عالم اسلام

طالبان: امریکہ سے مذاکرات قدم بہ قدم آگے بڑھ رہے ہیں تاہم معاہدے کی خبریں درست نہیں

افغان طالبان کا کہنا ہے امریکہ کے ساتھ ان کے مذاکرات آگے بڑھ رہے ہیں تاہم تاحال فریقین کے درمیان کسی معاہدے یا مسودے پر اتفاق نہیں ہوا ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ قطر کے دارالحکومت دوحا میں بات چیت قدم بہ قدم آگے بڑھ رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ زیرِ بحث معاملات انتہائی اہم اور حساس نوعیت کے ہیں اس لیے مذاکرات کو بہت دیکھ بھال کے آگے بڑھایا جا رہا ہے۔
ذبیح اللہ مجاہد نے یہ بھی کہا ہے کہ جنوری میں ہونے والی بات چیت میں افغانستان سے ’قابض طاقتوں‘ کے انخلا اور اس ملک کو دوبارہ استعمال نہ ہونے دینے پر اتفاقِ رائے ہوا تھا اور مذاکرات کے اس دور میں ان دونوں معاملات کی نوعیت اور تفاصیل پر بات ہو رہی ہے۔
تاہم انھوں نے واضح کیا کہ تاحال فریقین کے درمیان کسی معاہدے کی دستاویز یا معاہدے پر کوئی اتفاقِ رائے نہیں ہوا ہے۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس بارے میں کی جانے والی تمام پیشنگوئیاں اور افواہیں بےبنیاد ہیں۔
خیال رہے کہ افغان طالبان اور امریکہ کے نمائندوں کے درمیان بات چیت کا دور دو دن کے وقفے کے بعد سنیچر کو شروع ہوا تھا۔ اس دور سے قبل گذشتہ پیر سے مذاکرات کا تین روزہ دور منعقد ہوا تھا۔
مذاکرات کے دوبارہ آغاز پر امریکہ کے مرکزی مذاکرات کار زلمے خلیل زاد نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا تھا کہ افغانستان میں قیامِ امن کے لیے ہونے والی اس بات چیت سست روی سے مگر مستحکم طریقے سے آگے بڑھ رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اتفاقِ رائے اور حتمی طور پر افغانستان میں امن کے لیے آہستگی سے قدم بڑھائے جا رہے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ فریقین چار کلیدی معاملات پر توجہ مرکوز رکھیں گے جن میں افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا، القاعدہ اور داعش کے خلاف جنگ میں طالبان کا تعاون، جنگ بندی اور افغان حکومت سمیت تمام دھڑوں کی بات چیت میں شمولیت شامل ہیں۔
طالبان نے اب تک کابل میں افغان حکومت کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کرنے سے انکار کیا ہے اور اُن کا موقف ہے کہ افغان حکومت صرف ایک کٹھ پتلی حکومت ہے۔
اس ماہ کے آغاز میں افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کہا تھا کہ وہ طالبان کے ملک کے کسی بھی شہر میں دفتر کھولنے کے لیے تیار ہیں۔ تاہم طالبان نے صدر اشرف غنی کی اس پیشکش کو مسترد کر دیا ہے اور ان کا مطالبہ ہے کہ عالمی برادری دوحا میں موجود طالبان کے دفتر کو تسلیم کرے۔
کابل میں کچھ حلقوں میں اس حوالے سے ناراضگی پائی جاتی ہے کہ افغان طالبان افغان حکومت سے بات چیت کرنے پر راضی نہیں بلکہ وہ صرف امریکہ کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق طالبان اور امریکہ کے درمیان جس معاہدے پر بات ہو رہی ہے اس کے تحت غیر ملکی افواج ایک مقررہ مدت (18 ماہ) کے اندر افغانستان سے نکل جائیں گی، افغان طالبان کو بلیک لسٹ سے ہٹا لیا جائے گا جس سے ان پر عائد سفری پابندیاں ختم ہو جائیں گی اور قیدیوں کا تبادلہ بھی ہو گا۔
نیز طالبان اس بات کی ضمانت بھی دیں گے کہ افغانستان میں داعش یا القاعدہ جیسے دہشت گرد گروہوں کو محفوظ پناہ گاہیں مہیا نہیں ہوں گی۔
خیال رہے کہ 2014 میں بین الاقوامی فوجوں کے افغانستان کے انخلا کے بعد سے طالبان کے افغانستان میں اثر و رسوخ اور زیرِ کنٹرول علاقے میں اضافہ ہوا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق افغانستان کی تقریباً نصف آبادی، یعنی ڈیڑھ کروڑ لوگ طالبان کے زیرِ کنٹرول علاقوں میں آباد ہیں۔

baloch

Recent Posts

دارالعلوم مکی زاہدان کے استاد کو رہا کر دیا گیا

مولوی عبدالحکیم شہ بخش، دارالعلوم زاہدان کے استاد اور "سنی آن لائن" ویب سائٹ کے…

5 months ago

زاہدان میں دو دینی مدارس پر سیکورٹی حملے کے ردعمل میں دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ کا بیان

دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ نے زاہدان میں دو دینی مدارس پر سکیورٹی اور فوجی دستوں…

5 months ago

زاہدان میں دو دینی مدارس پر سکیورٹی فورسز کے حملے میں درجنوں سنی طلبہ گرفتار

سنی‌آنلاین| سیکورٹی فورسز نے آج پیر کی صبح (11 دسمبر 2023ء) زاہدان میں دو سنی…

5 months ago

امریکہ کی جانب سے غزہ جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کرنا ایک “انسانیت سے دشمنی” ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکہ کی طرف سے…

5 months ago

حالیہ غبن ’’حیران کن‘‘ اور ’’مایوس کن‘‘ ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے آج (8 دسمبر 2023ء) کو زاہدان میں نماز جمعہ کی…

5 months ago

دنیا کی موجودہ صورت حال ایک “نئی جہاں بینی” کی متقاضی ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے ایک دسمبر 2023ء کو زاہدان میں نماز جمعہ کی تقریب…

5 months ago