Categories: پاکستان

کراچی: فیکٹری میں آتشزدگی، مرنے والوں کی تعداد 264

کراچی (بی بی سی) پولیس سرجن ڈاکٹر کمال شیخ کے مطابق ملبوسات بنانے والی فیکٹری میں آتشزدگی سے دو سو سنتالیس افراد ہلاک ہوئے جس میں پچیس خواتین بھی شامل ہیں۔

 

جمعرات کے روز کراچی کے ہسپتالوں میں ڈی این اے کے نمونے جمع کرنے کا آغاز ہو رہا ہے تاکہ اُن لاشوں کو ورثاء کے حوالے کیا جا سکے جن کی تاحال شناخت نہیں ہو سکی۔

پولیس سرجن کمال شیخ نے بی بی سی کو بتایا کہ شہر کے تین بڑے ہسپتالوں سول، جناح اور عباسی شہید ہسپتال میں کیمپ لگائے گئے ہیں جہاں ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے نمونے لیے جائیں گے۔ اب سے کچھ دیر پہلے تک غیر شناخت شدہ لاشوں کی تعداد ننانوے بتائی گئی ہے۔

ڈاکٹر کمال شیخ نے بتایا کہ اس واقعے میں ہلاک ہونے والے 264 افراد میں سے پچیس خواتین ہیں۔

یاد رہے کہ کمشنر کراچی روشن شیخ نے بدھ کی شام میڈیا کو بتایا تھا کہ اس واقعے میں 289 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ جمعرات کو کمشنر آفیس کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد شمار کے مطابق واقعے میں 258 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

پولیس نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں کہا ہے کہ فیکٹری میں آگ، بوائلر اور جنریٹر سے شروع ہوئی جن کا خودکار نظام، لوڈشیڈنگ کے بعد، بجلی آنے پر فیل ہو گیا۔

فائر برگیڈ اور ریسکیو شعبے کے ڈائریکٹر شوکت زمان نے بی بی سی کو بتایا کہ انہوں نے گزشتہ رات ریسکیو آپریشن بند کردیا تھا، جس سے پہلے تہہ خانے میں جا کر کارکنوں نے اس بات کی یقین دہانی کر لی تھی کہ وہاں مزید کوئی لاش نہیں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ لواحقین کی شکایت پر صبح کو دوبارہ آپریشن شروع کیا گیا ہے، جس میں لواحقین کو بھی ساتھ لے جایا گیا ہے تاکہ وہ تسلی کرلیں کہ اندر اب کوئی لاش باقی نہیں رہی۔

آگ بجھانے والے عملے کا کہنا ہے کہ آتشزدگی کے دوران عمارت کے اندر کا درجۂ حرارت اٹھارہ سو سنٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا اور آگ بجھائے جانے کے باوجود حدت اور تپش کی وجہ سے عمارت کے متعدد حصوں تک رسائی ممکن نہیں ہو سکی ہے۔

طبی حکام کے مطابق زیادہ تر ہلاکتیں دم گھٹنے سے ہوئی ہیں۔ حکام کے مطابق تین منزلہ فیکٹری کا کوئی ہنگامی راستہ نہیں تھا اور کئی لوگوں نے فیکٹری کی تیسری منزل سے چھلانگ لگا کر جان بچائی۔

صوبائی محکمۂ صحت کے ترجمان سلیم خان نے بی بی سی کو بتایا کہ پچانوے لاشیں عباسی شہید ہسپتال، اٹھاسی سول ہسپتال اور ستتر لاشیں جناح ہسپتال منتقل کی گئی ہیں۔

فائر بریگیڈ کی دو سنارکلز کے ذریعے عمارت سے لاشیں نکالی جا رہی ہیں

تاحال یہ واضح نہیں کہ جب آگ لگی تو عمارت میں کل کتنے افراد موجود تھے تاہم کارخانے میں کام کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ اس وقت عمارت میں تین سو سے زائد لوگ تھے جن میں سے بیشتر اندر ہی پھنس گئے تھے۔

فیکٹری میں کام کرنے والے کئی کارکنوں کے رشتے دار بھی فیکٹری پہنچ گئے ہیں۔لواحقین کی ایک بڑی تعداد سول اور جناح ہپستال بھی پہنچی ہے جہاں لاشوں کی شناخت کی جا رہی ہے۔

ہسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ زیادہ تر لاشیں ناقابلِ شناخت ہیں، جس کی وجہ سے ان شناخت میں دشواری پیش آ رہی ہے۔

فیکٹری کی عمارت آگ سے بری طرح متاثر ہونے کی وجہ سے امدادی کاموں میں مشکلات کا سامنا رہا۔ فائر بریگیڈ کی دو سنارکل کے ذریعے عمارت سے لاشیں نکالی گئیں۔

طبی عملے کے مطابق زخمی ہونے والوں میں زیادہ تر وہ افراد ہیں جنہوں نے جان بچانے کے لیے چھت سے چھلانگ لگائی۔

ایس پی غربی عامر فاروق نے بتایا کہ فیکٹری میں ہنگامی حالات میں نکلنے کے لیے کوئی راستہ نہیں تھا اور اس وجہ سے تمام لوگ اندر پھنس گئے۔ اس کے علاوہ زیادہ تر کھڑکیوں میں حفاظتی جنگلے نصب تھے۔

گورنر سندھ نے شہر میں بدھ کو یوم سوگ کا اعلان کیا ہے تاہم عام تعطیل نہیں ہے۔ پولیس نے فیکٹری کے مالکان کے خلاف مقدمہ بھی درج کر لیا ہے۔ وزیراعلٰی سندھ سید قائم علی شاہ نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے ڈی آئی جی پولیس غربی کو اس واقعہ کی تحقیقات کی ہدایت کی ہے۔

فیکٹری میں کام کرنے والے کئی کارکنوں کے رشتے دار بھی فیکٹری پہنچ گئے

دریں اثنا صوبائی وزیرِ صنعت رؤف صدیقی کا کہنا ہے کہ فیکٹری کا لائسنس منسوخ کر دیا گیا ہے جب کہ وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے اعلان کیا ہے کہ مالک کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کیا جائے گا تاکہ وہ بیرون ملک نہ جا سکیں۔

متاثرہ فیکٹری حب ریور روڑ پر واقع ہے۔ فیکٹری میں کام کرنے والے افراد کے مطابق فیکٹری میں چار سو سے زیادہ افراد کام کرتے ہیں تاہم پانچ بجے زیادہ تر افراد فیکٹری سے جا چکے تھے لیکن حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ آتشزدگی کے وقت کتنے لوگ فیکٹری میں موجود تھے۔

فائر بریگیڈ کے مطابق یہ آگ فیکٹری کی تین منزلہ عمارت کی بالائی منزل پر منگل کی شام کو لگی جس نے بعد میں پوری فیکٹری کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

فائر چیف احتشام الدین نے صحافیوں کو بتایا کہ آگ لگنے کی وجہ فوری طور پر معلوم نہیں ہو سکی ہے۔ فائر بریگیڈ کے عملے کے مطابق فیکٹری میں کچھ کیمیکل موجود ہونے کی وجہ سے آگ پر قابو پانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

فیکٹری میں کام کرنے والے کئی کارکنوں کے رشتے دار بھی فیکٹری پہنچ گئے ہیں

فائر چیف کے بقول فائر ٹینڈرز کو پانی لینے جانے کے لیے کافی فاصلہ طے کرنا پڑ رہا تھا جس کے باعث آگ پر قابو پانے میں زیادہ مشکلات کا سامنا تھا۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات اعلٰی حکومتی اہلکاروں کے علم میں آنے کے بعد ہنگامی طور پر نجی ٹینکر مالکان کو ہدایت کی گئی کہ وہ ٹینکروں میں پانی لے کر جائے حادثہ پر پہنچیں تاکہ آگ پر جلد از جلد قابو پایا جا سکے۔

modiryat urdu

Recent Posts

دارالعلوم مکی زاہدان کے استاد کو رہا کر دیا گیا

مولوی عبدالحکیم شہ بخش، دارالعلوم زاہدان کے استاد اور "سنی آن لائن" ویب سائٹ کے…

5 months ago

زاہدان میں دو دینی مدارس پر سیکورٹی حملے کے ردعمل میں دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ کا بیان

دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ نے زاہدان میں دو دینی مدارس پر سکیورٹی اور فوجی دستوں…

5 months ago

زاہدان میں دو دینی مدارس پر سکیورٹی فورسز کے حملے میں درجنوں سنی طلبہ گرفتار

سنی‌آنلاین| سیکورٹی فورسز نے آج پیر کی صبح (11 دسمبر 2023ء) زاہدان میں دو سنی…

5 months ago

امریکہ کی جانب سے غزہ جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کرنا ایک “انسانیت سے دشمنی” ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکہ کی طرف سے…

5 months ago

حالیہ غبن ’’حیران کن‘‘ اور ’’مایوس کن‘‘ ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے آج (8 دسمبر 2023ء) کو زاہدان میں نماز جمعہ کی…

5 months ago

دنیا کی موجودہ صورت حال ایک “نئی جہاں بینی” کی متقاضی ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے ایک دسمبر 2023ء کو زاہدان میں نماز جمعہ کی تقریب…

6 months ago