عالم اسلام

پاکستانی علما کا وفد کابل میں: جنگ بندی کے لیے ٹی ٹی پی کو قائل کرنے میں علما کا کردار کتنا اہم؟

معروف مذہبی سکالر مفتی تقی عثمانی کی سربراہی میں مذاکرات کی غرض سے پاکستانی علما کے وفد کی کابل آمد پر کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے اپنے پیغام میں کہا کہ وہ ‘نہ تو ملک دشمن تحریک ہیں اور نہ ہی ملک دشمن قوتوں کے زیرِ اثر ہیں۔’
اس بیان میں پاکستانی علما کی آمد پر خوشی ظاہر کرتے ہوئے کہا گیا کہ مفتی تقی عثمانی سمیت دیگر علما سے ملاقات ایک طویل عرصے کے بعد ہو رہی ہے۔
ٹی ٹی پی کے اہم رہنماؤں سے ملاقات کے لیے پاکستانی علما کابل میں موجود ہیں جہاں وہ قیامِ امن کے لیے مذاکرات کر رہے ہیں۔ ان مذاکرات کا مقصد طالبان کو مستقل جنگ بندی کے لیے راضی کرنا ہے۔
اس مذاکراتی عمل سے باخبر ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ یہ وفد پیر کو کابل پہنچا اور منگل کی شام سے ان کے مذاکرات کالعدم تنظیم تحریک طالبان کے رہنماؤں سے شروع ہوگئے ہیں۔

’قبائل کی آزاد حیثیت کا خاتمہ تسلیم نہیں کرتے‘
ٹی ٹی پی نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ’برطانوی دور میں بھی قبائلی علاقوں کی آزاد حیثیت تھی اور اس علاقے میں دین اور اسلام سے لوگوں کی وابستگی تھی۔۔۔ محمد علی جناح نے بھی قبائلی علاقوں کی آزاد حیثیت تسلیم کی تھی لیکن اب چند سال پہلے قبائلی علاقوں کو برطانوی قانون کے ماتحت کر دیا گیا ہے جسے وہ تسلیم نہیں کرتے۔‘
سوشل میڈیا پر جاری اس بیان میں کہا گیا ہے کہ ’افغانستان پر روس اور پھر امریکی حملے کے دوران قبائل نے مزاحمت میں اہم کردار ادا کیا اور افغان طالبان کے ہمراہ اس جہاد میں شریک رہے۔‘ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’طالبان نے جنگ شروع نہیں کی بلکہ ان پر مسلط کی گئی ہے جس میں ان قبائلی علاقوں کے متعدد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔‘
اس میں کہا گیا کہ علما کے فتوؤں کی روشنی میں تحریک نے ’اپنے مقدس جہاد کا رُخ پاکستان کی طرف بھی موڑ دیا تھا‘ اور اب ’ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ نظریۂ پاکستان کو عملی جامہ پہنانا مملکت خداداد پاکستان کی بقا، وحدت، امنیت اور ترقی کا واحد ضامن ہے۔‘
بنیادی طور پر اس بیان میں موقف ایک تو یہ تھا کہ وہ قبائلی علاقوں کا صوبہ خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام تسلیم نہیں کرتے اور دوسرا یہ کہ ریاستِ پاکستان کو قبائلی علاقوں میں ہلاکتوں کا ذمہ دار ٹھرایا گیا ہے۔

مذاکرات میں علما کا کردار کتنا اہم؟
تقی عثمانی کے علاوہ پاکستانی علما کے وفد میں مولانا طیب پنج پیر والے، وفاق المدارس کے جنرل سیکرٹری حنیف جالندھری مولوی انوار الحق اور مفتی غلام الرحمان بھی شامل ہیں۔
کابل سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق منگل کو اس وفد سے افغان علما کے وفد نے ملاقاتیں کیں جبکہ شام کے وقت ان علما اور ٹی ٹی پی کے رہنماؤں کی پہلی بیٹھک ہوئی جس میں مختلف موضوعات پر بات چیت ہوئی۔ لیکن اب تک اس بارے میں تفصیلات معلوم نہیں ہو سکی ہیں۔
افغانستان میں طالبان حکومت کے وزیر داخلہ اور حقانی نیٹ ورک کے رہنما سراج الدین حقانی نے بھی منگل کو پاکستانی علما کے وفد سے ملاقات کی ہے۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ اس طرح کی کشیدہ صورتحال کے دوران پاکستان میں علما کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں۔
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے قبائلی رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ افغان اور پاکستانی طالبان میں بیشتر ان مدارس سے تعلیم حاصل کر چکے ہیں جہاں یہ علما استاد رہ چکے ہیں یا یہ طالبان ان علما کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
سینیئر صحافی مشتاق یوسفزئی نے بی بی سی کو بتایا کہ ان علما کو صرف پاکستان میں نہیں بلکہ افغانستان میں بھی ان کی اہمیت ہے اور ان کی کوشش ہو گی کہ وہ پاکستانی طالبان کو مستقل جنگ بندی کے لیے راضی کر سکیں اور ان شرائط پر زیادہ زور نہ دیں جن پر اس وقت عملدرآمد مشکل ہے۔
ان علما میں مولانا طیب پنج پیر والے کے طلبا میں مالاکنڈ اور باجوڑ کے علاقے سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں جبکہ مولانا انوار الحق کا تعلق جامعہ حقانیہ اکوڑ خٹک سے ہے جہاں بیشتر طالبان نے تعلیم حاصل کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ علما کے وفد کا یہ دورہ گذشتہ ماہ ہونا تھا لیکن اس میں تاخیر ہوئی ہے اور اس کی بڑی وجہ ان علما کی تیاری تھی جس کے لیے انھوں نے کام کیا ہے اور ایسے افراد کو وفد میں شامل کیا گیا ہے جو ان مذاکرات میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے قبائلی رہنما نے بتایا کہ ٹی ٹی پی اور افغان طالبان میں شامل بیشتر افراد نے دینی تعلیم پاکستان کے مدارس سے حاصل کی ہے اور ان کے لیے مفتی تقی عثمانی کی بڑی قدر ہے۔

ٹی ٹی پی سے مذاکرات میں مشکلات کیا ہیں؟
علما کا یہ وفد کس حد تک طالبان کو قائل کر پاتا ہے یہ تو مذاکرات کے بعد معلوم ہو سکے گا لیکن جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے قبائلی رہنما نے بتایا کہ مذاکرات کا سلسلہ گذشتہ چند ماہ سے جاری ہے اور کم سے کم چار سے پانچ دوروں میں وہ خود بھی شامل رہے ہیں۔
ان کے مطابق مذاکرات ’بڑی حد تک کامیاب ہیں، بس کچھ رکاوٹیں ہیں جن کو حل کرنا ہے۔‘
ان میں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کیا قبائلی علاقے خیبر پختونخوا میں ضم رہیں گے یا ان کی پہلے والی حیثیت بحال کی جائے گی یعنی وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے یا جسے فاٹا کا نام دیا گیا تھا۔
ٹی ٹی پی کے رہنماؤں کے مطابق یہ انضمام کا فیصلہ ان کی لیے سرخ لکیر ہے اور اس پر فیصلہ ضروری ہے۔ اس کے علاوہ اگر طالبان واپس پاکستان میں داخل ہوتے ہیں تو کیا انھیں اسلحہ کے ساتھ رہنے کی اجازت ہوگی۔
پاکستان میں دفاعی امور کے ماہر اور تجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمود شاہ کا کہنا ہے کہ علما کے وفد سے ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے اپنا ذہن بنا لیا ہے کہ کسی بھی حالت میں مذاکرات کو کامیاب بنانا ہے اور ان کو واپس لانا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس میں بنیادی طور پر ان علاقوں میں رہنے والے مختلف طبقوں کا کردار اہم ہے کیونکہ ان کی مقامی سطح پر طالبان کے ساتھ دشمنیاں بن چکی ہیں اور ان کی اطلاع کے مطابق ایسے لوگ علاقے چھوڑ کر جا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سارے مسئلے سے علما کا تعلق نہیں ہے۔ ’یہ کوئی مکالمہ یا کوئی اسلام کی تشریح نہیں کرنی لیکن حکومت کسی بھی طریقے سے اس کو کامیاب کرنا چاہتی ہے اور اب اس بارے میں پاکستان میں مکالمہ ختم ہوگیا ہے۔‘

ان مذاکرات سے کیا امیدیں وابستہ ہیں؟
ایسی اطلاعات ہیں کہ اس وفد کے جانے سے پہلے تمام رابطے کیے گئے ہیں اور اس کے لیے باقاعدہ افغانستان کی حکومت سے دعوت بھی موصول ہوئی تھی۔
مشتاق یوسفزئی کے مطابق ان علما نے یہ شرط رکھی تھی کہ جب تک افغان طالبان انھیں مدعو نہیں کرتے وہ نہیں جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان مذاکرات کے متعدد دور ہو چکے ہیں اور مختلف وفود دورے کر چکے ہیں۔ ان میں بیشتر مسائل حل بھی ہو چکے ہیں اور اس کے لیے قبائلی رہنماؤں نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ ’اب دو بڑی مشکلات ہیں جن میں ایک قبائلی علاقوں کا انضمام اور دوسرا ان کی مسلح واپسی ہے۔‘
مشتاق یوسفزئی کا کہنا ہے کہ انھیں امید نہیں ہے کہ ان دو مسائل پر کوئی اتفاق ہو سکے گا کیونکہ دونوں فریقین اس بارے میں سخت موقف رکھتے ہیں۔ ’پاکستان کی کوشش ہے کہ یہ علما جا کر ٹی ٹی پی کے قائدین کو قائل کریں کہ ان دونوں مسائل پر وہ کوئی لچک کا مظاہرہ کریں۔‘
جنوبی وزیرستان کے قبائلی رہنما کا کہنا تھا کہ ’امید پر دنیا قائم ہے۔ طالبان سے کہا گیا تھا کہ فوری طور پر یہ ممکن نہیں ہے لیکن آگے چل کر اس بارے میں کوششیں کی جا سکتی ہیں اور ان کوششوں میں قبائلی رہنما بھی ان کے ساتھ شامل ہوں گے۔‘
بریگیڈیر ریٹائرڈ محمود شاہ کا اس بارے میں کہنا تھا کہ ’یہ کوئی طریقہ نہیں ہے کہ مختلف وفود بھیج کر طالبان کو قائل کرنے کی کوششیں کی جائیں۔
’یہ وہ ہیں طالبان جن کے خلاف اب تک متعدد آپریشن کیے گئے ہیں اور جس پر حکومت کے بھاری اخراجات ہوئے ہیں۔‘
ان سے جب پوچھا گیا کہ حکومت کو کیا کرنا چاہیے، تو ان کا کہنا تھا کہ اس کے لیے حکومت کو افغانستان کے ساتھ اپنی سرحدوں کی حفاظت کرنی چاہیے تاکہ طالبان نہ آ سکیں اور افغانستان پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ ان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو سکے۔
انھوں نے سوال اٹھایا کہ ’پاکستان میں صرف ٹی ٹی پی ہی ایسی مسلح تنظیم نہیں ہے۔ بلکہ (ملک میں) متعدد تنظیمیں اس وقت متحرک ہیں۔ بلوچستان کی جانب بلوچ مسلح تنظیمیں ہیں تو کیا کل ان سے بھی اسی طرح مذاکرات کیے جائیں گے؟‘

baloch

Recent Posts

دارالعلوم مکی زاہدان کے استاد کو رہا کر دیا گیا

مولوی عبدالحکیم شہ بخش، دارالعلوم زاہدان کے استاد اور "سنی آن لائن" ویب سائٹ کے…

5 months ago

زاہدان میں دو دینی مدارس پر سیکورٹی حملے کے ردعمل میں دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ کا بیان

دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ نے زاہدان میں دو دینی مدارس پر سکیورٹی اور فوجی دستوں…

5 months ago

زاہدان میں دو دینی مدارس پر سکیورٹی فورسز کے حملے میں درجنوں سنی طلبہ گرفتار

سنی‌آنلاین| سیکورٹی فورسز نے آج پیر کی صبح (11 دسمبر 2023ء) زاہدان میں دو سنی…

5 months ago

امریکہ کی جانب سے غزہ جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کرنا ایک “انسانیت سے دشمنی” ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکہ کی طرف سے…

5 months ago

حالیہ غبن ’’حیران کن‘‘ اور ’’مایوس کن‘‘ ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے آج (8 دسمبر 2023ء) کو زاہدان میں نماز جمعہ کی…

5 months ago

دنیا کی موجودہ صورت حال ایک “نئی جہاں بینی” کی متقاضی ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے ایک دسمبر 2023ء کو زاہدان میں نماز جمعہ کی تقریب…

5 months ago