سولہ دسمبر

سولہ دسمبر

حبیب جالب آپ نے صحیح کہا تھا :
محبت گولیوں سے بورہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھورہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھورہے ہو
نہ جانے کتنے چہرے تھے جو لہو رنگ ہوئے، نہ جانے کتنے نعشیں تھیں جو بےگورو کفن ہوئیں، مائیں اپنی عصمتیں نہ بچا پائیں اپنے گُلالوں کو کیا بچاتیں اور رہے ہم، اپنا ںصف بدن کیسے بچاتے جب اسے دو لخت کرنے میں “شمشیر” ہی ہماری اپنی تھی
کس پہ الزام مکینوں نے لگائے ہونگے
گھر ہی جب گھر کے چراغوں نے جلائے ہونگے
یہ تھا خراج جو سرزمیں ڈھاکہ پر آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھنے کا، جو”اہلیان پاکستان”نے بنگالی عوام کے خون سےوصول کیا، وہی بنگالی جنھیں دیئے گئے القابات آج بھی سُنے جاسکتے ہیں بھوکابنگالی، ٹکے ٹکے کے لوگ (یہ بات دیگر ہے کہ یہی ٹکہ آج ہمارےروپے سےبھی بھاری ہوگیا ہے)نا انصافیوں، محرومیوں اور نفرتوں کی ایسی داستان جسے سبط کیجیئے تو دفتر کے دفتر درکار ہوں۔
یہ جمہورت اور عوامی حکومت کے دعویدار اور انکی جماعت کے بانی سارے سبق بھولے ہوئے تھے جب حکومت بنانے کا حق اہل مشرقی پاکستان کا تھا اور یہ جرنیل کے ہم نوالہ و ہم پیالہ بنے ہوئے تھے، یہ جرنیل اُنھی جرنیلوں کا تسلسل تھے جو اپنے دور حکومت کے دوران مشرقی پاکستان میں بڑا افسر توچھوڑیئے تھانے میں بنگالی ایس ایچ او بھی تعینات نہیں ہونے دیتے تھے، یہ ُپٹ سن کی فصل وہاں اُگاتے تھے اور اُسکی کمائی یہاں اُڑاتے تھے، محصولات کی وصولی کیلیئے پورا پاکستان اور تقسیم کے وقت اولین آدھا پاکستان اور ان مظالم کیخلاف آواز بلند کرنے والے غدار پاکستان
لُٹیروں نے جنگل میں شمعیں جلادیں
مسافر یہ سمجھے کہ منزل یہیں ہے
صدیق سالک صاحب 16 دسمبر1971ءکو آپ نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا تھا اور16 دسمبر 2011ءکو میں بلوچستان ڈوبتے دیکھ رہا ہوں فرق صرف یہ ہے کہ ڈھاکہ اب بنگلہ دیش کا ہے اور بلوچستان اب تک ہمارا،(مگر نہ جانے کب تک)، اگر حالات پر قابو نہ پایا، اگر تاریخ کے کوڑا دان سے اسباب سقوط ڈھاکہ کے بوسیدہ اوراق پر ایک نظر کرم نہ کی تو  ہمیں خدشہ ہے کہ کہیں پھر کوئی تاریخ کا ورق ہمارے سامنے کُھلا ہو اور پھر کوئی صدیق سالک کسی جرنیل سے پوچھے :آپ نے تو کہا تھا کہ ہندوستان کے ٹینک میرے سینے پر سے گزریں گے جب ہی سقوط ڈھاکہ ممکن ہوسکے گا، وہ جرنیل مسکراتے ہوئے کہے اگر ایسا ہوتا تو کیا نتیجہ مختلف ہوتا؟ اور صدیق سالک کا جواب پھر وہی ہو :”سر، نتیجہ تو شاید مختلف نہیں ہوتا، ہاں تاریخ ضرور مختلف ہوتی”۔۔۔۔۔۔۔

(بہ شکریہ ڈی نیوز ٹرائب)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں