نماز توحید کا سب سے بڑا مظہر ہے، مولانا عبدالحمید

نماز توحید کا سب سے بڑا مظہر ہے، مولانا عبدالحمید
molana30اس جمعہ کے خطبے میں حضرت شیخ الاسلام دامت برکاتہم نے قرآنی آیت:» وأقم الصلاة طرفى النهار وزلفا من الليل إن الحسنات يذهبن السيئات ذلك ذكرى للذاكرين« کی تلاوت کرتے ہوئے نماز کے بارے میں گفتگو کی۔

انہوں نے کہا میرا خیال ہے جب تک معاشرے میں نماز کی درستگی پر توجہ نہیں دی جائے گی معاشرہ ٹھیک نہیں ہوگا۔ معاشرے میں سب سے پہلے ایمان وعقائد کی تصحیح وتقویت پر زور دینا چاہیے اس کے بعد نماز کی ادائیگی ودرستگی کا نمبر آتاہے۔ جب مسلمانوں نے قرآن وسنت اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے دوری اختیار کی تو اختلافات اور دوریاں اسلامی معاشرے میں نمودار ہوئیں۔ سیاسی، معاشرتی اور معیشتی مسائل سمیت دیگر مشکلات کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے۔ مسلم امہ جس طرح زمانے کے لحاظ سے نبی کریم صلى الله عليه وسلم اور صحابہ رضي الله عنهم کے دور سے دور ہے اسی طرح عملی طور پر فاصلے اور دوریوں کا شکار ہے۔ اختلافات اور مختلف قسم کی دشمنیوں کے بعد ہی مسلمانوں کے دشمن ان پر غالب ہوئے۔ ماضی میں سارے مسلمان متحد تھے اور قیادت وحکومت انتشار کے بجائے ایک فرد کے ہاتھ میں تھی۔ لیکن آج کل اسلامی سرزمین کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ ان تمام مصیبتوں کی وجہ قرآن وسنت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے مثال تعلیمات سے روگردانی ہے۔
جامع مسجد مکی کے خطیب نے مزید کہا ایمان اور عقائد کے بعد سب سے اہم رکن نماز ہے جس پر شریعت نے بہت زور دیا ہے۔ نماز توحید کا سب سے بڑا مظہر ہے؛ «أقیمواالصلوةولاتکونوا من المشرکین» چونکہ نماز نہ پڑھنا یا شرک ہے یا مشرکین کے اعمال کے مشابہ ایک عمل ہے۔
انفرادی واجتماعی زندگی پر نماز کے اثرات کی اہمیت بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا جب آدمی نماز کے لیے کھڑا ہوتاہے تو اللہ تعالی اور اس نمازی کے درمیان تمام موانع ختم ہونے چاہیں۔ نماز کے ثواب اپنی جگہ البتہ انفرادی واجتماعی زندگی پر اس کے اثرات انتہائی مثبت ہیں۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق بچوں کو سات سال ہونے کے بعد نماز کی ادائیگی کا حکم دینا چاہیے۔ دس سالہ بچے اگر نماز نہ پڑھیں تو انہیں سختی سے منع کیا جائے۔ والدین جس طرح اپنے بچوں کی تعلیم اور دنیوی مسائل کو اہمیت دیتے ہیں اسی طرح نماز ودیگر عبادات پر بھی انہیں توجہ دینی چاہیے۔
مولانا عبدالحمید دامت برکاتہم نے امام شاہ ولی اللہ دھلوی کی کتاب “حجۃ اللہ البالغۃ” کی عبارت: ((جس عبادت کو اللہ تعالی نے فرض قرار دیا ہے جیسا کہ نماز، روزہ، زکات وغیرہ اس کے ساتھ نوافل بھی ہیں۔ جس طرح فرائض اہم ہیں اسی طرح نوافل بھی اہمیت کے حامل ہیں، کوئی شخص نوافل کی ادائیگی سے کسی کو نہیں روک سکتا مگر اوقات مکروہہ میں (طلوع وغروب آفتاب کے وقت، نماز فجر سے طلوع آفتاب تک، نماز عصر سے مغرب تک ))۔ نقل کرتے ہوئے نفلی عبادات کی اہمیت واضح کردی۔ یہ مختصر زندگی ایک سنہری فرصت ہے۔ زیادہ سے زیادہ عبادت کرکے وقتوں کو قیمتی بنانا چاہیے۔ حدیث شریف میں آتاہے جو شخص وضو کرکے قلبی توجہ کے ساتھ دو رکعت نفل پڑھے اللہ تعالی اس کے تمام گناہوں کو معاف فرماتاہے۔ گناہ کے ارتکاب کے بعد دو رکعت نماز پڑھ کر مغفرت کی دعا کرنی چاہیے۔ کسی کام کے بارے فیصلے نہ کر پانے اور تذبذب کی صورت میں دو رکعت استخارے کی نیت سے نماز پڑھنی چاہیے۔ وضو کے بعد دو رکعت تحیۃ الوضو پڑھنا علو درجات کا باعث ہے۔ اسی نماز کی برکت تھی کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے جنت میں حضرت بلال رضي الله عنه کی آہٹ اپنی تشریف آوری سے پہلے سنی۔ سب کو نماز پڑھنی چاہیے۔ کالجز اور دیگر تعلیمی اداروں کے اساتذہ کو نوافل کے ذریعے اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنا چاہیے۔ جمعے کی نماز فرض عین اور اسلام کی بنیاد اور شعائر دین میں سے ہے۔ نماز جمعہ اصلاح وتزکیہ کے علاوہ دو جمعے کے درمیان سرزد ہونے والے گناہوں کی بخشش کا ذریعہ بھی ہے۔ تفریح اچھی چیز ہے مگر نماز کو بھی نہیں چھوڑنا چاہیے۔ جو شخص بلاعذر جمعے کی نماز کے لیے نہیں آتا اس کا شمار منافقوں میں ہوتاہے۔ تین جمعے کی نمازوں کو بلاعذر نہ پڑھنے سے تارک جمعے کے دل پر مہر لگ جاتی ہے۔
دارالعلوم زاہدان کے سرپرست مولانا عبدالحمید نے مزید کہا ہر صورت میں نماز اداء کرنی چاہیے۔ ہر جگہ نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ مسجد نہیں ملی تو کسی پارک یا فٹ پاتھ پر نماز اداء کیجیے اگر چہ لوگ تمہارا مذاق اڑائیں۔ اگر نماز کے وقت آپہنچے اور کوئی مسجد آپ کو نظر آئے تو اسی میں نماز ادا کریں۔ ہر مسجد اللہ تعالی کی ہے، شیعہ کی ہے نہ ہی سنی کی۔ شیعہ وسنی دونوں مسجد نماز پڑھنے کے لیے بناتے ہیں۔ اس بارے میں حساس ہونا ایک طرح کی نادانی ہے۔
بات آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے مزید کہا ہمارا نقطہ نظر اور عقیدہ یہ ہے کہ نمازی جس فقہ اور مسلک کے مطابق نماز پڑھنا چاہتاہے وہ آزاد ہے۔ جو ذمہ دار شخص یونیورسٹیوں میں با جماعت نماز پر پابندی لگاتاہے وہ در اصل خالق حقیقی سے دور ہے۔ ایک مسلک کے پیروکاروں کو ان کے غیر مسلک امام کی اقتدا میں نماز ادا کرنے پر مجبور کرنا مطلق جہالت ہے۔ کسی شیعہ یا سنی کو مخالف مسلک کی اقتدا میں نماز پڑھنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ یونیورسٹیز، چھاؤنیوں اور دیگر سرکاری اداروں میں نماز کے حوالے سے ہر شخص کو آزاد ہونا چاہیے کہ جماعت کے ساتھ نماز ادا کرے۔ نمازی کو کسی بھی فتوے کے مطابق نماز پڑھنے کی آزادی حاصل ہونی چاہیے۔
،،کرمان،، کی اہل سنت برادری تیس سالوں سے آزادانہ طور پر جمعہ وعیدین کی نمازوں کو ادا کرتے چلے آرہے ہیں لیکن گزشتہ دنوں اس شہر میں جمعہ وعیدین پر پابندی لگادی گئی۔ سوال یہ ہے اس پابندی سے اسلام کو کیا فائدہ پہنچا؟ افسوسناک بات ہے کہ “یزد” ، “اصفہان” سمیت بعض دیگر شہروں میں بھی جمعہ وعیدین کی نمازوں پر پابندی لگائی جاچکی ہے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای سمیت تمام حکام  سے میری اور تمام سنی برادری کی درخواست ہے کہ ایران کے کسی بھی علاقے میں ہمیں اپنی فقہ کے مطابق نماز پڑھنے دیجیے۔ یہ ہمارا قانونی حق ہے۔ ایرانی اہل سنت کی ایک بہت بڑی پریشانی یہ ہے کہ ان کی فقہ میں بعض عناصر دخل اندازی کرتے ہیں۔
آئین کی رو سے ہمیں مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے لیکن عملی طور پر ہم امتیازی سلوک کا شکار چلے آرہے ہیں۔ بعض آہنی مگر خفیہ ہاتھ ہمارا راستہ روکنا چاہتے ہیں۔ جن علاقوں میں سنی برادری اقلیت میں ہے وہاں ان پر بے جا دباؤ نہیں ڈالنا چاہیے۔ اسی طرح تعلیم کے شعبے میں دخل اندازی ناقابل برداشت ہے۔ جس طرح کالجوں اور یونیورسٹیوں کی تعلیم آزادانہ ہے اسی طرح دینی تعلیم بھی آزاد ہونی چاہیے۔ ہر فقہ اور مسلک کے پیروکاروں کو قانونی حق حاصل ہے کہ اپنی فقہ کے مطابق اپنے بچوں کو تعلیم دلوائیں۔ حکام جواب دیں کہ سنی مسلمان اگر کسی شہر میں اپنے گھروں یا کسی ادارے کے نماز خانوں میں با جماعت نماز پڑھیں یا جمعے کی نماز ادا کریں تو یہ کام کونسے قانون اور شریعت کی منافی ہے؟
آخر میں حضرت شیخ الاسلام دامت برکاتہم نے علاقے کے امن وامان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اغوا برائے تاوان کے بڑھتے ہوئے واقعات کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ انہوں نے کہا شرعی و عقلی لحاظ سے یہ حرکت مردود ہے جو پہلے ہمارے معاشرے میں نہیں تھی۔ یہ رسمِ بد کہیں اور سے ادھر آئی ہے کہ بیگناہ لوگوں اور بچوں کے ہاتھ پاؤں باندھ کر انہیں تاوان کے لیے اٹھایا جاتاہے۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا والدین، قبائلی عمائدین ودیگر با اثر افراد کو چاہیے ایسے لوگوں کا راستہ روکیں اور ان جرائم بیشہ افراد کی سرگرمیوں کا نوٹس لیں۔ اسلام نے اس طرح کی حرکتوں کو حرام قرار دیا ہے، تعجب کی بات یہ ہے کہ ان کاروائیوں میں ملوث افراد خود کو مسلمان گردانتے ہیں۔ اسلام نے مسلمانوں کی جان ومال اور ناموس محفوظ اور دوسروں کے لیے حرام قرار دیاہے۔ یہ چیزیں کار وبار میں ناجائز ہیں تو بلاعوض تاوان کے لیے کیسے جائز ہوسکتی ہیں۔ جو لوگ ایسی حرکتوں میں ملوث ہیں ان کی دنیا وآخرت برباد ہوتی ہے۔ ان افراد کو ہماری نصیحت ہے کہ توبہ کرکے اپنے گزشتہ گناہوں پر معافی مانگ لیں اگر کسی کا حق ان پر ہے تو اسے واپس لوٹا کر حلال روزی کے لیے تلاش کریں۔ اگر کسی کا حق اور قرضہ ایک شخص پر ہے تو اپنا حق حاصل کرنے کیلیے اْسے قانونی راستہ اختیار کرنا چاہیے۔
حضرت شیخ الاسلام دامت برکاتہم نے آخر میں کہا تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد خاص کر علمائے کرام اور دانشوروں کی ذمہ داری ہے کہ امن وامان کی صورتحال بہتر بنانے اور عوام کے مطالبات کے لیے قانون کی راہ اپنالیں۔

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں