- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

دس دن یادوں کی پاک سرزمین میں (تیسری قسط)

ڈاکٹر ذیشان احمد کی مجلس میں
فضلائے جامعة الرشید کے سالانہ تربیتی اجتماع کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ جامعہ کے سینئر اساتذہ کے علاوہ بعض نامور مگر دیندار دانشور بھی اظہارِخیال کے لیے مدعو تھے۔ ان میں ایک ڈاکٹر ذیشان احمد تھے جو مینجمنٹ اور کمپیوٹر سائنسز میں اعلی پایہ کے ماہر مانے جاتے ہیں اور دو عشرے کے قریب سے فول ٹائم پروفیسر بھی ہیں۔ حضرت استاذ صاحب سے ان کا خاص تعلق ہے، چنانچہ جمعہ دس فروری کی صبح کو سخت بخار کے باوجود آپ مقررہ وقت پر اجتماع گاہ میں حاضر ہوئے۔ استاذ صاحب مدظلہم نے افتتاحی کلمات میں موصوف سے اپنی محبت و عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: میں نے ان کے تمام بچوں کا نام از بر کیا ہوا ہے اور ہمیشہ ان کے لیے دعا کرتاہوں۔
جب ڈاکٹر صاحب نے خطاب کا آغاز کیا تو بخار سے انہیں تکلیف ہورہی تھی، استاذ صاحب کے اشارے پر دورانِ خطاب انہیں ایک بڑی چادر پہنایا گیا۔

عام معاشرے کے بارے میں بدگمان نہ ہوں
کراچی سکول آف بزنس اینڈ لیڈرشپ (KSBL) کے ریکٹر اور ڈین نے فضلائے جامعة الرشید سے خطاب کرتے ہوئے کہا: عام معاشرے کے بارے میں بدگمانی نہیں ہونی چاہیے؛ فکر اور خلوص سے کام لیں۔ ہمیں اپنے دائرہ اثر کو دیکھنا چاہیے۔
سوچ اونچی کرنے پر زور دیتے ہوئے ڈاکٹر ذیشان احمد نے کہا: اللہ تعالی کے بس میں سب کچھ ہے؛ جب آپ انفرادی سطح پر کام شروع کریں گے، تو اللہ تعالی اپنی سطح کا کام کرے گا۔ بات سلیقے سے پہنچائیں، الٹے سیدھے فتووں سے لوگوں اور اداروں کو دور نہ رکھیں۔

دیوبندیت نام ہی تجدید کا ہے
جمعہ کے دن استاذ محترم مولانا مفتی ابولبابہ شاہ منصور صاحب نے کلیة الفنون کے فضلا سے الگ مجلس میں گفتگو کی۔ اس مجلس میں ان کے انتہائی بیش بہا ارشادات کا خلاصہ ملاحظہ فرمائیں:
دنیا کی کوشش ہے انسان مادیت میں جکڑتا رہے۔ ضرورت سے زائد مادی چیزیں نہ رکھیں۔ خواہ مخواہ سوشل میڈیا میں نہ گھومیں۔ اگر معلومات لینا ہے تو یہ سوچیں کہ معلومات اثر لیتی ہے یا دیتی ہے؟ علم میں رسوخ، غایت دقت اور تحقیق، تزکیہ و اصلاح کا مزاج ہونا چاہیے۔ علما کا ادب ہونا اور کرنا چاہیے۔ مولانا مفتی رشیداحمد صاحب ستر سال کی عمر میں علما کے سامنے چارزانو نہیں بیٹھتے تھے۔ بدعات سے نفرت کرتے تھے۔ علمی اشتغال انتہائی انہماک و استمرار کے ساتھ ہونا چاہیے۔
دیوبندیت نام ہی تجدید کا ہے۔ اب اس کو تجدید کی ضرورت ہے۔ دیوبندیت و بریلویت کا فرق کم ہوتا چلا آرہاہے۔ امت کے احوال پر نظر رکھیں۔ کام اس انداز میں کریں کہ فتنہ ختم ہو، مزید نہ پھیلے۔
علم پھیلائیں اور یہ ہوتاہے یہ تحریر و تقریر سے۔ ابلاغ کا کام انبیا کا ہے۔ یہ الہامی علم سے نہیں ہوتا کسبی علم سے ہوتاہے۔ علمی لحاظ سے دنیا میں کوئی ہمارے قریب بھی نہیں آسکتا، لیکن ابلاغ کی کمی ہے۔ خطابت اور کتابت سے منصب و شہرت جیسی چیزیں جڑی ہوئی ہیں؛ یہ مصیبت ہے۔ فن خود بولتاہے۔ ماضی میں اہل فن کو ’مولانا‘ کہتے تھے؛ صلاح الدین شہید کو اسی لیے مولانا کہا جاتا ہے۔ ماضی میں بڑے بڑے لکھاری ہماری ہی برادری کے تھے، اب اسی طرف لوٹیں۔

کیا پاکستان اسلامی ریاست ہے؟
جامعة الرشید کے سینئر استاذ حدیث مولانا مفتی محمد صاحب نے اسی روز اپنے خطاب کا موضوع پاکستان کی تاریخ، اس کی قانون سازی اور آئین کی کہانی اور مسٹر جناح کے خیالات کو بنایا اور اسی کی روشنی میں اوپر دیے گئے سوال کا جواب ہمارے سامنے پیش کیا۔
انہوں نے کہا: علامہ اقبالؒ سے کافی پہلے علامہ اشرفعلی تھانویؒ نے مسلمانوں کے لیے ایک الگ ریاست کا تصور پیش کیا۔ علامہ اقبال نے اس نظریے کو باقاعدہ تحریک کی شکل دی۔ انہوںنے اجتہاد کی ضرورت پر بہت زور دیا۔ آپؒ قرآن و سنت کی بالادستی چاہتے تھے البتہ قرآن و سنت اور شریعت کو نئی نسل کی زبان کے مطابق پیش کرنے کے داعی تھے۔
نظریہ پاکستان کا دوسرا نام نفاذِ اسلام ہے۔ قائد اعظم کا مقصد الگ ریاست حاصل کرکے اسلامی شریعت کا نفاذ تھا۔ انھوں نے دوٹوک انداز میں کئی مرتبہ قرآن اور شرعی نظام کی بات کی اور اسلام کو مکمل ضابطہ حیات قرار دی۔ اس میں کسی شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ہے۔ پاکستان بننے کے ایک سال بعد ان کی وفات ہوئی؛ اس کم عرصے میں بھی انہوں نے اسلامی نظام کی بات کی۔ لیاقت علی خان بھی اسلامی نظام کے حامی تھے، لیکن وہ شہید ہوئے۔ بعد میں قانون سازی کی گئی، تو ہمارے علما نے بھرپور شرکت کی اور قرارداد مقاصد پاس ہوئی ۔
ہمارے اکابر نے ’اسلامی جمہوریہ‘ کی اصطلاح ’پاکستان‘ کے ساتھ لگائی۔ ایوب خان نے سکندر مرزا کے خلاف مارشل لاء لگاکر آئین معطل کیا اور ’اسلامی جمہوریہ‘ کا لفظ مٹادیا۔ اکابر نے بڑی محنت سے بات منوائی اور عرق ریزی سے قانون کو مکمل اسلامی بنادیا۔

یہ عزیمت کا دور نہیں ہے
استاذ صاحب زیدمجدہم نے اگلے دنوں اپنے مختلف بیانات میں متعدد ضروری باتیں فضلا کے سامنے رکھ کر انہیں دعوتِ فکر دینے لگے۔ انہوںنے ایک مقام پر فرمایا: دین معاشرے کے تمام طبقوںمیں پہنچائیں۔ معاشرہ منکرات سے بھراہوا ہے، ان کے ہوتے ہوئے کام کیسے کریں؟ بسا اوقات بولنے سے فتنہ بپا ہوتاہے بلکہ بعض اوقات منکر میں شامل ہونا پڑتاہے۔ جاہ اور حب جاہ کا فرق ملحوظ رکھیں۔
ملازمین جب مفتی حضرات سے مسئلہ پوچھتے ہیں، تو اداروں سے نکل جاتے ہیں یا دین چھوڑدیتے ہیں۔ یہ درست نہیں ہے (کہ ادارے دیندار لوگوں سے خالی ہوجاتے ہیں۔) ہمارا زمانہ مختلف ہے؛ یہ عزیمت کا دور نہیں ہے۔

دس فقہی ابواب کا گہرا مطالعہ وقت کی شدید ضرورت
حضرت مولانا مفتی عبدالرحیم دامت برکاتہم نے اپنے بیان میں حاضرین کو دس اہم فقہی ابواب کے از سر نو اور گہرے مطالعہ کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا: علمائے کرام خاص کر مفتی حضرات دس فقہی ابواب کا خیال رکھیں؛ پہلا ”اضطرار و اکراہ“ (اکراہ عام و اکراہ خاص)۔ اکراہ کی نئی شکلیں ہیں جو دو یا تین سالوں کے دوران یقینی طورپر مرجاتی ہیں۔ جب عمرہ کے لیے تصویر جائز ہے، ملک کی حفاظت اور نسلیں بچانے کے لیے کیوں جائز نہیں ہے؟
دوسرا باب ”ضرورت“ ہے جو ضرورت عامہ و خاصہ میں تقسیم ہوتا ہے۔ اجتماعی ضرورت مثلا گلوبلائزیشن۔ دنیا کی نئی ضرورتوں کو جاننا چاہیے۔ اب کی جنگوں میں قوتِ بازو سے زیادہ قوتِ عقل اور ٹیکنالوجی سے لڑتے ہیں۔ ”حاجت“ (حاجت عامہ و خاصہ)، ”عرف عام و خاص“، ”تعامل امت“ جو اجماع کی ایک شکل ہے۔ ”علت“، ”عموم بلوی“، ”الضرورات تبیح المحظورات“، ”بوقت ضرورت قول مرجوح و ضعیف پر فتوا“ اور ”اہون البلیتین“ کا نمبر بعد میں آتاہے۔ ان ابواب کو زندہ کرنے کے لیے مشورت اور رہ نمائی لینے کی ضرورت ہے۔ ممنوع چیزیں کیا ہیں اور اباحت کس درجے میں ہوتی ہے؛ ان پر غور کرنا چاہیے۔
سعید بن المسیب اور قاسم بن محمد بن ابی بکرکا فتوا تھا کہ مجسمہ حرام ہے لیکن تصویر مکروہ۔ مالکیہ کا مفتی بہ اور راجح فتوا یہی ہے کہ کاغذ اور کپڑے پر تصویر جائز ہے۔ جب سیلاب آرہا ہوتاہے، اس سے بچنے کا ایک طریقہ ہوتاہے اور سیلاب گھر میں پہنچنے کے بعد اس کا مقابلہ کسی اور راستہ سے ہوتاہے۔

خانقاہوں تک محدود رہنا ایک قسم کی رہبانیت!
انٹرنیٹ جائز اور ٹی وی ناجائز؟! اس بحث میں پڑنے کے بجائے دو کام کریں: پہلا یہ کہ اس کے شر سے بچنے کی کوشش کریں۔ دوسرا اس کا صحیح استعمال کریں۔ٹیکنالوجی کے شر سے بچنے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا ہوگا۔ اس کا شر کروڑوں تک پہنچاہے اور آپ ہزار دوہزار لوگوں کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ خانقاہ جیسے مکانوں تک محدود رہنے کو ایک قسم کی رہبانیت سمجھتاہوں۔
سیاست میں حصہ لیں، لیکن طلبہ اور اساتذہ اگر پوری طرح اس میں لگ جائیں، تو علمی ماحول متاثر ہوتاہے۔ ووٹ دیتے وقت ساتھ رہیں، لیکن ماحول کو متاثر نہ ہونے دیں۔

دارالعلوم دیوبند، ندوةالعلما، علیگڑھ یونیورسٹی‘ ایک ہی چھت کے تلے
اپنے اختتامی کلمات میں حضرت رئیس الجامعہ دامت برکاتہم نے فضلائے کرام کو جامعة الرشید کے تمام شعبوں کو سمجھنے کی دعوت دی۔ انہوںنے کہا: اللہ تعالی نے جامعة الرشید کی شکل میں ایک ہی چھت کے تلے دارالعلوم دیوبند، دارالعلوم ندوة العلما اور مسلم نیشنل علیگڑھ یونیورسٹی کو اکٹھے کیا ہے۔ پچاس ساٹھ سالوں کا کام الحمدللہ دس پندرہ سالوں میں جامعة الرشید میں ہوا۔
اپنی ماضی کی پالیسیوں پر نظر دوڑاتے ہوئے حضرت استاذ صاحب نے کہا: تجاویز اور مشوروں کا عمل کے بغیر کوئی فائدہ نہیں ہے۔ پندرہ سالوں سے تجربہ کرتے رہے؛ پہلے تحریکوں اور تنظیموں کی مدد کرتے تھے اور ان سے امیدیں وابستہ تھیں۔ پھر مشاورت ہوئی کہ اپنا ادارہ اور شعبے بنائیں۔ تنظیموں کو ہم نے اپنے وسائل دیے، مگر وہ اپنا کام کرتی تھیں، ہمیں کوئی فائدہ نہیں ملا۔
ایک اور مقام پر انہوں نے سوال اٹھایا: بلوچستان کے بارہ اضلاع میں ہر جج کے ساتھ ایک عالم دین ہوتاہے اور ان کے برابر کے اختیارات ہیں؛ وہاں شریعت نافذ ہے۔ لیکن علمائے کرام اور جمعیت علمائے اسلام نے کتنے ادارے بنائے؟ کتنے لوگ تیار کیے؟ سیاست برائے سیاست نہیں ہے۔

بات چیت سے کام لیں
مولانا مفتی عبدالرحیم صاحب نے بات چیت اور پرامن جد و جہد کی اہمیت واضح کرتے ہوئے سندھ اسمبلی میں پاس ہونے والے متنازعہ بل کے مسترد ہونے کو بطور مثال پیش کیا جو بظاہر اقلیتوں کے حقوق کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس حوالے سے جامعة الرشید کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے یوں نتیجہ نکالا: بات چیت سے کام لیں۔ با اثر شخصیات سے رابطہ میں رہیں اور تعلقات رکھیں۔ پولیس وغیرہ سے نفرت نہ کریں۔ بیوروکریسی میں اچھے لوگوں کی کمی نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا:حضرت مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ کی تحریکوں کو خوب سمجھ لیں، ہمارے حالات بالکل اس دور کے حالات کے موافق ہیں۔ انہوں نے بادشاہ کے بیوروکریٹس اور آس پاس کے لوگوں سے تعلقات قائم کیے اور انہیں یاد دلایا کہ ہم مسلمان ہیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ڈاکٹر نے فرخ بادشاہ سے علاج کے بدلے میں اپنے لیے کچھ نہیں مانگا بلکہ اپنے ملک کے لیے تین بندرگاہیں مانگی۔ شاہ ولی اللہؒ نے فرخ سے ملاقات کی اور برطانیا کی سازش سو سال موخر ہوگئی۔
حضرت استاذ صاحب نے فرمایا: حضرت مجدد الف ثانی نے وہ کام کیا کہ اکبر بادشاہ جیسے شخص نے کلمہ پڑھ کر اس دنیا سے چلاگیا۔ مجدد الف ثانی نہ خاموش رہے نہ بندوق اٹھائی، بلکہ اصلاحی کام شروع کیے۔ لہذا حکام سے رابطہ کریں اور ان کی سوچ تبدیل کریں۔ مفتی حضرات ایسے فتوے نہ دیں جس سے مسلمانوں کو نقصان ہو۔ عصری اداروں میں جاتے ہوئے عقیدہ مضبوط ہو، پختگی ہو اور متاثر ہوئے بغیر بندہ کام کرے۔ پچیس لاکھ طالب علم پاکستان میں ہیں۔ ہم متحد ہوجائیں اور پرامن رہ کر قانونی طریقے سے کام کریں، ضرور کامیابی ملے گی۔

علوم وحی کی روشنی میں امت کی رہ نمائی کریں
استاذ صاحب حضرت مفتی ابولبابہ شاہ منصور نے جمعہ دس فروری کی شام کو فضلائے کرام سے خصوصی خطاب فرمایا۔ انہوںنے مقدمے میں فرمایا: علمائے کرام کو انبیا کی وراثت سونپتے وقت دو ذمہ داریاں دی گئیں۔ علوم وحی کی وراثت اور اردگرد کو سمجھنا اور علوم وحی کی روشنی میں امت کی رہ نمائی کرنا۔ فقہ الشرع اور فقہ الواقع دونوں میں کسی ایک میں سستی اور کمی نقصان دہ ہے۔ کتابوں کو صحیح سمجھنا اور حالات کے مطابق اس کی تطبیق کرنا، اس کی صلاحیت ہونی چاہیے۔
جامعة الرشید کے شعبہ تخصصات کے نگراں نے فضلائے کرام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: کسی مسجد یا مدرسہ میں ہوتے ہوئے ماحول اور مزاج کو سمجھیں کہ کیا کام تدریجی اور کیا کام بالفور کرنا چاہیے۔ محلہ، علاقہ، صوبہ اور ملک کو بھی سمجھنا چاہیے۔

شامیوں کی مدد کریں لیکن فتنوں سے بچ کر!
شام کے حالات پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے مفتی ابولبابہ صاحب نے فرمایا: جو شام کے لیے کچھ کرنا چاہتاہے، فتنوں سے بچ کر کرے۔ گریٹ گیم پوری طرح اسرائیل کے حق میں جاری ہے۔ وہ بالکل خاموش ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی نقل مکانی اسپین کے بعد دمشق، حلب، حمص و غیرہ میں ہوئی۔ شام کی اصل آبادی دمشق، حمص، حما، حلب اور ادلب میں ہے۔
عرب ممالک میں پناہ گزینوں کو پذیرائی نہیں ملتی، ترکی واحد مورچہ ہے۔ شامیوں کی نسل اگر بچ جاتی ہے تو وہ ترکی کی وجہ سے ہے۔ شام کے ساتھ صرف ترکی کھڑا ہے۔ شامی مہاجرین پاکستانیوں کی امداد کے انتظار میں ہیں۔

نوٹ: اس سلسلے کی اگلی قسط آخری قسط ہوگی جس میں کراچی شہر کے بعض مقامات میں جاکر اپنے مشاہدوں کا تذکرہ ہوگا اور کراچی سے کوئٹہ تک کا سفر اور پھر وہاں سے زاہدان تک کے سفر کی روداد پیش ہوگی۔ ان شاءاللہ۔

جاری ہے۔۔۔

پہلی [1] اور دوسری [2] قسط پڑھنے کے لیے کلک کریں