برما ميں مسلمانوں کا قتل عام

برما ميں مسلمانوں کا قتل عام

ميانمار (برما) کے صوبے اراکان ميں بدھ اکثريت کے لوگ مسلمانوں کا قتل عام کر رہے ہيں. اب تک بيس ہزار مسلمان عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو بڑي بے رحمي اور سفاکي سے قتل کرديا گيا ہے جبکہ يہ سلسلہ ابھي تک جاري ہے. مسلمانوں کے اس قتل عام ميں برما کي فوجي جنتا بھي شامل ہے بلکہ اس کے صدر نے اپنے ايک اخباري بيان ميں واضح طور پر کہا ہے کہ ان روہنگيا مسلمانوں کو اراکان صوبے سے نکال کر کسي دوسرے ملک ميں بسا ديا جائے. اس طرح برما ميں مسلمانوں کي نسل کشي پر ابھي تک کسي مسلمان ملک نے کھل کر اس کي نہ تو مذمت کي ہے اور نہ برمي مسلمانوں کي امداد اور تحفظ کيلئے کچھ کيا ہے. اتنا جاني نقصان ہونے کے بعد اب اسلامي ملکوں کي تنظيم او آئي سي نے اس نسل کشي کو روکنے کے سلسلے ميں اقوام متحدہ سے رجوع کيا ہے.
برما کے اخباروں نے مسلمانوں پر اس بے جا اور بہيمانہ ظلم کے خلاف لکھتے ہوئے ايک اداريئے ميں لکھا ہے کہ کسي مسلمان نے مبينہ طور پر ايک بدھ لڑکي کے ساتھ زيادتي کي تھي جس کي بنياد پر بدھ عوام مشتعل ہو گئے. انہوں نے ابتدا ميں مسلمانوں کے گھروں کو آگ لگانا شروع کي اور بعد ميں مقامي پوليس اور نيم فوجي دستوں کے ساتھ مل کر ان کا قتل عام شروع کرديا حالانکہ بدھ لڑکي کے ساتھ مبينہ زيادتي کا عدالت نے سخت نوٹس ليا تھا اور اس نوجوان کو گرفتار بھي کر ليا تھا ليکن مسئلہ کچھ اورتھا. يہ روہنگيا مسلمان آٹھ صدي قبل برما ميں آئے تھے اور اراکان صوبے ميں اپني بودوباش اختيار کي تھي. اس صوبے ميں کل تعداد آٹھ لاکھ کے قريب ہے جبکہ ميانمار (برما) ميں مسلمانوں کي تعداد4 فيصد ہے. يہ مسلمان اقليت ميں ہونے کے باوجود تعليم اور تجارت ميں اپنا مضبوط مقام بنا چکے ہيں جبکہ مقامي آبادي (بدھ مت کے ماننے والوں کي تعداد 80 فيصد ہے) ان کے مقابلے ميں زيادہ ترقي يافتہ نہيں ہيں غالباً يہ بھي ايک وجہ ہے جس نے مسلمان اقليت کو اکثريت کے غيظ و غضب کا نشانہ بنا ديا ہے.
قتل و غارت گري سے بچنے کے لئے يہ مسلمان بنگلہ ديش کي طرف جا رہے ہيں جہاں اراکان صوبے کي سرحد ملتي ہے ليکن بنگلہ ديش کي حکومت نے انہيں اپنے يہاں لينے سے انکار کرديا ہے اور انہيں واپس دھکيلا جارہا ہے حالانکہ ان مسلمانوں ميں بنگلہ ديشي مسلمان بھي شامل ہيں جو کئي دہائياں قبل اراکان صوبے ميں آ کر بس گئے تھے. اس لئے بنگلہ ديش کي حکومت کو انہيں بے دخل نہيں کرنا چاہئے. حيران کن بات يہ ہے کہ مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف برما کي جمہوري تحريک کي باني آنگ سان سوکي نے بھي کھل کر مذمت نہيں کي ہے اور صرف اتنا کہا ہے کہ ہمارے ملک ميں انساني حقوق کي پامالي نہيں ہوني چاہئے. دراصل وہ برما کي فوجي جنتا کو ناراض نہيں کرنا چاہتي ہيں کيونکہ وہ بہت جلد برما کي وزيراعظم بننے کا خواب ديکھ رہي ہيں. انساني حقوق کي عالمي تنظيميں بھي برما ميں مسلمانوں کي نسل کشي کے خلاف اپنا منہ بند کئے ہوئے ہيں. امريکي صدر بارک اوباما بھي اس نسل کشي پر خاموش ہيں حالانکہ انہيں بھي امن کا نوبل انعام مل چکا ہے اور وہ بھي دنيا بھر ميں اپنے بيانات کے ذريعے انساني حقوق کے احترام کا پرچار کرتے رہتے ہيں. صدر اوباما کو شام ميں اسد کي حکومت کا حزب اختلاف کے خلاف کريک ڈاؤن تو نظرآتا ہے اور وہ اس کي مذمت بھي کرتے ہيں بلکہ شام پر اقتصادي پابندياں لگانے کي بھي کوشش کرتے ہيں ليکن انہيں برما ميں مسلمانوں پر ہونے والا ظلم نظر نہيں آ رہا ہے، شايد اس لئے کہ امريکي تاجروں نے آہستہ آہستہ برما ميں اپنا سرمايہ لگانا شروع کرديا ہے. اس طرح امريکہ بھي برما کي حکومت کو ناراض نہيں کرنا چاہتا. بھارت اورچين دونوں برما ميں بہت عرصے سے تجارت کر رہے ہيں ليکن ان دونوں ملکوں نے بھي مسلمانوں کي نسل کشي پر کسي قسم کے مذمتي الفاظ ادا نہيں کئے ہيں تاہم بھارت کي کئي مسلمان تنظيموں نے برما ميں ہونے والي مسلمانوں کي نسل کشي پر اپنے گہرے غم و رنج کا اظہار کيا ہے اور حکومت پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ اس سلسلے ميں برما کي حکومت کو مسلمانوں کي نسل کشي سے باز رکھنے کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھائے. پاکستان ميں صرف جماعت اسلامي وہ واحد سياسي جماعت ہے جس نے سب سے پہلے برما کے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و زيادتي پر اپني بھرپور آواز بلند کي ہے اور ان انسانيت سوز مظالم پر اپنا سخت احتجاج ريکارڈ کرايا ہے. کراچي ميں جماعت اسلامي نے شاہراہ فيصل پر برما کے بے کس اور بے گھر مسلمانوں کي حمايت ميں مظاہرے بھي کئے ہيں تاکہ برما کے مسلمانوں کو يہ معلوم ہو جائے کہ وہ اس قيامت کي گھڑي ميں تنہا نہيں ہيں. مسلمان ممالک چاہيں تو برما ميں مسلمانوں کي نسل کشي رکوا سکتے ہيں ليکن نہ معلوم کيوں وہ ايسا کرنے سے گريزاں ہيں. ايران کي حکومت نے بہرحال برما کے مسلمانوں کے قتل عام پر برما کي حکومت کي مذمت کي ہے بلکہ اقوام متحدہ سے درخواست کي ہے کہ وہ اس ظلم و زيادتي کو فوراً رکوانے کي کوشش کرے. انڈونيشيا کي بعض مذہبي تنظيموں نے بھي برما کے مسلمانوں کي نسل کشي پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے برما کي حکومت سے مطالبہ کيا ہے کہ وہ اس بہيمانہ ظلم کو بند کرے. انہوں نے اپني حکومت سے بھي اپيل کي ہے کہ وہ برما کي حکومت سے اپني تجارتي تعلقات پر نظرثاني کرے. برما ميں مسلمانوں کي نسل کشي پر پاکستان کے مسلمانوں کو بھي اپنے برمي بھائيوں کي مدد کرني چاہئے۔

آغا مسعود حسين

(بہ شکریہ اداریہ جنگ نیوز)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں