جنرل ڈائر اور بلوچستان

جنرل ڈائر اور بلوچستان

برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں جنرل ڈائر کا نام ظلم اور دہشت کی علامت ہے۔
جنرل ڈائر نے 1919ء میں امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں بیرسٹر سیف الدین کچلو اور ستیا پال کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنے والے پرامن مظاہرین پر اندھا دھند فائرنگ کرائی جس میں سینکڑوں مرد و عورتیں اور بچے مارے گئے۔


 فوجی وردی میں ملبوس اس دہشت گرد کو صرف اتنی سزاملی کہ وہ بریگیڈیئر جنرل کے عہدے سے ہٹا دیا گیا کیونکہ برطانوی حکومت کا خیال تھا کہ ڈائر نے دراصل 13اپریل 1919ء کو سینکڑوں بے گناہوں کو قتل کرکے اپنی ایک ہم وطن انگریز اسکول ٹیچر کی بے عزتی کا بدلہ لیا جسے امرتسر کے ایک بازار میں مارا پیٹا گیا۔ ڈائر جبری ریٹائرمنٹ کے بعد واپس لندن پہنچا تو اس نے ایک کتاب لکھی۔
یہ کتاب 1919ء کے سانحہ جلیانوالہ باغ کے متعلق نہیں تھی بلکہ یہ کتاب 1916ء میں جنرل ڈائر کے بلوچستان میں فوجی آپریشن کے متعلق تھی۔
1921ء میں شائع ہونے والی اس کتاب کا نام ”ریڈرز آف سرحد“ تھا۔ جنرل ڈائر نے بلوچستان کی شمال مغربی سرحد پر بلوچ قبائل کے خلاف ایک آپریشن کیا جس کا مقصد بلوچ قبائلی سرداروں اور جرمن حکومت کے درمیان روابط کو ختم کرنا اور باغی سرداروں کو عبرت کی مثال بنانا تھا کیونکہ یہ باغی سردار برطانوی فوج پر مسلسل چھاپہ مار حملے کر رہے تھے اور ایران کے ساتھ سرحدی علاقے میں برطانوی حکومت کی رٹ ختم کر رہے تھے۔
 پہلی جنگ عظیم کے تناظر میں جنرل ڈائر کی اس مہم کی کافی اہمیت تھی لیکن جنرل ڈائر اس مہم میں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہ کرسکا۔ کوئی بڑی کامیابی نہ ملنے کے باوجود اس نے کتاب لکھ ڈالی جس کا مقصد صرف اور صرف سانحہ جلیانوالیہ باغ کے داغ کو مٹانا تھا لیکن وہ یہ داغ بھی نہ مٹا سکا۔
بلوچستان کے ایک معروف شاعر اور ادیب میر گل خان نصیر نے بہت سال بعد جنرل ڈائر کی اس تصنیف کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ کر دیا تاکہ جنرل ڈائر کے خلاف گمشادزئی اور یار محمد زئی قبائل کی جرأت و بہادری سے لڑی گئی جنگیں بلوچوں کی تاریخ کا قصہ بن سکیں۔
جنرل ڈائر کی کتاب سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ کس طرح اس نے ایک بلوچ قبیلے کو دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی، ریکی قبیلے میں سے ایک غدار عیدوخان تلاش کیا، اس کے ساتھ مل کر گمشادزئی قبیلے کے بہادر سردارخلیل خان کوشہید کیا لیکن اس کے باوجود وہ جنید اور شاہسوار نامی سرداروں کو اپنی اطاعت پر مجبور نہ کرسکا۔
اس کتاب کے مطالعے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جب جنرل ڈائر کو ایرانی بلوچستان سے متصل علاقوں میں بلوچ قبائل کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تو اس نے اپنی مدد کے لئے ہزارہ پائنیئر رجمنٹ کو کوئٹہ سے بلا لیا۔
جنرل ڈائر نے اپنی مکاری کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کوئٹہ سے بلائے گئے تین سو ہزارہ جوان شیعہ تھے اور سرحدی علاقے کے سنیوں سے لڑنے کے لئے بڑے مشتاق تھے۔
برطانوی فوج کے ایک سینئر افسر کا یہ طرز فکر انتہائی قابل غور ہے ۔ وہ بلوچ قبائل کوزیر کرنے کے لئے فرقہ واریت کا سہارا لے رہا تھا۔ اس مکار شخص نے تین سال کے بعد 1919ء میں امرتسر کے جلیانوالہ باغ کو گھیرا ڈال کر جن فوجیوں کو فائرنگ کا حکم دیا ان میں ایک بھی انگریز نہیں تھا۔
فائرنگ کرنے والوں میں 65کا تعلق گورکھا رجمنٹ اور 25کا تعلق بلوچ رجمنٹ سے تھا۔ ڈائر نے کہیں فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلائی، کہیں نسلی تعصب ابھارنے کی کوشش کی۔ ڈائر کی کتاب کے اردو ترجمہ ”بلوچستان کے سرحدی چھاپہ مار“ کے مطالعے کے دوران میں بار بار سوچتا رہا کہ ڈائر تو چلا گیا لیکن اس کی سوچ کہیں نہیں گئی۔
آج بھی کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی مکار ذہن جنرل ڈائر کی طرح لڑاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی پر گامزن ہے۔ آج بھی بلوچوں کو شیعہ، سنی تنازعے میں الجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور مختلف زبانیں بولنے والوں میں نفرت کو ہوا دی جا رہی ہے۔
آج بھی بلوچستان میں قتل عام جاری ہے۔ لاپتہ افراد اور مسخ شدہ لاشوں کا مسئلہ عالمی اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ لاپتہ افراد کی بازیابی اور مسخ شدہ لاشیں سڑکوں پر پھینکنے والوں کے احتساب کا مطالبہ کیا جائے تو کہا جاتا ہے کہ آپ کو ایف سی اور فوج کے جوانوں پر حملے کرنے والے نظر کیوں نہیں آتے؟
یہ وہ دلیل ہے جو جنرل ڈائر نے جلیانوالیہ باغ میں قتل عام کے بعد دی تھی۔ اس نے کہا تھا کہ مجھ پر تنقید کرنے والوں کو میرے ہم وطنوں پرحملے کیوں نظر نہیں آتے؟ جنرل ڈائر نے برطانوی باشندوں پر حملہ کرنے والے اصل ملزمان پر فائرنگ نہیں کی تھی بلکہ بیساکھی کے دن جلیانوالہ باغ میں دو سیاسی رہنماؤں کی گرفتار کے خلاف احتجاج کرنے والے نہتے لوگوں پر فائرنگ کی تھی تاکہ لوگ آئندہ کسی سیاسی جلسے جلوس میں شرکت نہ کریں۔
آج بلوچستان میں بھی یہی ہو رہا ہے۔وہ ناراض نوجوان جو ایف سی اور فوج پر حملے کرتے ہیں ان میں سے بہت کم گرفتار ہوتے ہیں۔ اگر گرفتار ہو جائیں تو انہیں عدالتوں میں پیش کرنے کی بجائے قتل کرکے سڑکوں پر پھینکا جاتا ہے۔ ایف سی اور خفیہ ادارے عام طورپر غلط اطلاعات کی بنیاد پر بے گناہ لوگوں کو گرفتار کرلیتے ہیں جن کا تعلق یا تو بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) سے یا نیشنل پارٹی سے ہوتا ہے حالانکہ یہ پارٹیاں وفاق سے ناراض ضرور ہیں لیکن انہوں نے ابھی تک علیحدگی کا نعرہ نہیں لگایا۔
بلوچستان کے حالات کے بارے میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے حال ہی میں ایک مفصل رپورٹ جاری کی ہے۔
اس رپورٹ میں بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ لاپتہ افراد کوقرار دیا گیا ہے۔
افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس رپورٹ کے مطابق جنرل پرویز مشرف کے دور میں 2000ء سے 2007ء تک بلوچستان میں لاپتہ افراد کی تعداد 63تھی لیکن موجودہ جمہوری حکومت کے ساڑھے چار سال میں بلوچستان کے لاپتہ افراد کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔
سپریم کورٹ لاپتہ افراد کے مسئلے کو 2007ء سے حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن نہ تو جنرل مشرف نے سپریم کورٹ کی بات مانی اور نہ موجودہ حکومت سپریم کورٹ سے تعاون کر رہی ہے۔
ایچ آر سی پی نے اپنی رپورٹ میں سپریم کورٹ کی کوششوں کو سراہا ہے۔ اب معاملہ سپریم کورٹ سے نکل کر اقوام متحدہ کے ایک ورکنگ گروپ تک جا پہنچا ہے۔
کچھ لوگوں کو لاپتہ افراد کے معاملے میں اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ کی پاکستان آمد بہت بری لگی ہے اور وہ ایک بہت بڑی عالمی سازش کی نوید دے رہے ہیں ۔
ان لوگوں سے گزارش ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو اوراپنے سابق آقا جنرل پرویز مشرف کا انجام دیکھو جو آج پاکستان واپسی کو ترستا ہے۔
جنرل مشرف کی باقیات جنرل ڈائر کی سوچ پر عملدرآمد کرتے ہوئے لاپتہ افراد کا معاملہ حل کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ یہی و ہ باقیات ہیں جو نواب اکبر بگٹی کے قاتلوں کو بھی گرفتار نہیں ہونے دیتیں۔
 پاکستان کا دشمن اقوام متحدہ کا ورکنگ گروپ نہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے جنرل ڈائر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بلوچستان کو جہنم بنایا اور پاکستان کے حق میں ووٹ دینے والے نواب اکبر بگٹی کوشہید کیا۔
جنرل ڈائر نے ایک غدار عیدوخان ریکی تلاش کیا تھا لیکن آج بلوچستان میں کئی عیدوخان ریکی پیدا ہو چکے ہیں، یہ غدار بلوچستان کو نہیں بچا سکتے۔
بلوچستان کو بلوچ، پشتون، ہزارہ اور دیگر قومیتوں کا اتحاد بچا سکتا ہے اور اس اتحاد کی طرف بڑھنے کے لئے پہلا قدم لاپتہ افراد کی بازیابی ہے یہ قدم نہ اٹھایا گیا تو حالات ٹھیک نہ ہونگے اور غداروں کے لئے بلوچستان کی زمین آخر کارتنگ ہو جائے گی اور ان کا آخر ٹھکانہ جنرل ڈائر کی طرح لندن ہوگا۔

قلم کمان …حامد میر


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں