دوستی

دوستی

دوستی اللہ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا انعام اور اس کی خاص رحمت اور خاص نعمت ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ محبت سونا ہے اور دوستی کی محبت کندن، یعنی خالص سونا…. ہر طرح کی ملاوٹ اور میل کچیل سے پاک…. آزمائش کی بھٹی سے بار بار گزرکر آیا ہوا سونا۔ آزمائش کا تصور دوستی کے حوالے سے بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آزمائش کے بغیر دوستی محض ایک تصور ہی، صرف ایک قیاس ہے۔
ایک آدھ بار آزمائش سے گزری ہوئی دوستی، دوستی کو چکھ لینے کے مترادف ہے۔ البتہ بار بار کی آزمائشوں سے گزری ہوئی دوستی حقیقی اور ٹھوس دوستی ہے۔ ایسی دوستی جس کے لیے جان دیتے ہوئے بھی آدمی کو محسوس ہو کہ ہم نے دوست کے لیے کیا ہی کیا ہی؟ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ سب سے اچھے دوست انبیا و مرسلین کو فراہم ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی دوستی اللہ کے لیے تھی۔
اللہ کے تعلق کی برکت ہی ہے کہ رائی پہاڑ بن جاتی ہے۔ ذرہ آفتاب ہوجاتا ہے۔ پھر تعلق میں انسان کا پورا وجود شامل ہوجاتا ہے اور انسان میں ایک ایسی فداکاری پیدا ہوجاتی ہے کہ زندگی کائناتی رقص کا حصہ بن جاتی ہے۔
انبیا و مرسلین میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جیسے اصحاب یا جیسے دوست فراہم ہوئے اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر حضرت ابوبکر صدیقؓ کو حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ سی، اور حضرت عمرؓ کو حضرت نوح ؑ اور حضرت موسیٰ ؑ سے تشیبہ دی اور حضرت علیؓ سے فرمایا کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو حضرت ہارونؑ کو حضرت موسیٰ ؑ سے تھی، مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں حضرت ابوبکرؓ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ محبت تھی۔ روایات میں اس محبت کے اظہار سے منسلک ایسے ایسے واقعات بیان ہوئے ہیں کہ ان کو پڑھنے اور سننے سے دل زندہ اور روح تابندہ ہوجاتی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر ہجرت میں حضرت ابوبکرؓ آپ کے ساتھ تھے۔ چلتے چلتے حضرت ابوبکرؓ کبھی آپ کے دائیں جانب آجاتے کبھی بائیں جانب۔ کبھی آپ کے آگے چلنے لگتے کبھی پیچھے۔آپ نے فرمایا: ابوبکرؓ کیا کچھ خوف محسوس کررہے ہو؟ حضرت ابوبکرؓ نے کہا: یہ بات نہیں، معاملہ یہ ہے کہ جب مجھے خیال آتا ہے کہ دشمن دائیں جانب سے آپ پر حملہ آور نہ ہوجائے تو میں آپ کے دائیں جانب آجاتا ہوں، جب مجھے خیال آتا ہے کہ کہیں دشمن بائیں جانب سے آکر آپ کو نقصان نہ پہنچادے تو میں بائیں جانب آجاتا ہوں۔ غور کیا جائے تو یہ شمع کے گرد پروانے کے طواف کا منظر ہے اور اس میں ایسی وارفتگی ہے کہ جس میں حضرت ابوبکرؓ کا کوئی شریک نہیں۔
آپ نے غارِ ثور میں قیام فرمایا تو حضرت ابوبکرؓ پہلے خود غار میں گئے کہ کہیں کوئی موذی غار میں موجود نہ ہو۔ غار ثور میں کئی ایسے سوراخ تھے جن میں سانپ اور بچھو ہوسکتے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے انہیں اہتمام سے پُر کیا اور پھر حضور اکرم سے اندر آنے کو کہا۔ آپ تھکے ہوئے تھے اس لیے تھوڑی دیر میں حضرت ابوبکرؓ کے زانوں پر سر رکھ کر سوگئے۔ حضرت ابوبکرؓ نے دیکھا کہ غار میں ایک سوراخ بند ہونے سے رہ گیا ہے تو اسے اپنے پاوں سے بند کردیا۔ لیکن اس میں بچھو تھا جس نے حضرت ابوبکرؓ کے ڈنک مارنا شروع کردیا، لیکن انہوں نے اس خیال سے جنبش نہ کی کہ کہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ نہ کھل جائے۔ تاہم درد کی شدت اتنی بڑھی کہ حضرت ابوبکرؓ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئی، ان میں سے چند آنسو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ انور پر گرے تو آپ کی آنکھ کھل گئی۔ حضرت ابوبکرؓ کی اس محبت نے انہیں یہ مقام عطا کیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنیا میں کوئی ایسا شخص نہیں جس کے احسان کا بدلہ میں نے نہ چکادیا ہو، مگر ابوبکرؓ کے احسان کا بدلہ اللہ ہی چکا سکتا ہے۔
عیسائیت کی تاریخ کی عظیم شخصیتوں سینٹ آگسٹین یا سینٹ تھامس ایکویناس میں سے کسی ایک کا واقعہ ہے کہ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ گھر کی بالائی منزل میں بیٹھا ہوا تھا کہ اس کے کچھ دوستوں نے دریچے میں جاکر اچانک کہا: وہ سامنے دیکھو اڑنے والا گھوڑا۔ سینٹ آگسٹین یا سینٹ تھامس ایکویناس یہ سنتے ہی دریچے میں پہنچا۔ دوست یہ دیکھ کر ہنسنے لگی، کہنے لگی: تم نے کیسے یقین کیا؟ اڑنے والے گھوڑے کا کوئی وجود ہی نہیں۔ سینٹ آگسٹین یا سینٹ تھامس نے جواب دیا: اڑنے والے گھوڑے کی موجودگی پر یقین کرنا آسان ہے البتہ دوستوں کی بات پر اعتبار نہ کرنا بہت دشوار ہے۔
عام زندگی میں بھی دوستی کا تجربہ غیر معمولی ہوسکتا ہے، بالخصوص بچپن اور نوجوانی کی دوستیاں عجیب ہوتی ہیں۔ ان میں ایک طلسم کی کیفیت ہوتی ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ بچپن اور نوجوانی کے دور میں ہمارے کئی دوست ایسے تھے کہ وہ اگر رات دو بجے ہمیں نیند سے بیدار کرکے کہتے کہ اسی وقت فلاں جگہ جانا ہے اور وہاں موجود کنویں میں چھلانگ لگادینی ہے تو ہم ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر اُن کے ساتھ چل دیتے اور کنویں میں چھلانگ لگاکر پوچھتی: اب بتاو کرنا کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ یک طرفہ تعلق نہیں تھا۔ ہم اپنے دوستوں سے کنویں میں چھلانگ لگانے کو کہتے تو وہ بھی یہی کرتے۔
یہاں سوال یہ ہے کہ دوستی کی قوت اور اس کے حسن و جمال کا سرچشمہ کہاں ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ دوستی کی طاقت اور اس کا حسن و جمال دوستی کی ”مساوات“ میں پایا جاتا ہے۔ انسان کے قریب ترین رشتے اس کے خاندان میں ہوتے ہیں، لیکن خاندان میں کوئی چھوٹا اور کوئی بڑا ہوتا ہے، لیکن دوستی میں کوئی چھوٹا اور بڑا نہیں ہوتا، سب برابر ہوتے ہیں۔ دوستی میں کوئی امیر غریب نہیں ہوتا، سب مساوی ہوتے ہیں۔ دوستی میں کوئی عالم اور جاہل نہیں ہوتا، سب یکساں ہوتے ہیں۔ دوستی کی روح، دوستی کا جذبہ، دوستی کا احساس بلند و پست کے ہر فرق کو مٹادیتا ہے۔ اس صورت ِحال سے دوستی میں ایک ایسی برجستگی پیدا ہوجاتی ہے جو تعلق کو کبھی ”پرانا“ نہیں ہونے دیتی۔ گھریلو رشتوں میں فی زمانہ دوستی پیدا کرنا دشوار ہوتا جارہا ہے، لیکن جہاں ان رشتوں میں دوستی کا عنصر در آتا ہے، ان کا تصنع رفع ہوجاتا ہے، اس لیے کہ دوستی تصنع کی دشمن ہے۔ دوستی کا کمال یہ ہے کہ وہ رشتوں کو بدلے بغیر انہیں خوب صورت بناتی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ دوستی کبھی مشروط نہیں ہوتی۔
دوستی کے ان کمالات کی وجہ سے دوستی میں انسانی شخصیات کی نمو کے جتنے امکانات ہوتے ہیں اتنے امکانات کسی اور تعلق میں نہیں ہوتے۔ یہ بات اکثر لوگوں کو شعوری طور پر معلوم نہیں ہوتی مگر دوستی کا تجربہ انہیں اس احساس سے ہم کنار رکھتا ہے کہ ان کی شخصیت مسلسل نمو پارہی ہے۔
دوستی کی ایک اور بڑی طاقت اس کی ”ابلاغی اہلیت“ ہے۔ انسانی تعلق کا ایک بنیادی راز یہ ہے کہ انسانی تعلق کی خرابی ایک اعتبار سے ابلاغ کے نظام کی خرابی سے رونما ہوتی ہے۔ افراد کے درمیان ابلاغ کا نظام درست طور پر کام کرتا رہے تو تعلق کی خرابی پر قابو پایا جاسکتا ہے، اس کو مُردہ ہونے سے بچایا جاسکتا ہے، اسے تروتازہ رکھا جاسکتا ہے۔
دوستی کا کمال یہ ہے کہ وہ دوستوں کے درمیان ابلاغ کے نظام کو سنبھالے رکھتی ہے۔ دوست کسی مصنوعی پن کا شکار ہوئے بغیر آزادی کے ساتھ اپنا مافی الضمیر بیان کرتے رہتے ہیں جس سے دوستی کو ضروری آکسیجن مہیا ہوتی رہتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو دوستی ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرکے زندگی کو مشترکہ طور پر برتنے اور جینے کا دوسرا نام ہے۔
یہاں سوال یہ ہے کہ فی زمانہ دوستی کی صورت حال کی ابتری کی کیا وجہ ہے؟ نٹشے کا ایک فقرہ معرکہ آرا ہے، اس نے کہا ہے: Live Dangerously۔ اس کا ایک بامحاورہ ترجمہ یہ ہے کہ خطرات سے کھیلتے ہوئے زندگی گزارو۔ اس کا دوسرا بامحاورہ اور نسبتاً آزاد ترجمہ یہ ہے کہ تحفظات کے بغیر زندہ رہنے کی کوشش کرو۔
بچپن اور جوانی کا حسن یہ ہے کہ اس دور میں انسان کے مفادات نہیں ہوتی، اس لیے وہ تحفظات کے بغیر زندگی بسر کرتا ہے۔ لیکن جیسے جیسے انسان بڑا ہوتا جاتا ہے اس کے مفادات اس کا اصل مسئلہ بنتے چلے جاتے ہیں۔ وہ اپنی سماجیات سے محبت کرنے لگتا ہے، اسے اپنی معاشیات سے عشق ہوجاتا ہے۔ ان چیزوں کی محبت اسے کسی سے دوستی کے لائق نہیں رہنے دیتی۔
ہمارے عہد کا المیہ یہ ہے کہ اس نے بڑوں کیا نوجوانوں اور بچوں تک کو سماجی اور معاشی مفادات یا تحفظات کا شکار کردیا ہے۔ اس صورت ِحال نے ہمارے لیے ”دوسرے“ کو اہم نہیں رہنے دیا، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اب ہم دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنے پر بھی تیار نہیں ہوتے۔ سماجیات اور معاشیات کے عشق نے ہمیں اپنے لیے کافی کردیا ہے۔ ایسے ماحول میں دوستی نہ پیدا ہوسکتی ہے، نہ فروغ پاسکتی ہے، اور نہ حسن و جمال کی حامل ہوسکتی ہے۔

شاہ نواز فاروقی
(بہ شکریہ اداریہ جسارت)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں