ناروے میں مسیحی انتہاپسندوں کی دہشت گردی اور عالمی و علاقائی امن کے قیام کے تقاضے

ناروے میں مسیحی انتہاپسندوں کی دہشت گردی اور عالمی و علاقائی امن کے قیام کے تقاضے

نارویجن وزیراعظم جیز سٹولٹن برگ نے دو روز قبل ناروے کے سرکاری دفاتر میں دھماکوں اور حکمران پارٹی کے تربیتی کیمپ میں فائرنگ سے ایک سو کے قریب افراد کی ہلاکتوں کو ایک بھیانک خواب قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ انکے ملک میں دوسری جنگ عظیم کے بعد ایسے بھیانک جرم کا اتنا بڑا واقعہ کبھی نہیں ہوا۔ اوسلو میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ انہوں نے بھی حکمران لیبر پارٹی سے وابستہ نوجوانوں کے اس تربیتی کیمپ کی جنت میں شریک ہونا تھا جسے حملے کا نشانہ بنا کر جہنم میں تبدیل کردیا گیا۔ دوسری جانب جائے وقوعہ سے گرفتار ہونیوالے حملہ آور آندرے بیرنگ بریوک نے، جس نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرلی ہے، گرفتاری کے وقت اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ یہ حملے وحشیانہ ہیں مگر اسکے خیال میں ایسا کرنا ضروری تھا۔
32 سالہ ملزم بریوک دائیں بازو کا مسلم مخالف کٹر مسیحی ہے جسے آج بروز پیر عدالت میں پیش کیا جائیگا۔ ملزم کے ایک کلاس فیلو مائیکل ٹومالا نے بھی اس امر کی تصدیق کی کہ ملزم حالیہ دنوں میں بہت زیادہ شدت پسند ہوگیا تھا۔
ناروے کے ان خونیں واقعات کی اقوام متحدہ، آسیان، یورپی یونین سمیت پوری دنیا نے مذمت کی ہے۔ جرمن چانسلر انجیلا مرکل کے بقول یہ حملے ممکنہ طور پر دوسروں سے نفرت کا نتیجہ ہیں۔ یو این سیکرٹری جنرل بان کی مون، پاکستان کے صدر مملکت آصف علی زرداری، یورپی کونسل کے صدر ہرمن وین رومیوٹی اور نیٹو کے سربراہ آندرس فوگ راسموسن نے بھی ناروے کے ان دہشت گردانہ واقعات کو بربریت سے تعبیر کیا ہے۔ انسانیت کے قتل کی، چاہے وہ جہاں پر بھی ہو اور جس بھی پس منظر میں ہو، تائید نہیں کی جاسکتی جبکہ ناروے جیسے پرامن ملک میں دہشت گردی کے ایسے واقعات کا رونما ہونا جہاں ناروے حکومت کیلئے لمحہ فکریہ ہے وہاں انسانیت کے ٹھیکیداروں اور کسی بھی حوالے سے انسانی منافرت کا باعث بننے اور اسے فروغ دینے والے خودساختہ برتر انسانوں کیلئے بھی سوچنے کا مقام ہے کہ مذہبی، علاقائی یا لسانی بنیادوں پر انسانوں میں تفریق پیدا کی جائیگی اور اپنی برتری کے زعم میں دوسرے انسانوں کے قتل عام اور انکے ساتھ بربریت کے دوسرے واقعات کو جائز سمجھا جائیگا تو انکی تصور کی گئی اپنی جنت بھی ردعمل میں مظلوم اور معتوب انسانوں کے ہاتھوں جہنم میں تبدیل ہوسکتی ہے، جیسا کہ ناروے کے وزیراعظم سٹولٹن برگ کو حکمران پارٹی کے نوجوانوں کیلئے قائم کیا گیا تربیتی کیمپ پلک جھپکتے میں جنت سے جہنم میں تبدیل ہوتا نظر آیا ہے اور جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل نے ان خونیں واقعات کو دوسروں سے منافرت کا شاخسانہ قرار دیا ۔
وہ تو اچھا ہواکہ اس واقعہ میں ملوث ایک ملزم بیرنگ بریوک نے جو ناروے کا انتہاپسند مسیحی باشندہ ہے، اعترافِ جرم کرلیا ورنہ مغربی میڈیا نے تو اپنے خبثِ باطن کی بنیاد پر اس واقعہ کے ساتھ ہی سارا ملبہ مسلم انتہاپسندوں پر ڈالنا شروع کردیا تھا جس کے قلابے مسلم امہ کیخلاف جاری کروسیڈ کی بنیاد پر روائتی طور پر پاکستان کے قبائل کے ساتھ ہی ملائے جاتے جیسا کہ نیویارک سکوائر کے دہشت گردی کی محض کوشش کے نام نہاد واقعہ کی کڑیاں فوری طور پر پاکستان کے قبائلی علاقوں کے ساتھ ہی ملائی گئی تھیں جن کی بنیاد پر پاکستان پر دہشت گردی کے خاتمہ سے متعلق عالمی دباﺅ کا سلسلہ طولانی ہوگیا اور آج بھی اسے دنیا میں تنہا کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
ناروے کے متذکرہ واقعات کا چاہے جو بھی پس منظر ہو، اس سے ایک بات تو واضح طور پر ثابت ہوگئی ہے کہ دوسرے مذاہب بالخصوص ہندوﺅں اور مسیحیوں میں بھی ایسے شدت پسند موجود ہیں جو اپنے مذہبی مقاصد کی خاطر عالمی اور علاقائی امن تہہ بالا کرنے میں قطعاً حجاب محسوس نہیں کرتے۔ بے شک ناروے دنیا کا پرامن ترین ملک ہے مگر جن ملعونوں نے فیشن کے طور پر یا اپنے انتہاپسندانہ مذہی جذبات کی تسکین کیلئے حضرت نبی ¿ آخر الزمان کے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کو اپنا شعار بنایا اور توہینِ قرآن و رسالت میں آج بھی پیش پیش نظر آتے ہیں ان میں ناروے کے مادر پدر آزاد ملعون بھی شامل ہیں۔ توہینِ انبیاءو مذہب کے ایسے مکروہ واقعات ہی تو انسانی منافرت کی ایسی فضا پیدا کرتے ہیں جس کا ردعمل کبھی نائن الیون، کبھی سیون سیون، کبھی ممبئی حملوں اور کبھی ناروے خونیں حملوں کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اگر ناروے کے ان واقعات میں ملوث ملزم بریوک کی نشاندہی نہ ہوتی تو نہ جانے اب تک راسخ العقیدہ مسلمانوں کے بارے میں کیا حشر نہ اٹھالیا گیا ہوتا۔
مسلمانوں کے بارے میں مغرب، یورپ بالخصوص امریکہ میں جو نفرت انگیز تعصب پایا جاتا ہے، اسکے مظاہر ہمارے خطہ میں جاری امریکی مفادات کی جنگ کی صورت میں انسانیت کے نام نہاد علمبردار مہذب معاشروں کے سامنے ہیں اور حد تو یہ ہے کہ ایک نہتی بے بس خاتون ڈاکٹر عافیہ صدیقی سمیت پاکستان کے بے شمار مسلمان شہریوں کو بغیر کسی جرم کے محض شبہ کی بنیاد پر سالہاسال عقوبت خانوں میں ڈال کر انہیں ذہنی اور جسمانی اذیت کے مراحل سے گزارا جاتا رہا اور پھر امریکی متعصب عدالت نے خاتون کے تقدس کا بھی خیال نہ کیا اور معصوم ڈاکٹر عافیہ کو مجموعی 86 برس قید کی سزا کا حکم سنا دیا۔ اس وقت بھی امریکی جیلوں میں قید باشندوں کی اکثریت مسلمانوں کی ہے اور ان میں بھی زیادہ تر پاکستان کے مسلمان باشندے شامل ہیں۔ اس سلسلہ میں پاکستانی سفارتخانہ کی جانب سے دفتر خارجہ کو قیدیوں کی جو فہرست بھجوائی گئی اس میں 210 پاکستانیوں کے نام بھی شامل ہیں اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے علاوہ پانچ دیگر خواتین حنا حفیظ، عصرہ اشرف، شہربانو موسیٰ، ہما جاوید اور پروین بھٹی بھی امریکی جیلوں میں جرم بے گناہی کی سزا بھگت رہی ہیں۔ جب نہتی خواتین کو بھی اسلام دشمن، متعصب معاشروں میں بربریت کا نشانہ بنایا جائیگا تو ان نام نہاد مہذب معاشروں کو سوچ رکھنا چاہئے کہ اسکا ردعمل کس صورت اور کس انداز میں سامنے آسکتا ہے۔
ناروے کے دہشت گردی کے واقعات میں شدت پسند اور انتہاپسند مسیحی ملوث ہیں تو وہ نارویجن حکومت کے کسی مذہب دشمن عمل کے ردعمل میں ہی اس انتہا تک پہنچے ہوں گے، اس لئے بین المذاہب مکالمے کی ضرورت کا احساس کرنیوالے امریکی صدر باراک اوباما اور مغربی یورپی ممالک کے دوسرے حکمرانوں کو سنجیدگی کے ساتھ اس امر کا جائزہ لینا چاہئے کہ تعصب پر مبنی انکے معاشروں کی برگشتگی بالخصوص دینِ اسلام کے بارے میں انتہاپسندی پر مبنی انکے جذبات و تعصبات کا تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق کیا ردعمل سامنے آسکتا ہے۔ کیا ایسے تعصبات اور منافرتوں کی بنیاد پر ہی علاقائی اور عالمی امن کو تہہ و بالا نہیں کیا جا رہا اور کیا اب ضروری نہیں کہ بالخصوص فلاح انسانیت کا آفاقی فلسفہ اور پیغام لیکر آنیوالے رحمت اللعالمین حضرت نبی آخر الزمان کی شان میں گستاخی کی روش اختیار کرنیوالے مغربی ممالک کے سارے ملعونوں کی گردنیں ناپ کر علاقائی اور عالمی امن کی راہ ہموار کی جائے اور مسلمانوں کے بارے میں متعصبانہ سوچ اور رویہ ترک کردیا جائے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی سمیت جو بھی مسلمان مرد و خواتین مذہبی تعصبات کی بھینٹ چڑھ کر امریکہ، یورپ کی جیلوں میں گل سڑ رہی ہیں، تکریم انسانیت کی پاسداری کرتے ہوئے ان سب کو آزاد کردیا جائے اور تقدیس انبیا و مذہب کو اپنا شعار بنالیا جائے۔
دنیا میں نظر آنیوالی ناروے کے واقعات جیسی افراتفری کو انسانی برابری، مذہبی برداشت و رواداری اور اخوت و محبت کا درس دینے والے شرفِ انسانیت کو فروغ دیکر ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔ ناروے کے افسوسناک واقعات مذہبی تفاخر و تعصبات میں لپٹے ہوئے نام نہاد مہذب مغربی معاشروں کیلئے بلاشبہ لمحہ فکریہ ہیں۔

(بشکریہ نواے وقت)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں