اس لیے راقم نے ارادہ کیا اس مختصر میں تاریخ اور بلدان کی کتابوں کے صفحات اِدھر اُدھر کرکے طوس کے حوالے سے بعض اقتباسات قارئین کی خدمت میں پیش کرے۔ تاریخی کتابوں اور شہروں کے بارے میں لکھنے والوں کا کہنا ہے طوس خراسان کی عظیم سرزمین میں واقع تھا۔ یہ شہر نیشابور سے دس فرسخ ( 48 کلومیٹر) کے فاصلے پر واقع تھا۔ طوس در اصل دو چھوٹے شہروں کا مجموعہ تھا ایک کا نام طابران دوسرے کا نا نوقان تھا۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دور میں یہ شہر فتح ہوا۔ اسی شہر میں علی بن موسی الرضا رحمۃ اللہ علیہ اور معروف عباسی خلیفہ ہارون الرشید کی قبریں واقع ہیں۔ معجم البلدان کے مصنف حموی نے مسعر بن مہلہل سے نقل کیا ہے: “طوس کے چار محلے (بلدیہ) ہیں جن میں دو محلے بڑے ہیں اِس شہر میں قابل قدر اسلامی آثار موجود ہیں۔ ایک بڑا “محل دار حُمید بن قحطبہ” اس شہر کے قابل ذکر مقامات میں سے ہے جس کا رقبہ ایک میل ہے۔ اس کے باغوں میں علی بن موسی الرضا اور ہارون الرشید کی قبریں واقع ہیں۔ طوس اور نیشابور کے درمیان ایک بہت بڑا اور مضبوط قلعے واقع ہے جس کی دیواریں اتنی لمبی اور بنیادیں اس قدر مستحکم ہیں کہ اس کی مثال میں نے کبھی نہیں دیکھی ہے۔ قلعے میں بڑے بڑے شاندار محلات ہیں جن کی خوبصورتی بے مثال ہے۔ اہلیان شہر اس بات پر متفق ہیں کہ یمن سے چین جاتے ہوئے “بنوتبع” كے بعض تاجروں نے یہ قلعے تعمیر کی۔ اپنے خزانوں کو چھپانے کے لیے انہیں یہ جگہ محفوظ نظر آئی چنانچہ یہ قصر اسی مقصد کے لیے تعمیر کیا گیا پھر اس میں ایک نہر بھی کدوائی گئی۔ خزانوں کے بارے میں کسی کو علم نہیں تھا کہ کہان دفنائے گئے ہیں۔ سارے نقشے اور خفیہ سرنگوں کے پتہ انہیں کے پاس تھے۔
بنوتبع كے تاجروں نے بعض قیمتی اشیاء اسی قصر میں چھوڑ رکھا تھا۔ یہاں تک کہ ہمارے (مسعر بن ہلہل) دور میں اسعد بن ابی یعفر کو اس بارے میں معلوم ہوا۔ اسعد نے تمام خزانے نکلوا کر خزانوں سمیت یمن کی طرف روانہ ہوا۔”
طوس اپنے دونوں حصوں کے ساتھ آج کل ایران کے دوسرے بڑے شہر مشہد کے قلب میں واقع ہوچکاہے جس کا نام اب طوس نہیں بلکہ مشہد کا ایک حصہ ہے جس کا الگ تشخص بھی نہیں ہے۔
طوس کی نامور شخصیات
طوس سے تعلق رکھنے والے اہل علم وفقہ کی تعداد سینکڑون میں ہے۔ اس مختصر میں بعض مشہور اور اجلّ علماء کا ذکر کریں گے۔ مناسب ہوگا ابتدا حجۃ الاسلام والمسلمین ابو حامد محمد غزالی طوسی سے کی جائے۔
آپ ائمہ دین کے امام تھے۔ بیان وخطابت، ذکاوت وذہانت میں لاثانی تھے۔ امام احمد راذکانی رح سے فقہ کے بعض ابواب بچپن میں سیکھنے کے بعد طوس کے بعض دوسرے نوجوانوں کے ساتھ نیشابور تشریف لے گئے۔ نیشابور میں امام الحرمین سے استفادہ کا شرف حاصل کرکے مختصر مدت میں قرآن کے حفظ مکمل کرکے دیگر علوم سے بھی فراغت حاصل کرگئے۔ امام الحرمین ہی کے دور میں اپنے معاصرین اور ساتھیوں سے ایک بڑھ ایک ممتاز مقام ھاصل کرچکے تھے۔ آپ نے تدریس کے بعد تصنیف کا آغاز کردیا یہاں تک کہ امام الحرمین کا انتقال ہوا۔ آپ رح کے انتقال کے بعد امام غزالی رح نے نیشابور کو چھوڑکر بغداد کا رخ کیا۔ نظام الملک کی مجلس میں آپ کو ایک خاص مقام حاصل تھا۔ اپنی بلند مرتبی، شہرت، حسن مناظرہ اور فصاحت کی وجہ سے آپ انتہائی مقبول واقع ہوئے تھے۔ نظام الملک کی مجلس میں بڑے بڑے علماء وفقہاء کا گزر ہوتا تھا۔ مخالفین بھی مباحثے کے لیے آبیٹھتے تھے۔ امام غزالی رح کے لیے یہ ایک سنہری موقع ثابت ہوا جہاں علمائے کرام سے استفادہ کے علاوہ آپ مخالفین کی باتیں سن کر ان کو بھی لاجواب چھوڑتے تھے۔
وقت کا پہیہ چلتارہا یہاں تک کہ آپ نے بغداد کا رخ کرکے معروف دانش گاہ “نظامیہ” میں قیام پذیر ہوئے۔ ان کی بہترین تدریس اور طرز مناظرے نے انہیں انتہائی مقبول بنادیا۔ چنانچہ خراسان کی امامت کے بعد آپ “امام العراق” بھی بن گئے۔ نظامیہ میں دوران قیام امام غزالی (رح) نے علم اصول پر مطالعہ کیا اور اس بارے میں چند کتابیں بھی لکھ ڈالیں۔
فقہ میں تجدیدی کارنامے سرانجام دیتے ہوئے اس موضوع پر بھی بعض تصانیف چھوڑگئے۔ اس کے علاوہ بہت سارے دیگر فنون پر بھی گہرے مطالعے کے بعد کتابیں تحریر کےچکے تھے کہ شہرت کی آخری حدوں کو چھونے کے بعد اچانک ان کا رجحان زہد، سادہ زیستی، تکلفات سے دوری اور تزکیہ نفس کی طرف مایل ہوا۔ چنانچہ امام غزالی (رح) نے تمام آسائشوں اور ناز ونعمت کو چھوڑ کر سرزمین وحی کا رخ کیا۔ حج کرنے کے بعد شام تشریف لے گئے جہاں دس سال تک سکونت اختیار کی۔ اسی دوران انہوں نے اپنی مشہور اور بے نظیر تصانیف لکھیں جیساکہ “احیاء علوم الدین”، بعض چھوٹی کتابیں مثلاً اربعین اور بہت سارے رسالے جنہیں مطالعہ کرکے امام غزالی (رح) کی عظمت کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔
شام میں رہتے ہوئے ان کی زیادہ توجہ تزکیہ، مجاہدہ نفس، تہذیب اخلاق اور اصلاح معاش پر رہی چنانچہ طلب جاہ ومقام اور رعونت کی صفات سکون نفس، اخلاق حسنہ اور پر فریب مناظر ومظاہر سے نفرت میں تبدیل ہوئیں۔ علوم شریعت وطریقت سے فیض یاب ہونے کے بعد امام غزالی (رح) نے اپنے وطن میں رہنے کو ترجیح دی جہاں 14 جمادی الثانی 505 ھ۔ق میں آپ کا انتقال ہوا۔ طوس کے بلدیہ طابران میں جان دینے والے امام غزالی (رح) کی پیدائش سنہ 455 ھ۔ق میں ہوئی تھی۔ آپ (رح) کے جسد خاکی کو طابران ہی میں دفنایا گیا۔
تمیم بن محمد ابو عبدالرحمن الطوسی
علم حدیث کے ماہر اور صاحب مسند “تمیم الطوسی” حدیث کے سماع کے لیے حمص چلے گئے۔ سلیمان بن سلمۃ الخیاری سے استفادہ کرکے مصر میں محمد بن رُمح و دیگر علماء ومحدثین سے کسب فیض کیا۔ خراسان کے اسحاق بن راھویہ، حسن بن عیسی الماسرجسی و دیگر محدثین سے آپ نے استفادہ کیا۔ سرزمین عراق جاتے ہوئے عبدالرحمن بن واقد الواقدی، امام احمد بن حنبل، ہدبہ بن خالد اور شیبان بن فروح سے علم حاصل کیا۔
اسی طرح ایک بڑی جماعت نے آپ سے روایت کی جیسا کہ علی بن جمشاد العدل، ابوبکر بن ابراہیم بن البدر اور علماء کی ایک بڑی تعداد۔ حاکم نیشابوری نے لکھا ہے کہ تمیم بن محمد بن طمغاج ابوعبدالرحمن الطوسی محدث، ثقہ (قابل اعتماد)، کثرت سے سفر کرنے والے، حدیث جمع کرنے والے اور لکھنے والے تھے۔ المسند الکبیر کے مولف تھے جسے میں نے بعض مشایخ کے پاس دیکھا۔
زیاد بن ایوب بن زیاد الطوسی البغدادی
علم حدیث میں آپ کو حافظ اور ثقہ کا مقام حاصل تھا۔ آپ کا شمار تبع تابعین سے علم حاصل کرنے والوں کے اکابرین میں ہوتاہے۔ امیرالمومنین فی الحدیث امام بخاری، ابوداود، ترمذی اور امام نسائی رحمۃ اللہ علیہم جیسے محدثین کے روات میں آپ کا نام آتا ہے۔ آپ کی پیدائش سنہ 166 ھ۔ق میں ہوئی اور وفات 252 ھ۔ق کو بغداد میں ہوئی۔ امام احمد رح کہا کرتے تھے زیاد الطوسی “شعبۃ الصغیر” (فن حدیث کا مستقل شعبہ )تھے۔
عبداللہ بن ہاشم الطوسی الراذکانی
ان کا شمار بھی بڑے علماء میں ہوتاہے جو تبع تابعین کے تلامذہ میں سے تھے۔ آپ کی پیدائش طوس میں ہوئی مگر زیادہ تر نیشابور میں رہے۔ آپ (رح) نے ابن عیینہ، یحیی القطان، ابن مہدی اور وکیع ودیگر محدثین سے روایت کی ہے۔ جبکہ امام مسلم، صالح بن محمد الاسدی، احمد بن سلمۃ، ابن صاعد، حاجب بن اراکین الفرغانی اور ابن خزیمہ نے اپنے صحیح میں آپ سے روایت کی ہے۔ احمد بن سیارنے لکھاہے عبداللہ طوسی طلب حدیث میں معروف تھے۔ حدیث کے طالب علم دور دراز علاقوں سے آپ کے دروازے پر پہنچ جاتے اور آپ کی روایات لکھ کر چلے جاتے۔ ابن حبان نے آپ کو ثقات اور بااعتماد محدثین اور راویوں میں شمار کیا ہے۔ آپ کی وفات کی تاریخ کے بارے میں تین اقوال ہیں۔ حسین بن محمد القبانی کے مطابق ذوالحجہ 155 ھ۔ق میں آپ کا انتقال ہوا۔ ابوالقاسم الطبری نے 158 اور احمد بن سیار 159 ھ۔ق کو آپ کی وفات کا سال قرار دیاہے۔
علی بن مسلم بن سعید الطوسی
بغداد میں طویل عرصے تک قیام کی وجہ سے آپ کو نزیل بغداد یعنی بغداد کا مہمان کہا جاتاہے۔
کثرت سے عبادت کرنے کی وجہ سے آپ کو عابد بھی کہا جاتاتھا۔ جن مشایخ سے آپ نے علم حاصل کیا ان میں یوسف بن یعقوب بن الماحبثون، ھیشم، ابن مبارک، عباد بن العوام، عباد بن عباد، ابن نمیر، یحیی بن زکریا بن ابی زائدۃ، عبدالصمد بن عبدالوارث اور ابوداود الطیالسی شامل ہیں۔ اسی طرح آپ سے بھی بڑے بڑے نامور محدثین نے استفادہ کیا۔ آپ سے روایت کرنے والوں میں امام بخاری(رح)، ابوداود سجستانی، امام نسائی، یحیی بن معین، احمد بن ابراہیم الدورقی، عبداللہ بن احمد بن حنبل، ابن ابی الدنیا، ابوبکر الاثرم، معاذ بن المثنی، ابراہیم بن حماد القاضی، ابوالقاسم البغوی، ابوبکر بن ابی داود، قاسم بن زکریا، ابن صاعد، ابن جریر طبری، حسین بن اسماعیل الحاملی، حسین بن یحیی بن عیاش القطان اور ابوالحسین محمد بن ھمیان البغدادی شامل ہیں۔ آپ کے بارے میں امام نسائی (رح) نے کہا ہے ان کو معتمد محدث سمجھتے ہیں۔ ابن حبان نے آپ کو ثقہ محدثین میں شمار کیا ہے۔
آپ کی پیدائش 160 ھ۔ق اور وفات 253 ھ۔ق کے جمادی الثانی میں ہوئی۔
طوس کی تباہی
اسلامی بلاد پر تاتاریوں کے وحشیانہ حملوں کے بعد “طوس” مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔ جو زندہ بچ گئے تھے وہ مشہد شہر میں پناہ گزین ہوئے جو اس وقت طوس کے مضافاتی علاقوں اور باغات میں شمار ہوتاتھا۔ طوس کے باسیوں نے اس شہر کو خوب آباد کیا یہاں تک کہ نادرشاہ افشار کے دور میں افشاریوں کا دارالحکومت بن گیا جو افغانیوں کے حملوں اور وحشی صفویوں کی حکومت کے خاتمے کے بعد اقتدار پر قابض ہوئے تهے۔
شاہ عباس صفوی ایک معروف فرقہ پرست حکمران تھا جس نے بہت سارے من مانی فیصلے کیے۔ شاہ عباس لوگوں پر زور دیتا تها کہ مکۃ المکرمہ کے بجائے مشہد کا رخ کرکے امام رضا(رح) کی قبر کی زیارت کریں۔ وہ کہتاتھا مکہ ومدینہ تک پہنچنے کے لیے عثمانیوں کے زیر انتظام علاقوں اور سرحدوں سے گزرنا پڑتاہے اور حجاز تک کا سفر انتہائی کٹھن ہے اس لیے بہتر یہی ہے کہ حرمین کو چھوڑ کر مشہد کی زیارت کی جائے۔ شاہ عباس بذات خود کئی مرتبہ مشہد کی زیارت کے لیے یہاں آیا اور ایک مرتبہ پیدل چل کر زیارت کے لیے مشہد آیاتھا۔ دوسری جانب شاہ عباس صفوی ایک انتہائی ظالم اور وحشی شخص کا نمونہ تہا جس نے اپنے دو بھائیوں اور دو بیٹیوں کو قتل کیا۔ والد کو جیل بھیج دیا اور دو بچوں کی آنکھیں نکالیں۔ بیس دنوں میں 70 ہزار گرجستانیوں کو قتل کرکے اپنے اقتدار كو اس طرح طول دیا۔
در حقیقت یہ سارے ہتھکنڈے اور مشہد کو اپنی ظالمانہ حکومت کا دارالحکومت بنانا تاتاریوں کے قتل عام کے منصوبے کی تکمیل تھی۔ چناچنہ اسلامی دنیا اور مشرق کے آسمان پر چمکنے والے طوس کا نام ہمیشہ کے لیے محو کیاگیا۔ طوس اب مشہد کا جزو بن چکاہے جسے صفویوں نے تعمیر کی ہے۔ یہ شہر اب ایرانی صوبہ خراسان رضوی کا صوبائی دارالحکومت ہے جو ملک کے شمال مشرق میں واقع ہے۔ آبادی کے لحاظ سے یہ شہر ایران کا دوسرا بڑا شہر ہے۔
آپ کی رائے