ان دنوں میں بری ُطرح کنفیوز ہوں۔ امریکا بہادر کی باتیں مجھے کم ہی سمجھ آتی ہیں۔ کبھی صاحب بہادر عرب میں سالہا سال سے اقتدار پر قابض حکمرانوں سے کہتے ہیں کہ وہ عوام کی خواہشات کا احترام کریں تو کبھی خود ان کی فرمائش عوامی خواہشات سے متصادم ہوتی ہے۔

’بہارِ عرب’ Arab Springکے بعد مختلف ممالک میں نئی قیادت کے غلبے پر امریکاسمیت مغرب کا ردعمل میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ وہ وقت بھی تھا جب امریکا اور اس کے حواری دنیائے عرب کی نام نہاد قیادت کے خلاف پروپیگینڈا کرتے نہیں تھکتے تھے اور اب وہاں کے لوگوں نے خودجنہیں منتخب کرنا شروع کیاہے اس انتخاب پر دکھ اورغم سے ان کے کلیجے  پھٹے جا رہے ہیں۔پہلے والے غلط تھے تسلیم،مگراب عوام جنہیں اپنے لئے منتخب کریں ان پراعتراض کرنے کامطلب ؟
تیونس سے اٹھنے والی عرب بیداری کی لہر اب امریکا اور اس کے دوستوں کی آنکھوں میں کھٹک رہی ہے۔ تیونس میں تبدیلی کے لئے اپنی جان قربان کرنے والے ایک نوجوان کی قربانی سے اٹھنے والی بیداری کی لہر نے جہاں مغرب نواز زین العابدین کا بوریا بستر گول کیا وہیں امریکا کا رہا سہا کنٹرول بھی جاتا رہا۔23 اکتوبر کو ہونے والے الیکشن نے تیونس سے مغرب نوازوں کی رخصتی پر مہر ثبت کر دی۔
‘النہضہ الاسلامی’ نے انتخابات میں کامیابی کیا حاصل کی، جھٹ سے سو، سوا سو خواتین کا مظاہرہ کرا دیا گیا۔ مسئلہ ایک ہی تھا کہ کہیں ان کی آزادی سلب نہ کرلی جائے۔ ان خواتین کو مقامی سے زیادہ عالمی میڈیا نے کوریج دی جو اس بات کا مظہر تھا کہ ” آخر مسئلہ کیا ہے”۔ کہیں ایساتونہیں کہ مغرب جمہوری طریقے سے سامنے آنے والی قیادت کے ہاتھوں تیونس میں تشکیل نو کے مرحلے سے گزرنے والے آئین میں اسلامی رنگ نمایاں ہونے کے خدشے سے دوچارہوچکاہے۔اسے لگنے لگاہےکہ تیونس سے شروع ہونے والی بہار عرب امریکا اور اس کے حواریوں کیلئے خزاں نہ بن جائے۔
اب آتے ہیں بہار عرب کی دوسری قسط  لیبیا کی طرف۔۔۔ ڈالر کے مقابلے میں متبادل کرنسی کی کیا بات کر ڈالی کہ کولمبیا یونیورسٹی اور دیگر مقامات پر امریکیوں کو جمہوریت کا لیکچر دینے والا معمر قذافی انسانی حقوق کا سب سے بڑا دشمن بن گیا۔ اسی لئے اس کا خاتمہ اولین ترجیح ٹھہرا۔ لیبیا کی فضائیہ نے بغاوت کچلنے کیلئے ایسی تباہی نہیں پھیلائی تھی جو قذافی کو ہٹانے کے نام پر نیٹو کے طیاروں نے وہاں کی۔ بالآخر لیبیا کے مرد آہن کا بیالیس سالہ اقتدار کا سورج غروب ہوا اور قذافی مشتعل نوجوانوں کے ہاتھوں مارا بھی گیا۔ لیکن مغرب کی خوشیاں بس تین روز بعد تئیس اکتوبر کو ہی کافور ہوگئیں جب قومی عبوری کونسل کے رہنماؤں نے لیبیا کی آزادی کا باضابطہ اعلان کیا اوراپنے ایجنڈے کے متعلق وضاحت کی کہ وہ آئین میں کیاکرناچاہتے ہیں۔
عبوری کونسل کےرہنما مصطفی عبدالجلیل کے اس بیان پر مغرب کی بھنویں چڑھ گئی ہیں۔ مغربی میڈیا بھی نکتہ چینی کر رہا ہے لیکن میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ آخر مسئلہ کیا ہے؟

بشکریہ اداریہ “دی نیوز ٹرائب”

 

modiryat urdu

Recent Posts

دارالعلوم مکی زاہدان کے استاد کو رہا کر دیا گیا

مولوی عبدالحکیم شہ بخش، دارالعلوم زاہدان کے استاد اور "سنی آن لائن" ویب سائٹ کے…

5 months ago

زاہدان میں دو دینی مدارس پر سیکورٹی حملے کے ردعمل میں دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ کا بیان

دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ نے زاہدان میں دو دینی مدارس پر سکیورٹی اور فوجی دستوں…

5 months ago

زاہدان میں دو دینی مدارس پر سکیورٹی فورسز کے حملے میں درجنوں سنی طلبہ گرفتار

سنی‌آنلاین| سیکورٹی فورسز نے آج پیر کی صبح (11 دسمبر 2023ء) زاہدان میں دو سنی…

5 months ago

امریکہ کی جانب سے غزہ جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کرنا ایک “انسانیت سے دشمنی” ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکہ کی طرف سے…

5 months ago

حالیہ غبن ’’حیران کن‘‘ اور ’’مایوس کن‘‘ ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے آج (8 دسمبر 2023ء) کو زاہدان میں نماز جمعہ کی…

5 months ago

دنیا کی موجودہ صورت حال ایک “نئی جہاں بینی” کی متقاضی ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے ایک دسمبر 2023ء کو زاہدان میں نماز جمعہ کی تقریب…

5 months ago