کامیاب ریفرنڈم اور مصر کے حالات

کامیاب ریفرنڈم اور مصر کے حالات

مصر میں عوامی رائے کے دوسرے مرحلے کے نتائج بھی سامنے آ چکے ہیں جن میں مصری عوام نے بھاری اکثریت سے نئے آئین کی منظوری کے حق میں اپنی رائے دی ہے۔ غیر سرکاری نتائج کے مطابق ریفرنڈم کے دوسرے مرحلے میں 71 فیصد شہریوں نے نئے دستور کے حق میں ووٹ دیے ہیں۔ اس سے قبل ریفرنڈم کا پہلا مرحلہ قاہرہ، اسکندریہ، الشرقیہ، الدقھلیہ، الغربیہ، اسیود، سوہاج، اسوام، شمال سینا اور جنوبی سینا کے علاقوں میں منعقد ہوا تھا، جس کے نتیجے میں61 فیصد مصری عوام نے نئے دستور کے حق میں ووٹ دیے تھے اور38.7 فیصد عوام نے مخالفت میں ووٹ دیے تھے۔
اس طرح دونوں مرحلوں میں مجموعی طور پر 64 فیصد شہریوں نے ’’ہاں‘‘ پر مہر لگا کر مصر میں نئے آئین کی حمایت کر دی ہے۔ مصر میں سیکولر قوتوں نے ریفرنڈم کے دونوں مرحلوں میں مصریوں پر زور دیا تھا کہ وہ نئے دستور کے حوالے سے ریفرنڈم میں اپنا ووٹ ’’ناں‘‘ کی صورت استعمال کرتے ہوئے نئے آئین کو مسترد کر دیں۔ اس سے پہلے ریفرنڈم کو منسوخ کروانے کے لیے سیکولر قوتوں نے شدید احتجاج کیا جس میں کئی افراد مارے بھی گئے تھے۔ اسلام دشمن اور سیکولر قوتوں کے بھرپور زور لگانے کے باوجود بھی مصر کے عوام نے ریفرنڈم میں ’’ہاں‘‘ پر مہر لگا کر یہ ثابت کر دیا کہ وہ مصر میں اسلام پسندوں کے ساتھ ہیں۔
اس ریفرنڈم میں اسلامی قوتوں کی کامیابی کے بعد منتخب حکومت پر ریفرنڈم میں دھاندلی کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ مصر میں حزب اختلاف نے نئے دستور کی منظوری کے لیے منعقدہ ریفرنڈم کے نتائج کے خلاف اپیل دائر کرنے کا اعلان کیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ پولنگ کے دوران فراڈ اور بے ضابطگیوں کا ارتکاب کیا گیا ہے۔ حالانکہ حزب اختلاف کے ارکان بھی اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ ووٹروں کی اکثریت نے آئین کے حق میں ووٹ دیا ہے۔
مصر میں صدر مرسی اور منتخب حکومت کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ اس وقت سے شروع ہے جب صدر محمد مرسی نے 22 نومبر 2012 کو دو اعلانات کیے تھے، ان میں ایک معاملہ نئے آئینی مسودے کے بارے میں ریفرنڈم کا تھا جب کہ دوسرا صدر مرسی کے اختیارات میں اضافے کے بارے میں جاری کردہ صدارتی فرامین کا تھا۔ مخالفین کے احتجاج کے بعد محمد مرسی نے اپنے اختیارات میں کیے گئے اضافے سے متعلق فرامین تو منسوخ کر دیے تھے، لیکن ریفرنڈم کا فرمان واپس نہیں لیا تھا۔ حکومت مخالفین جن کی اکثریت لبرل، سیکولر اور غیر مسلم مصریوں پر مشتمل ہے، ان کا مطالبہ تھا کہ فرامین کی واپسی کے ساتھ ساتھ صدر مرسی کو اسمبلی میں پیش کردہ نئے آئینی مسودے کے بارے میں ریفرنڈم کی کال بھی واپس لینا ہو گی۔ جب کہ صدر مرسی کا موقف تھا کہ ’’مصر اسلامی ملک ہے، یہ کبھی سیکولر یا لبرل نہیں ہو گا اور عوام کو اختیار ہے کہ وہ ریفرنڈم کے ذریعے آئین کو تسلیم کریں یا اسے مسترد کر دیں۔‘‘
اسلام پسند اس ریفرنڈم کو عوام کی فتح قرار دے رہے ہیں۔
اسی طرح مغرب زدہ طبقات کو عوام کی پسند ڈاکٹر محمد مرسی کی صدارت کا کڑوا گھونٹ پینا پڑا۔ منتخب ہونے والوں میں170 پی ایچ ڈی، 140 ممبر حافظِ قرآن اور 180ممبروں کو نصف سے زیادہ قرآن زبانی یاد تھا۔ یوں یہ پارلیمنٹ مسلم دنیا کی ایک منفرد پارلیمنٹ تھی، لیکن مغرب کی سرپرستی میں سیکولر قوتوں کو پارلیمنٹ میں دیندار لوگوں کی غالب اکثریت بھلا کہاں گوارا ہو سکتی تھی؟ اس لیے انھوں نے مصر میں اسلامی قوتوں کے خلاف خوب رکاوٹیں کھڑی کیں، لیکن منتخب صدر محمد مرسی ان مشکلات سے بخوبی نمٹتے رہے۔
ریفرنڈم کے ان دونوں مرحلوں میںمصر میں اسلامی قوتوں کی کامیابی مغربی قوتوں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ مصر کے حالات خراب کرنے میں روز اول سے اسلام دشمن قوتیں ملوث ہیں۔ اس لیے اس بات کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ مصر میں اسلام پسندوں اور صدر مرسی کے خلاف مصر کے لادین طبقوں کی مغرب حمایت کر رہا ہے۔ اس لیے کہ امریکا سمیت مغربی قوتیں اسرائیل کی تائید و حمایت میں کچھ بھی کر سکتی ہیں۔ پوری دنیا میں جمہوریت کے فروغ کے دعویدار امریکی اور مغربی حکمراں مسلم ملکوں میں مختلف حیلوں، بہانوں سے لوگوں کو اپنے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔
ایران میں ڈاکٹر مصدق کی منتخب حکومت کے مقابلے میں رضا شاہ پہلوی کی بادشاہت کی حمایت سے لے کر مصر میں حسنی مبارک کی تیس سال سرپرستی تک اس حقیقت کی بہت سی ناقابل تردید مثالیں موجود ہیں۔ الجزائر میں اسلامک سالویشن فرنٹ نے پارلیمنٹ میں 80 فی صد نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی، اس کے باوجود مغربی قوتوں نے اس کے مقابلے میں فوجی آمریت سے تعاون کیا۔ فلسطین میں حماس کی دو تہائی نشستوں پر کامیابی کے باوجود اس کی حکومت کے خاتمے کے لیے امریکا اور اس کے اتحادیوں نے ہر ممکن ہتھکنڈا استعمال کیا۔ پاکستان میں 2008کے انتخابات میں دینی اتحاد کی پے درپے کامیابیوں پر امریکا نے کہا تھا کہ اگر نتائج ان کے لیے سازگار نہ ہوئے تو ان کے پاس الجزائر آپشن موجود ہے۔
اسی طرح افغانستان میں میں روس کو شکست دینے کے لیے امریکا نے طالبان اور القاعدہ کی کھل کر حمایت کی لیکن جب اپنا مقصد پورا ہو چکا اور یہ محسوس کیا کہ طالبان اور القاعدہ ہمارے حکم پر عمل نہیں کرینگے تو پھر یہی طالبان اور القاعدہ دہشت گرد ٹہرے۔ مشرق وسطی میں آنیوالے انقلابات کا زمانہ تو کوئی بہت پرانا نہیں ہے۔ جب وہاں کے عوام نے اپنے آمر بادشاہوں کے خلاف اعلان بغاوت کیا تو امریکا نے اپنے مفاد جمہوریت کے فروغ کے لیے انھیں اسلحہ سمیت ہر قسم کا تعاون فراہم کیا لیکن جب وہاں اس کی مرضی کے لوگ آگے نہ آ سکے تو ان کے خلاف مختلف ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کر دیے۔
اسی طرح شام میں ہو رہا ہے۔ امریکا نے شام میں ہر اس گروہ کو اسلحہ دیا جو بشار الاسد کے خلاف جدوجہد کر رہا تھا، لیکن النصرہ کے بارے میں محسوس کیا کہ یہ جماعت مغرب کی مرضی کے مطابق کام نہیں کرے گی تو اس پر پابندی لگا دی گئی۔ اسی قسم کا معاملہ مصر میں اخوان کے ساتھ بھی ہوا ہے، انقلاب کے دنوں میں تو امریکا نے اخوان کی بھرپور حمایت کی لیکن جب اخوان نے کھل کر مصر میں اسلام کے نفاذ کی بات کی تو امریکا نے مختلف ہتھکنڈوں سے ان کے خلاف سازشوں کے تانے بانے بننا شروع کر دیے۔
مصر میں منتخب صدر محمد مرسی، نئے آئین کے خلاف احتجاج اور مصر کے حالات خراب کرنے میں بھی امریکا سمیت مغربی قوتیں ملوث ہیں کیونکہ وہ پوری دنیا میں کسی مظبوط اسلامی حکومت کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتے۔ مصر میں مضبوط اسلامی حکومت کو برداشت نہیں کر سکتے اس لیے مصر میں امریکا کے کاسہ لیس عناصر امریکا کی سرپرستی میں مصری حکومت اور نئے آئین کے خلاف خفیہ اور کھلی سازشیں کر رہے ہیں۔


عابد محمود عزام
ایکسپریس نیوز


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں