حمص(بی بی سی) شام کے شہر حمص میں ہزاروں حکومت مخالف مظاہرین نے شہر کے وسط میں سکوائر پر قبضہ کر لیا ہے اور حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
مظاہرے میں شامل ایک خاتون نے بی بی سی کو فون پر بتایا کہ پیر کو رات گئے تک مظاہرین کی تعداد میں کمی نہیں آئی تھی۔
اس سے قبل اتوار کے روز جھڑپوں میں ہلاک ہونے والے افراد کے جنازے نکالے گئے۔ اس دوران مظاہرین نے شام کے صدر بشار الاسد کے خلاف نعرے بازی کی۔
حمص شہر میں آٹھ افراد کی ہلاکت اس وقت ہوئی جب مظاہرین پر فوج نے فائرنگ کر دی۔ یہ مظاہرین ایک قبائلی رہنما کی حراست میں ہلاکت کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے۔
حمص کے وسط میں سکوائر میں موجود مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ سکوائر پر اس وقت تک موجود رہیں گے جب تک ان کے مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے۔ مظاہرین مطالبہ کر رہے ہیں کہ فوری طور پر ایمرجنسی ہٹائی جائے اور تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے۔
مظاہرین نے سکوائر کے اطراف میں چیک پوسٹیں قائم کی ہیں جہاں سکوائر میں داخل ہونے والوں کی تلاشی لی جاتی ہے یتاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کوئی بھی شخص اسلحہ لے کر سکوائر میں داخل نہ ہو۔
رضا کار مظاہرین کو کھانا اور پانی مہیا کر رہے ہیں۔
سکوائر میں موجود ایک شخص نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا ’سکوائر میں بیس ہزار سے زائد افراد مظاہرہ کر رہے ہیں اور ہم نے اس سکوائر کا نام التحریر سکوائر رکھا ہے۔‘
دوسری جانب ریاستی خبر رساں ایجنسی بھی حمص میں اتوار کو ہوئے واقعے کو نشر کر رہی ہے۔ سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق فوج کے بریگیڈیئر جنرل اور ان کی دو بیٹوں اور ایک بھانجے پر حمص میں مسلح حملہ آوروں نے حملہ کیا اور ہلاک کردیا۔ اور ہلاک کرنے کے بعد ان کے جسم کے تیز دھار آلے سے ٹکڑے کردیے گئے۔