سکھر، گڈو پر سیلابی ریلا
ہمارے نامہ نگار ریاض سہیل نے بتایا کہ جیکب آباد میں سیلابی ریلا داخل ہو گیا ہے۔
حکام کے مطابق جیکب آباد شہر کے علاقے سبھائیو میں پانی داخل ہوا ہے۔ اس علاقے میں لگ بھگ پانچ سو گھرانے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ سبھائیو میں ایک فٹ سے زیادہ پانی داخل ہوا ہے۔
صوبائی وزیر برائے آبپاشی جام سیف اللہ نے ایک پریش کانفرنس میں کہا کہ حکام نے کوئٹہ بائی پاس پر جیکب آباد کو بچانے کے لیے کٹ لگایا تھا تاہم ان کو اندازہ نہیں تھا کہ اتنا پانی آئے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ پانی جیکب آباد شہر کی جانب تین سمت سے داخل ہو رہا ہے۔
انہوں نے جیکب آباد شہر میں موجود بچے کھچے افراد سے شہر خالی کرنے کی درخواست کی۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی بھرپور کوشش ہے کہ شکارپور کو سیلابی ریلے سے بچا لیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ سپر فلڈ چند روز مزید جاری رہے گا۔
محکمہ موسمیات کے مطابق گڈو اور سکھر بیراج سے انتہائی اونچے درجے کا سیلابی ریلا گزر رہا ہے۔
اس سیلابی ریلے سے سندھ کے آٹھ شہروں کو خطرہ ہے۔ ان شہروں میں خیرپور، جیکب آباد، گھوٹکی، سکھر، لاڑکانہ، نوابشاھ، حیدر آباد اور نوشہرو فیروز شامل ہیں۔
محکمہ موسمیات کے مطابق گڈو کے مقام پر پندرہ سے سترہ اگست کے درمیان دس لاکھ سے گیارہ لاکھ کیوسک کا سیلابی ریلا گزرے گا۔ اور سکھر بیراج کے مقام سے پندرہ اور اٹھارہ اگست کے درمیان دس اور گیارہ لاکھ کیوسک کا سیلابی ریلا گزرے گا۔
دوسری جانب نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے سربراہ ندیم احمد نے بی بی سی لائف لائن پروگرام کو بتایا کہ صوبہ خیبر پختون خواہ کے علاقے لوئر دیر کا سب سے بڑا مسئلہ ہے کیونکہ اس کا زمینی راستہ دیر بالا سے کٹ گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ لوئر دیر کے لیے اس وقت مہمند اور باجوڑ سے جایا جا رہا ہے اور ہم کوشش کر رہے ہیں کہ چکدرہ پل کی مرمت جلد سے جلد ہو جائے تاکہ کم از کم چھوٹے ٹرکوں کی آمد و رفت شروع ہو سکے۔
دوسرا مسئلہ کالام کا ہے جہاں زمینی راستہ بند ہے۔ وہاں پر لوگوں نے اپنی مدد آپ اور کچھ فوج مدد کر رہی ہے کہ راستہ کھل سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہاں چند پلوں کی ضرورت ہو گی اور یہ پل باہر سے منگوانے کے بارے میں سوچا جا رہا ہے۔
نصیر آباد اور جعفر آباد
دریائے سندھ سے سیلابی پانی کا ایک بڑا ریلا بلوچستان کے ضلع جعفر آباد سے گزر رہا ہے جس کے باعث جعفر آباد کے مرکزی شہر ڈیرہ اللہ یار اور جھٹ پٹ زیر آب آ گئے ہیں اور ان علاقوں سے لاکھوں کی تعداد میں افراد نے بلوچستان کے دوسرے شہروں کا رخ کیا ہے۔
جیکب آباد شہر جس میں شہباز فضائی اڈہ بھی واقع ہے کو بچانے کے لیے کوئٹہ بائی پاس سے بند کو کاٹا گیا جس کے باعث سیلابی ریلا نصیر آباد اور جعفر آباد میں داخل ہو گیا۔ اس سیلابی ریلے نے ڈیرہ اللہ یار اور جھٹ پٹ شہروں تباہی پھیلاتے ہوئے دوسرے علاقوں کارخ کرلیا ہے۔
سندھ سے ملحقہ بلوچستان کے دو اضلاع نصیر آباد اور جعفرآباد سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی جاری ہے۔ یہ نقل مکانی جمعہ کی رات کواس وقت شروع ہوئی جب کمشنر نصیر آباد ڈویژن شیر خان بازئی نے نصیر آباد ڈویژن میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے ڈیرہ اللہ یار کے شہریوں کو فوری طور پر شہر خالی کرنے کا حکم دیا۔ جس کے بعد لوگوں کی ایک بڑی تعداد ڈیرہ مراد جمالی، سبی اور بلوچستان کے دیگرعلاقوں کی طرف نقل مکانی شروع کی۔
کمشنر نصیر آباد ڈویژن شیر خان بازئی نے ٹیلی فو ن پر کوئٹہ میں بی بی سی کے نمائندے ایوب ترین کو بتایا ہے کہ اس وقت ڈیرہ اللہ یار، روجھان جمالی اور اوستہ محمد شہر مکمل طور پر پانی میں ڈوب چکے ہیں اور گزشتہ دو دنوں میں ڈیڑھ لاکھ آبادی ان شہروں سے ڈیرہ مرادجمالی اور سبی کی طر ف منتقل ہوچکی ہے۔
شیر خان بازئی کا کہنا تھا کہ اس کے باوجود لوگوں کی ایک بڑی تعداد ابھی تک ان شہروں میں پھنسی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا ان افراد کو نکالنے کے لیے آرمی کا ایک ہیلی کاپٹر اور کچھ کشتیاں کام کر رہی ہیں۔
اس سلسلے میں ڈپٹی کمشنر جعفر آباد ڈاکٹر سعید جمالی نے بی بی سی کو بتایا کہ متاثرہ افراد کو شہر سے نکالنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر جعفر آباد اور سبی کے درمیان ٹرین چلانے کے علاوہ سرکاری سطع پر عام لوگوں کو ٹرانسپورٹ کا اننتظام کیا گیا ہے۔
تاہم جعفر آباد کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں حکومت کی جانب سے کوئی ٹرانسپورٹ فراہم نہیں کی گئی اور اکثر لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ڈیرہ اللہ سے دوسرے محفوظ مقامات پر جارہے ہیں۔
نصیر آباد کے ایک مقامی صحافی فدا احمد نے بتایا کہ سینکڑوں کی تعداد میں لوگ پیدل ڈیرہ مراد جمالی کی طرف جارہے ہیں جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ ان میں سے اکثر کے پاؤں میں جوتے تک نہیں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہفتے کی شام کو دریائے سندھ سے سیلابی پانی کا ریلا ڈیرہ اللہ شہرمیں داخل ہوا اور رات گئے تک دو سو سے زیادہ مکانات گر چکے تھے اور اس کے علاوہ شہر میں بجلی اور ٹیلی فون کا نظام درہم برہم ہے۔
رات گئے جعفرآباد سے ملنے والی اطلاع کے مطابق چھ سے آٹھ فٹ تک پانی کاریلا ڈیرہ اللہ یا ر سے گذر کر سابق وزیر اعظم میر ظفراللہ جمالی کے علاقے روجھان جمالی کی طرف بڑھ رہا تھا
علاقے میں موجود ایک اور صحافی شریف منگی نے بتایا کہ کمشنر نصیر آباد کی جانب سے ایمرجنسی کا اعلان رات کو دیر سے کیا گیا جس کے باعث اکثر لوگوں کو بر وقت اطلاع نہیں ملی سکی۔
رات گئے جعفرآباد سے ملنے والی اطلاع کے مطابق چھ سے آٹھ فٹ تک پانی کاریلا ڈیرہ اللہ یا ر سے گذر کر سابق وزیر اعظم میر ظفراللہ جمالی کے علاقے روجھان جمالی کی طرف بڑھ رہا تھا جس کے باعث ان علاقوں سے بھی لوگ محفوظ مقامات پر منتقل ہونا شروع ہوئے۔
واضح رہے کہ سنیچر کو جیکب آباد کی مقامی انتظامیہ اور وفاقی وزیر برائے کھیل اعجاز جاکھرانی کوئٹہ بائی پاس پر کٹ لگانے کے لیے موقع پر پہنچے تھے لیکن دوسری جانب سے ظفر اللہ جمالی محافظوں سمیت موقع پر پہنچ گئے اور کٹ لگانے سے منع کیا۔
مولوی عبدالحکیم شہ بخش، دارالعلوم زاہدان کے استاد اور "سنی آن لائن" ویب سائٹ کے…
دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ نے زاہدان میں دو دینی مدارس پر سکیورٹی اور فوجی دستوں…
سنیآنلاین| سیکورٹی فورسز نے آج پیر کی صبح (11 دسمبر 2023ء) زاہدان میں دو سنی…
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکہ کی طرف سے…
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے آج (8 دسمبر 2023ء) کو زاہدان میں نماز جمعہ کی…
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے ایک دسمبر 2023ء کو زاہدان میں نماز جمعہ کی تقریب…