دوم :
یہ اللہ تعالی کی حکمت ہے کہ اس نے کئي قسم کی عبادات کا مکلف کیا تا کہ وہ اپنے بندوں کو آزمائے کہ وہ ان عبادات میں کس حد تک اللہ تعالی کی اطاعت و فرمانبرداری کرتے ہیں ، کیا وہ اپنے طبعیت کے موافق معاملات میں اللہ تعالی کی بات تسلیم کرتے ہیں یا پھر وہ اللہ تعالی کی رضامندی کو مدنظر رکھتے ہوئے طبیعت کے مخالف معاملات میں بھی اطاعت کرتے ہيں کہ نہيں ؟
جب ہم مندرجہ ذیل پانچ عبادات پر غوروفکر کریں :
اللہ تعالی اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان ، نماز اورزکاۃ کی ادائيگي ، اورحج کرنا اوررمضان کے روزے رکھنا ۔
توہم ان مندرجہ بالا عبادات کو دیکھتے ہیں توکچھ بدنی عبادات ہيں اورکچھ مالی ، اوربعض بدنی اورمالی دونوں کو شامل ہيں ، حتی کہ سخی اوربخیل کا پتہ چل جاتا ہے ، بعض لوگوں پرنمازکی ادائيگي آسان ہوتی اوراسے ہزار رکعت کرنا بھی مشکل نہيں ہوتیں ، لیکن وہ ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کرسکتا ۔
اورکچھ لوگ آسانی سے ہزاروں روپے خرچ تو کرسکتے ہيں لیکن وہ ایک رکعت کی ادائيگي نہیں کرسکتے ۔
اس لیے شریعت اسلامیہ نے مختلف قسم کی عبادات فرض کیں تا کہ یہ علم ہوسکے کہ کون اللہ تعالی کی اطاعت وفرمانبرداری کرتا ہے ، اوراپنی خواہشات کے پيچھے چلنے والا کون ہے ؟ ۔
مثلا نماز صرف بدنی عبادت ہے لیکن اس کے لیے وضوء کے لیے پانی خریدنا اورستر عورۃ کےلیے کپڑے خریدنا نماز کے تابع ہے نہ کہ نمازمیں شامل ہے ۔
اورزکاۃ صرف مالی عبادت ہے ، اوراس میں جوتھوڑا بہت بدن کا حصہ شامل ہے کہ مال کا حساب کتاب کرنا ، اورزکاۃ فقراء مساکین تک پہنچانا یہ سب کچھ زکاۃ کے تابع ہے نہ کہ عبادت میں داخل ہيں ۔
اوراسی طرح حج کودیکھیں اس میں مالی اوربدنی دونوں عبادت کو جمع کردیا گيا ہے ، لیکن ہوسکتا ہے اہل مکہ اس عبادت میں اتنے مال کےمحتاج نہ ہوں جتنا کہ دوسرے لوگ محتاج ہوتے ہیں ، لیکن یہ بھی بہت ہی نادر ہے یا پھر انہیں کم مال خرچ کرنا پڑتاہے ۔
اورجھاد فی سبیل اللہ ایک عبادت ہے جس میں مالی اور بدنی دونوں عبادتیں ہی شامل ہیں ، بعض اوقات مال اوربعض اوقات بدن کی ضرورت پیش آتی ہے ۔
اوراسی طرح تکلیف یعنی کسی شخص کا مکلف ہونےمیں بھی انواع واقسام ہیں ، کبھی توپسندیدہ اشیاء سے رکنا پڑتا ہے اوربعض اوقات پسندیدہ اورمحبوب اشیاء کواللہ تعالی کے راستےمیں خرچ کرنا پڑتا ہے جوکہ تکلیف کی ایک قسم ہے ۔
محبوب اورپسندیدہ اشیاء سے رکنے کی مثال روزے ہیں اورمحبوب اشیاء خرچ کرنے کی مثال زکاۃ کی ادائيگي ہے اس لیے مال بہت ہی زيادہ ومحبوب ہوتا ہے ، لھذا مال تواس وقت تک خرچ ہیں نہیں کیا جاتا جب کوئي اس سے بھی زيادہ محبوب چيز نظر آرہی ہو پھر مال جیسی محبوب چيز بھی خرچ کی جاسکتی ہے ۔
اوراسی طرح محبوب اشياء سے بھی رکنا : ہوسکتا کسی کے لیے ہزار روپے خرچ کرنے تو آسان ہوں لیکن ایک دن کا روزہ رکھنا اس کے لیے مشکل ہوتا ہے یا پھر اس کے برعکس روزہ تو رکھ سکتا ہے لیکن اس کے لیے ایک روپیہ بھی خرچ کرنا مشکل ہوتا ہے ۔ ا ھـ
دیکھیں شرح الممتع ( 6 / 190 ) ۔
سوم :
روزوں کی مشروعیت میں بہت ہی عظيم اوربڑی حکمتیں پائي جاتی ہیں جن کا ذکر سوال نمبر ( 26862 ) کے جواب میں گزرچکا ہے ۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی سے روزوں کےوجوب کی حکمت کے بارہ میں سوال کیا گيا تو ان کا جواب تھا :
جب اللہ تعالی کا مندرجہ ذيل فرمان پڑھتے ہیں :
{ اے ایمان والو تم پر روزے فرض کیے گـئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تا کہ تم تقوی اختیار کرو } البقرۃ ( 183 ) ۔
تواس آیت سے ہمیں روزوں کی فرضيت کی حکمت کا علم ہوتا ہے کہ یہ حکمت اللہ تعالی کی عبادت اورتقوی ہے ۔
تقوی محرمات کو ترک کرنے کا نام ہے ، اورتقوی کااطلاق محظورات کو ترک کرنے اور مامور اشیاء پر عمل کرنےپر ہوتا ہے ۔
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( جوکوئي بے ہودہ باتوں اوران پر عمل اورجہالت سے باز نہیں آتا تواللہ تعالی کو اس کےبھوکے اورپیاسے رہنے کی کوئي ضرورت نہيں ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 657 ) ۔
مزيد تفصیل کے لیے آپ سوال نمبر ( 37658 ) اور ( 37989 ) کے جوابات کا مطالعہ ضرور کریں ۔
تواس طرح یہ ثابت ہوتا ہے کہ روزہ دارکو واجبات کی ادائيگي کرنا چاہیے اوراسی طرح حرام کردہ اشیاء سے اجتناب چاہے وہ قولی ہوں یا فعلی حرام ہوں ان سے اجتناب کرنا ہوگا ۔
روزہ دار نہ تو لوگوں کی غیبت و چغلی کرے ، اورنہ ہی جھوٹ بولے گا اورنہ ہی ان کے مابین غلط باتیں پھیلاتا رہے ، اوراسی طرح وہ کوئي حرام خریدوفروخت بھی نہيں کرے گا بلکہ سب محرمات سے اجتناب کرنا ہوگا ۔
لھذا اگرکوئي مسلمان پورا ایک ماہ اس پر عمل پیرا ہوتو پھر باقی پورا سال بھی صحیح اورٹھیک اعمال کرے گا ، لیکن افسوس تواس بات کا ہے کہ بہت سے روزہ دار اپنے عام دنوں اوررمضان میں روزہ رکھے ہوئے دن کے مابین کوئي فرق نہيں کرتے ، بلکہ ان کی وہی عادت رہتی ہے جوپہلے تھی اوروہ اسی طرح حرام کاموں کا ارتکاب بھی کرتے ہیں اورواجب اورفرض کردہ اشیاء پر عمل بھی نہيں کرتے ۔
آپ کو یہ محسوس بھی نہیں گا کہ وہ شخص روزہ دار ہے اورآپ اس پر روزہ کے وقار کو بھی نہيں دیکھیں گے ، لیکن یہ ہے کہ ان افعال سے روزہ تونہيں ٹوٹتا بلکہ اس کے اجرو ثواب میں کمی واقع ہوتی ہے ، اورجب اس کا موازنہ کیا جائے تو ہوسکتا ہے یہ سب کچھ روزہ کے اجر سے زيادہ ہوکر اس کے اجروثواب کو ہی ضائع کردے ۔ ا ھـ
دیکھیں فتاوی ارکان الاسلام صفحہ ( 451 ) ۔
واللہ اعلم .
الاسلام سوال وجواب
مولوی عبدالحکیم شہ بخش، دارالعلوم زاہدان کے استاد اور "سنی آن لائن" ویب سائٹ کے…
دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ نے زاہدان میں دو دینی مدارس پر سکیورٹی اور فوجی دستوں…
سنیآنلاین| سیکورٹی فورسز نے آج پیر کی صبح (11 دسمبر 2023ء) زاہدان میں دو سنی…
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکہ کی طرف سے…
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے آج (8 دسمبر 2023ء) کو زاہدان میں نماز جمعہ کی…
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے ایک دسمبر 2023ء کو زاہدان میں نماز جمعہ کی تقریب…