امید ہے نئے شمسی سال میں امتیازی سلوک کا خاتمہ ہو: مولانا عبدالحمید

امید ہے نئے شمسی سال میں امتیازی سلوک کا خاتمہ ہو: مولانا عبدالحمید
molana9خطیب اہل سنت زاہدان نے نئے شمسی سال (1389) کی آمد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ ایرانی حکام اپنی بعض پالیسیوں اور رویوں پر نظرثانی کرکے ہر صوبے اور شہر کے با صلاحیت افراد سے ان کے علاقے کے انتظام میں کام لیں، لوگوں کی شکایات سنیں اور تنگ نظر وانتہا پسند عناصر کو خود سے دور رکھیں۔ آنے والے سال میں امن وامان اور ملی اتحاد، مذہب وعقیدہ کی آزادی اور کسی بھی مذہب ومسلک کی مقدسات کی شان میں عدم گستاخی کو یقینی بنانا چاہیے۔ امتیازی سلوک پر مبنی پالیسیوں اور رویوں کا خاتمہ کرکے ہی نظام حکومت کو مستحکم کیا جاسکتاہے۔

جمعہ کی نماز سے پہلے “زاہدان” کے نمازیوں سے خطاب کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے اہل سنت والجماعت ایران کی مشکلات کی طرف اشارہ کیا۔ انہوں نے کہا اہل سنت برادری کی ایک بڑی مشکل معاشی بحران ہے جو ظاہری سرسبزی کے باوجود از حد محسوس ہوتاہے۔ حکومت کو معاشی مسائل حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا اہل سنت اور شیعہ برادری کے درمیان فقہی وشرعی مسائل میں بعض اختلافات ہیں لیکن مشترکہ اور اتفاقی امور اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ اس قبیل کے اختلافات فرقہ واریت کی بنیاد نہیں بنتے لیکن مذہبی گستاخی اور ایک دوسرے کی مقدسات کی توہین نیز عہدوں اور مناصب کی ظالمانہ تقسیم سے فرقہ واریت کو ہوا ملتی ہے۔
مولانا عبدالحمید دامت برکاتہم نے کہا صحابہ کرام اور ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم اہل سنت والجماعت برادری کی مقدسات ہیں۔ کسی کو یہ حق نہیں پہچتا کہ ان کی شان میں زبان درازی کرے۔ اس لیے حکام سے ہمارا مطالبہ ہے کہ شیعہ وسنی کے درمیان برابری ومساوات کا لحاظ رکھیں۔ حکام کی امتیازی پالیسیوں کی وجہ سے ایرانی اہل سنت کے دانشور اور قابل وباصلاحیت افراد انزوا میں ہیں۔
بات آگے بڑھاتے ہوئے شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے جنوبی بلوچستان کے “چابہار” علاقے میں اپنے تبلیغی واصلاحی سفر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا چابہار کے عوام نے حکام کے امتیازی سلوک کا بہت شکوہ کیا جو بالکل واضح اور صاف نظر آرہاتھا۔ سارے عہدے اور پوسٹس غیرمقامی افراد کے قبضے میں ہیں۔ ہر علاقے کے لوگوں کے پاس اپنے علاقے کا اختیار ہونا چاہیے۔
جس قوم کے پاس اپنے مستقبل کے لیے فیصلہ کرنے کا حق نہ ہو تو وہ قوم غیرمحفوظ ہوکر اس کی عزت داؤ پر لگے گی۔ ہر فرد کی عزت ہونی چاہیے اور اسلام کا حکم ہے کہ افراد کی عزت واحترام کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا زاہدان اور اپنے صوبے میں اس وقت ہمیں عزت واحترام کا احساس ہوگا جب ہم با اختیار ہوں۔ کم از کم بعض مقامی حکام سنیوں سے ہوں اور صوبائی امن کو نسل کے ارکان سارے شیعہ اور غیرمقامی نہ ہوں۔ سنی اکثریت صوبوں اور شہروں کی “تامین کو نسل” میں سنیوں کو شامل کرنا چاہیے۔
خطیب اہل سنت زاہدان وسرپرست اتحاد مدارس دینیہ اہل سنت سیستان وبلوچستان نے ایران کے نظام حکومت کو عوامی قرار دیتے ہوئے کہا جمہوری حکومت ہی عوام کی شکایات اور شکووں کو سنے گی نہ آمرانہ نظام۔ اس لیے حکام کو چاہیے فراخدلی کے ساتھ تنقید کو برداشت کرکے عوام کا جائز جواب دیں۔
مولانا عبدالحمید نے ملک کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز شخص کو قوم کے والد کی مانند قرار دیا۔ انہوں نے کہا اگر والد اولاد کے ساتھ انصاف نہ کرے اور بعض کو دوسروں پر ترجیح دے تو تباہی کے سوا اس کا کوئی نتیجہ نہیں ہے۔ ہماری نیت خیرہے اور خیرخواہی کی روسے یہ باتیں زبان پر لاتے ہیں۔ حکام سے ہمارا پرزور مطالبہ ہے کہ تنگ نظر وانتہاپسند عناصر کو اپنے ارد گرد سے دور رکھیں جو کسی صورت میں سنی برادری کی مذہبی آزادی اور عدل وانصاف کی فراہمی کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ شدت پسند افراد کا اثر ورسوخ شیعہ کے مفاد میں ہے نہ سنی کے۔ ہر مذہب وحکومت کے زوال کی ایک بڑی وجہ انتہاپسندی ہے۔ فراخدلی، وسیع النظری اور اعتدال سے استحکام وبقا آتی ہے۔

یاد رہے اکیس مارچ کو ایران وافغانستان سمیت بعض ملکوں میں بہار کی آمد کے ساتھ نئے ہجری شمسی سال کے آغاز کا جشن منایا جاتاہے۔ اس حساب سے گزشتہ شمسی سال میں ایران کی اہل سنت برادری نے سخت مشکلات کا سامنا کیا۔ متنازع صدارتی انتخابات کے بعد بعض سیاسی رہ نماؤں نے نادانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اختلافات کو صحابہ کرام کے مشاجرات واختلافات سے تشبیہ دی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام اسی طرح ازواج مطہرات کی شان میں گستاخی کی۔ امتیازی سلوک پر مبنی رویوں میں تیزی آئی اور متعدد سنی رہ نما قید خانوں میں بند کردیے گئے۔ ایرانی اہل سنت کے عظیم رہ نما مولانا عبدالحمید نے انہیں مسائل کی روشنی میں نئے شمسی سال کی آمد کے موقع پر اپنے اہم خیالات کا اظہار کیا۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں