یہ آشیاں کسی شاخ چمن پہ بار نہ ہو

مشہور ہے کہ چند نابینا افراد کو زندگی میں پہلی بار ایک ہاتهی سے سابقہ پیش آیا، آنکهوں کی بینائی سے تو وه سب محروم تهے، اس لئے ہر شخص نے ہاتهوں سے ٹٹول کر اس کا سراپا معلوم کرنا چاہا، چنانچہ کسی کا ہاتهـ اسکی سونڈ پر پڑگیا، کسی کا اس کے ہاتهـ پر، کسی کا اس کے کان پر، جب لوگوں نے ان سے پوچها کہ ہاتهی کیسا ہوتا ہے؟ تو پہلے شخص نے کہا کہ وه مڑی ہوئی ربر کی طرح ہوتا ہے، دوسرے نے کہا نہیں، وه لمبا لمبا ہوتا ہے، تیسرے نے کہا کہ وه تو ایک بڑے سے پتے کی طرح ہوتا ہے.

غرض جس شخص نے ہاتهی کے جس حصے کو چهوا تها اسی کو مکمل ہاتهی سمجهـ کر اسکی کیفیت بیان کردی، اور پورے ہاتهی کی حقیقت کسی کے ہاتهـ نہ آئی.
کچهـ عرصے سے ہم اسلام کے ساتهـ کچهـ ایساہی سلوک کر رہے ہیں جیسا ان نابیناؤں نے ہاتهی کے ساتهـ کیا تها، اسلام ایک مکمل دین ہے جس کی ہدایات و تعلیمات کو چهـ بڑے شعبوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، عقائد، عبادات، معاملات، معاشرت، سیاست اور اخلاق. ان چهـ شعبوں میں سے ہر ایک سے متعلق تعلیمات دین کا لازمی حصہ ہیں جسے نہ دین سے الگ کیا جاسکتا ہے، اور نہ صرف اسی کو مکمل دین کہا جاسکتا ہے، لیکن کچهـ لوگوں نے دین کو صرف عقائد و عبادات کی حد تک محدود کر کے  باقی شعبوں کو نظرانداز کردیا، کسی نے معاملات سے متعلق اس کے احکام کو دیکهـ کر یہ کہدیا کہ اسلام تو در حقیقت ایک فلاحی معیشت کا نظام ہے، کسی نے اس کی سیاسی تعلیمات کا مطالعه کیا تو اس نے یہ سمجهـ لیا کہ دین کا اصل مقصد سیاست ہے، اور باقی سارے شعبے اس کے تابع ہیں، یا محض ثانوی حیثیت رکهتے ہیں.
لیکن اس سلسلے میں سب سے زیاده پهیلی ہوئی غلط فہمی یہ ہے کہ دین صرف عقائد و عبادات کا نام ہے، اور زندگی کے دوسرے مسائل سے اس کا کوئی تعلق نہیں، اس غلط فہمی کو ہوا دینے میں تین چیزوں نے بہت بڑهـ چڑهـ کر حصہ لیا ہے، ایک تو عالم اسلام پر غیر مسلم طاقتوں کا سیاسی تسلط تها جس نے دین کا عمل دخل دفتروں، بازاروں اور معاشرے کے اجتماعی معاملات سے نکال کر اسے صرف مسجدوں، خانقاہوں اور بعض جگہ دینی مدرسوں تک محدود کردیا، اور جب زندگی کے دوسرے شعبوں میں اسلامی تعلیمات کا چلن نہ رہا تو رفته رفته یہ ذہن بنتا چلا گیا کہ دین صرف نماز روزے کا نام ہے.
دوسرا سبب وه سیکولر ذہنیت ہے جس نے سامراج کے زیر اثر تعلیمی اداروں نے پروان چڑهایا، اس ذہنیت کے نزدیک دین و مذهب صرف انسان کی انفرادی زندگی کا ایک پرائیویٹ معاملہ ہے، اور اُسے معیشت و سیاست اور معاشرت تک وسعت دینے کا مطلب گهڑی کی سوئی کو پیچهے لے جانے کے مرادف ہے.
تیسرا سبب خود اپنے اپنے طرز عمل سے پیدا کیا، اور وه یہ کہ دین سے وابسته بہت سے افراد نے جتنی اہمیت عقائد و عبادات کو دی، اس کے مقابلے میں معاملات، معاشرت اور اخلاق کو دسواں حصہ بهی اہمیت نہیں دی.
بہرحال! ان تینوں اسباب کے مجموعے سے نتیجہ یہی نکلا کہ معاملات، معاشرت اور اخلاق سے متعلق اسلام کی تعلیمات بہت پیچهے چلی گئیں، اور ان سے ناواقفیت اتنی زیاده ہوگئی کہ گویا وه دین کا حصہ ہی نہیں رہیں.
اس میں کوئی شک نہیں کہ عقائد اور عبادات دین کا جزو اعظم ہیں، ان کی اہمیت کو کسی بهی طرح کم کرنا دین کا حلیہ بگاڑ نے کے مرادف ہے، خود آنحضرت صلی الله علیه وسلم نے اسلام کی بنیاد جن پانچ چیزوں پر قرار دی ہے، ان میں سے ایک کا تعلق عقائد سے، اور چارچیزوں کا تعلق عبادات سے ہے، اور جو لوگ عقائد و عبادات سے صرف نظر کرکے صرف اخلاق، معاشرت اور معاملات ہی کو سارا دین سمجهتے ہیں وه دین کو محض ایک ماده پرستانہ نظام میں تبدیل کرکے اس کا وه سارا حسن چهین لیتے ہیں جو دوسرے ماده پرستانہ نظاموں کے مقابلے میں اس کا اصل طره امتیاز ہے، اور جس کے بغیر اخلاق ، معاشرت اور معاملات بهی ایک بے روح جسم اور ایک بے بنیاد عمارت کی حیثیت اختیار کرجاتے ہیں.
لیکن یہ بهی اپنی جگہ ناقابل انکار حقیقت ہے کہ دین کی تعلیمات عقائد و عبادات کی حد تک محدود نہیں ہے، اور ایک مسلمان کی ذمہ داری صرف نماز روزه ادا کرکے پوری نہیں ہوجاتی، خود آنحضرت صلی الله علیه وسلم نے ارشاد فرمایا ہے که «ایمان کے ستر سے زائد شعبے ہیں جن میں اعلی ترین شعبہ توحید کی شہادت ہے، اور ادنی ترین شعبہ راستے سے گندگی دور کرنا ہے؛ بلکه معاملات، معاشرت اور اخلاق کا معاملہ اس لحاظ سے زیاده سنگین ہے کہ ان کا تعلق حقوق العباد سے ہے، اور یہ اصول مسلم ہے کہ اللہ تعالی اپنے حقوق توبہ سے معاف کردیتاہے، لیکن حقوق العباد صرف توبہ اور استغفار سے معاف نہیں ہوتے. ان کی معافی کی دو ہی صورتیں ہیں یا تو حق دار کو اس کا حق پہنچایا جائے، یا وه خوش دلی سے معافی دیدے، لہذا دین کے یہ شعبے خصوصی اہتمام کے متقاضی ہیں.
پهر معاملات، معاشرت اور اخلاق کے ان تین شعبوں میں بهی سب سے زیاده لا پروائی معاشرت کے شعبے میں برتی جارہی ہے، معاشرتی برائیوں کا ایک سیلاب ہے جس نے ہمیں لپیٹ میں لیا ہوا ہے، اور اچهے خاصے پڑهے  لکهے، تعلیم یافتہ، بلکہ ایسے دین دار حضرات بهی جو دین سے اپنی وابستگی کے لئے مشہور سمجهے جاتے ہیں اس پہلو سے اتنے بے خبر ہیں کہ ان معاشرتی خرابیوں کو گناه ہی نہیں سمجهتے.
قبل اس کے کہ میں ان معاشرتی مسائل کی جزئیات سے بحث کروں، آج کی صحبت میں یہ اصولی اشاره مناسب ہے که اسلام کی ساری معاشرتی تعلیمات کی بنیاد آنحضرت صلی الله علیه وسلم کے اس ارشاد پر ہے کہ:
«المسلم من سلم المسلمون من لسانه ویده»
مسلمان وه ہے جس کی زبان اور ہاتهـ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں.
اسلام کی ساری معاشرتی تعلیمات اسی بنیادی اصول کے گرد گهومتی ہیں کہ ہر مسلمان اپنے ہر ہرقول و فعل میں اس بات کی احتیاط رکهے کہ اس کی کسی نقل و حرکت یا کسی انداز و ادا سے کسی دوسرے کو کسی بهی قسم کی جسمانی، ذہنی، نفسیاتی یا مالی تکلیف نہ پہنچے.
اوپر جو حدیث لکهی گئی ہے اس میں دو نکتے قابل ذکر ہیں:
اول تو اس حدیث میں ہاتهـ اور زبان کا بطور خاص ذکر کیا گیا ہے. لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہاتهـ اور زبان کے سوا کسی اور ذریعے سے تکلیف پہنچانا جائز ہے، ظاہر ہے کہ اصل مقصد ہر قسم کی تکلیف پہنچانے سے روکنا ہے، لیکن چونکه زیاده تر تکلیفیں ہاتهـ اور زبان سے پہنچتی ہیں، اس لئے ان کا بطور خاص ذکر کردیا گیا.
دوسری بات یہ ہے کہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ زبان اور ہاتهـ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں. اس کا بهی یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی غیر مسلم کو تکلیف پہنچانا جائز ہے. چونکہ بات ایک اسلامی معاشرے کی ہورہی ہے جس میں زیاده تر واسطہ مسلمان ہی سے پڑتا ہے، اس لئے «مسلمان» کا ذکر بطور خاص کردیا گیا ہے، ورنہ  قرآن و حدیث کے دوسرے ارشادات کی روشنی میں یہ اصول تمام فقہاء کے نزدیک مسلم ہے که جو غیر مسلم افراد کسی اسلامی ملک میں امن کے ساتهـ قانون کے مطابق رہتے ہوں، بیشتر معاشرتی احکام میں ان کو بهی وہی حقوق حاصل ہوتے ہے جو ملک کے مسلمان باشندوں کو حاصل ہیں، لہذا جس طرح کسی مسلمان کو کوئی ناروا تکلیف پہنچانا حرام ہے، اسی طرح مسلمان ملک کے کسی غیر مسلم باشندے کو بهی ناحق تکلیف دینا حرام و ناجائز ہے.
آنحضرت صلی الله علیه وسلم کے دل میں دوسروں کو تکلیف سے بچانے کی کس قدر اہمیت تهی؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگائے کہ آپ صلی الله علیه وسلم ایک مرتبه جمعه کے دن خطبہ دے رہے تے، اتنے میں آپ صلی الله علیه وسلم نے دیکها کہ ایک صاحب اگلی صفوں تک پہنچنے کے لئے لوگوں کی گردنیں پهلانگتے ہوے آگے بڑهـ رہے ہیں. آپ صلی الله علیه وسلم نے یہ منظر دیکهـ کر خطبہ روک دیا، اور ان صاحب سے خطاب کرتے ہوے فرمایا: «بیٹهـ جاؤ، تم نے لوگوں کو اذیت پہنچائی ہے».
آنحضرت صلی الله علیه وسلم نے خود ہی مسجد کی پہلی صف میں نماز پڑهنے کی بڑی فضیلت بیان فرمائی ہے، بلکه یہاں تک فرمایا  ہے که اگر لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ پہلی صف میں کتنا اجر و ثواب ہے تو وه گهٹنوں کے بل آنے سے بهی گریز نہ کریں، لیکن یہ ساری فضیلت اسی وقت تک ہے جب تک پہلی صف میں پہنچنے کے لئے کسی دوسرے کو تکلیف دینی نہ پڑے، لیکن اگر اس سے کسی کو تکلیف پہنچنے لگے تو یہ اصول سامنے رکهنا ضروری ہے کہ پہلی صف تک پہنچنا مستحب ہے، اور دوسروں کو تکلیف سے بچانا واجب ہے، لہذا ایک مستحب کی خاطر کسی واجب کو چهوڑا نہیں جاسکتا.
مسجد حرام میں طواف کرتے ہوے حجر اسود کو بوسہ دینا بہت اجر و ثواب رکهتا ہے، اور احادیث میں اسکی نجانے کتنی فضیلتیں بیان کی گئی ہیں، لیکن ساتهـ ہی تاکید یہ ہے کہ اس فضیلت کے حصول کی کوشش اسی صورت میں کرنی چاہئے جب اس سے کسی دوسرے کو تکلیف نہ پہنچے، چناچہ دهکا پیل اور دهینگا مشتی کرکے حجر اسود تک پہنچنے کی کوشش کرنا نہ صرف یہ کہ ثواب نہیں ہے بلکه اس سے الٹا گناه ہونے کا اندیشه ہے، اگر کسی شخص کو تمام عمر حجر اسود کا بوسه نہ مل سکے تو انشاءالله اس سے یہ بازپرس نہیں ہوگی کہ تم نے حجر اسود کا بوسہ کیوں نہیں لیا؟ لیکن اگر بوسے لینے کے لئے کسی کمزور شخص کو دهکا دے کر تکلیف پہنچادی تو ایسا گناه ہے جس کی معافی اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک وه شخص معاف نہ کردے.
غرض اسلام نے اپنی تعلیمات میں قدم قدم پر اس بات کا خیال رکها ہے که ایک انسان دوسرے کے لئے تکلیف کا باعث نہ بنے، اسلام کی بیشتر معاشرتی تعلیمات اسی محور کے گرد گهومتی ہیں جس کا خلاصه یہ ہے کہ:
تمام عمر اسی احتیاط میں گذری
یہ آشیاں کسی شاخ چمن پہ بار نہ ہو
یہ شعر قلم پر آیا تو ذہن میں ایک عجیب واقعے کی یاد تازه ہوگئی، میرے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمة اللہ علیه (جنکی تفسیر معارف القرآن آج ایک عالم کو سیراب کر رہی ہے) رمضان 1396هـ میں سخت بیمار اور صاحب فراش تهے، پورا رمضان بیماریوں کے عالم میں گذرا، رمضان کے آخر عشرے میں ایک روز فرمانے لگے: «میرا حال بهی عجیب ہے، لوگ رمضان میں مرنے کی تمنا کرتے ہیں، اور اس مقدس مہینے کی برکتوں کے پیش نظر خواہش مجهے بهی یہ ہوئی کہ موت تو آنی ہی ہے، اسی مقدس مہینے میں آجائے، لیکن میں کیا کرو کہ اس کے لئے دعا میری زبان پر نہ آسکی. اور اسکی وجہ یہ ہے کہ جب بهی میں یہ دعا کرنا چاہتا ذہن میں یہ خیال آتا کہ اگر رمضان کے مہینے میں میری موت کا واقعہ پیش آیا تو میرے عزیزوں اور دوستوں کو بہت تکلیف ہوگی. صدمے کے علاوه روزے کے عالم میں تجہیز و تکفیں اور تدفیں کے انتظام میں معمول سے کہیں زیاده مشقت بڑهـ جائیگی، اور اس بات پر دل آماده نہیں ہوتا کہ اپنی خواہش کی خاطر اپنے چاہنے والوں کو تکلیف میں ڈالا جائے» یہ کہہ کر انہوں نے یہ شعر پڑها:
تمام عمر اسی احتیاط میں گذری
یہ آشیاں کسی شاخ چمن پہ بار نہ ہو

17 / شعبان/ 1414
مفتی محمد تقی عثمانی حفظه الله
ذکر و فکر ص 18- 23
modiryat urdu

Recent Posts

دارالعلوم مکی زاہدان کے استاد کو رہا کر دیا گیا

مولوی عبدالحکیم شہ بخش، دارالعلوم زاہدان کے استاد اور "سنی آن لائن" ویب سائٹ کے…

5 months ago

زاہدان میں دو دینی مدارس پر سیکورٹی حملے کے ردعمل میں دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ کا بیان

دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ نے زاہدان میں دو دینی مدارس پر سکیورٹی اور فوجی دستوں…

5 months ago

زاہدان میں دو دینی مدارس پر سکیورٹی فورسز کے حملے میں درجنوں سنی طلبہ گرفتار

سنی‌آنلاین| سیکورٹی فورسز نے آج پیر کی صبح (11 دسمبر 2023ء) زاہدان میں دو سنی…

5 months ago

امریکہ کی جانب سے غزہ جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کرنا ایک “انسانیت سے دشمنی” ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکہ کی طرف سے…

5 months ago

حالیہ غبن ’’حیران کن‘‘ اور ’’مایوس کن‘‘ ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے آج (8 دسمبر 2023ء) کو زاہدان میں نماز جمعہ کی…

5 months ago

دنیا کی موجودہ صورت حال ایک “نئی جہاں بینی” کی متقاضی ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے ایک دسمبر 2023ء کو زاہدان میں نماز جمعہ کی تقریب…

5 months ago