عارضے میں مبتلا ہونے کا ثبوت پیش کیا یا علامتیں ظاہر کیں۔
امریکی فوجیوں میں خود کشی کی وارداتوں کے اس خوفناک رجحان کی وجہ سے امریکی فوجی مرکز”پینٹاگون“ کے54ارب ڈالروں کی مالیت کے طبی بجٹ کی ایک چوتھائی مذکورہ بالا ذہنی عارضے کے علاج پر خرچ کی جارہی ہے جس کے مریضوں کی تعداد میں خوفناک حد تک اضافہ ہورہا ہے۔
امریکی فوجی مرکز نے امریکی ایئر فورس کو یہ اندازہ لگانے کا کام دیا تھا کہ اپنے ملک سے ہزاروں میل دور”علاقہ غیر“ میں جنگ لڑنے والے فوجیوں پر کس قدر ذہنی ،جذباتی اور نفسیاتی دباؤ ہوتا ہے؟ امریکی ائیر فورس نے تحقیقات کے بعد رپورٹ دی کہ ایسے فوجیوں پر سترہ سے تیس فیصدی تک زیادہ دباؤ ذہنی پریشر ہوتا ہے جو کہ وقت گزرنے کے ساتھ ناقابل برداشت ہوجاتا ہے۔ اس دباؤ میں فوجی اپنے ذہنی توازن کو برقرار نہیں رکھ سکتے ، ان میں خود کشی کے رجحانات بڑھ جاتے ہیں۔ خود اپنے آپ کو اپنا دشمن سمجھتے لگتے ہیں۔
یہ بھی بتایا گیا کہ ڈرون حملے کے سٹاف کو بھی سترہ فیصد زیادہ دباؤ برداشت کرنا پڑتا ہے، اگرچہ ڈرون حملے امریکی ائیر فورس کے لئے”وڈیوگیمز“ سے زیادہ سنجیدگی کے طالب نہیں ہوتے مگر اپنے ملک، گھر اور عزیزوں سے ہزاروں میل دور کسی غیر ملک کے میدان جنگ میں اور جانی دشمن عناصر کے درمیان بہت زیادہ نفسیاتی مسائل پیدا ہوجاتے ہیں اور پھر اپنے ملک، اپنے گھروں اور افراد خانہ سے دس سالوں سے زیادہ عرصے کی دوری بھی ذہنی بربادی کا سبب بن سکتی ہے۔
امریکی فوج کے ہتھیاروں کے مقابلے میں پاکستانی فوج کے ہتھیار زیادہ جدید نہیں ہیں اور اس جنگ میں پاکستان کے سب سے زیادہ فوجی(تین ہزار پانچ سو ستر سے بھی زیادہ) مارے گئے ہیں مگر اپنے گھروں کے قریب ہونے کی وجہ سے ان کو اس نوعیت کے ذہنی عارضے نے متاثر نہیں کیا جبکہ اس جنگ میں پاکستان کی معیشت اور معاشرت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے۔سبینا خان کے مطابق افغانستان اور عراق کی جنگوں نے امریکی فوجیوں کے ذہنوں کو بے پناہ صدمات سے دو چار کیا ہے۔ اس میں بہت سا دخل عالمی رائے عامہ کا بھی ہوسکتا ہے جو مجموعی طور پر امن پسندی کے رجحانات رکھتی ہے۔ امریکی فوجیوں کے اندر کے انسان اس سے لاتعلق اور بے خبر نہیں ہوسکتے کہ گزشتہ بارہ سالوں کے دوران عراق اور افغانستان میں کم از کم ایک لاکھ چالیس ہزار بیگناہ شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارا جاچکا ہے۔ قتل عام کے اس گناہ میں شامل یا شریک ہونے کی اذیت بھی انہیں خود کشی کے ارتکاب پر اکسا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ دباؤ بھی بہت زیادہ پریشان کرسکتا ہے کہ اپنے وطن اور عزیزوں سے ہزاروں میل دوری کے میدان جنگ سے اور خون کے پیاسے دشمنوں کے علاقوں سے محفوظ طریقے سے فوجوں کی واپسی کب اور کیسے ممکن ہوگی؟

منوبھائی
جنگ نیوز


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں