روہنگیا کی چیخ و پکار: آفات کا نزول اور آلام کا ہجوم

جنوبی ایشیا کا ایک انتہائی پسماندہ، غریب اور چھوٹا سا ملک جو بھارت، بنگلہ دیش، چین اور تھائی لینڈ کے درمیان واقع ہے، “برما” کے نام سے دنیا کے نقشے پرموجود ہے لیکن اب اس کا نیا نام “میانمار” رکھا گیا ہے۔ بودھ اکثریت نے صرف اس کا نام ہی نہیں بدلا بلکہ اس ملک کی اکثریت نے اپنی شناخت بھی بدل لی ہے اور اب یہ ماضی کے بے ضرر بدھ نہیں رہے بلکہ درندوں کو شرما دینے والے یودھا بن گئے ہیں جو مسلسل انتہائی بے دردی کے ساتھ اپنے ہی ہم وطن مسلمانوں کا خون بہاتے جارہے ہیں۔ برما کی بنگلہ دیش سے ملحقہ سرحد کے ساتھ مسلمانوں کی آبادی بود و باش رکھتی ہے جو فیصد بدھ مت کی اکثریت رکھنے والے ملک میں فیصد بتائی جاتی ہے۔ برما کے صوبہ اراکان میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اوراس کے ساتھ صوبہ ٹونگو اور منڈالے میں بھی مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد آباد ہے اور بودھ بھکشووں کے زیادہ تر مظالم کا شکار بھی یہی مسلمان ہیں۔
سری لنکا اور برما میں اسلام کی روشنی خلیفہ سوم حضرت عثمان کے دورِ خلافت میں پہنچ چکی تھی اور یہاں ایک مسلم ریاست بھی کبھی ہوا کرتی تھی۔ تاریخ کی یہی سزا اراکان کے ان بے نوا غریبوں کو دی جارہی ہے جو اس وقت دنیا کے کسی ملک کے شہری نہیں رہے کیونکہ برما کی حکومت نے ان کی شہریت بھی چھین لی ہے۔ برما کے مسلمانوں کی تعداد ۱۵لاکھ سے کچھ زائد ہے اور ان میں سے تین سے ساڑھے تین لاکھ بنگلہ دیش اور ایک سے ڈیڑھ لاکھ تھائی لینڈ اور ساڑھے چارلاکھ جو سعودی عرب میں مقیم ہیں، یہی لوگ در اصل محفوظ بھی ہیں ورنہ بنگلہ دیش اور تھائی لینڈ میں ان کے خلاف آئے دن جرائم کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔ یہ لوگ یہاں مہاجر کیمپوں میں آباد ہے جہاں انہیں کوئی انسانی حقوق حاصل نہیں ہیں۔ برما حکومت کا دعوی ہے کہ یہ لوگ غیرملکی ہیں، کچھ چٹاگانگ اور کچھ بھارت سے آئے ہیں جب کہ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ چودہ صدیوں سے یہ لوگ اسی ملک کے شہری ہیں۔ البتہ دوسری جنگ عظیم میں جب برطانیہ نے اراکان کو بے یار و مددگار چھوڑ کر یہاں سے فوج کو فرار کروایا تو یہ صوبہ جو مسلم اکثریت کا تھا، بدھوں اور جاپانیوں کا شکار بن گیا، صرف ۲۸ مارچ۱۹۴۲ء کو ایک دن میں پانچ ہزارمسلمان اس بیدردی کے ساتھ قتل کردیئے گئے کہ ان کا فقط قصور مسلمان ہونا تھا۔ مزید قتل عام سے بچنے کی خاطر مسلمان وہاں سے فرار ہونے پر مجبور کردیئے گئے۔ ان میں کچھ اپنی جان بچانے کی خاطر چٹاگانگ و بھارت اوربعض جنگلوں میں چھپ گئے۔ بعد ازاں میں سقوط مشرقی پاکستان کے موقع پر یہ لوگ چٹاگانگ سے واپس چلے گئے۔
بعض لبرل حلقے یہ الزام بھی طالبان پرعائد کرتے ہیں کہ انہوں نے جب اپنے دورحکومت میں بدھا کے مجسمے کو گرایا جس کے جواب میں ان پرعرصہ حیات تنگ کردیا گیا جب کہ حقیقت یہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم واقعہ بامیان سے بہت پہلے ہوچکی تھی اور مسلمانوں کا قتل عام اس وقت شروع ہوا جب ۱۹۶۲ء میں برمی جنرل نے اقتدار پر قبضہ کیا اور مسلمانوں کو فوج سے نکال دیا۔۱۶مارچ ۱۹۹۷ء کے منڈالے میں قتل عام ہوا اور یہ سب واقعات بامیان میں مجسمے گرانے سے بہت پہلے کے ہیں، البتہ بامیان کے رد عمل میں ٹونگو صوبہ میں فساد ہوا اور دو مساجد کو شہید کردیا گیا تھا۔ اس کے بعد ۱۳۔۲۰۱۲ء اور میں بودھوں کے ہاتھوں مسلمانوں کی نسلی تطہیر ہوئی جو اب تک جاری ہے۔ المیہ یہ ہے کہ حالیہ دنوں میں یہ جانکاہ خبر بھی عالمی میڈیا میں آئی کہ ایک بڑی کشتی پر سوار ہزاروں برمی مسلمان کھلے سمندروں میں بھٹک رہے ہیں، کوئی ملک ان کی ذمہ داری لینے کو تیارنہیں ہے۔ اب سعودی عرب اور پاکستان نے ان کی خوراک کیلئے پچاس کروڑ ڈالر کا اعلان کیا ہے اور انہیں بسانے کی پیشکش بھی کی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ برمیوں کو ان کے گھروں سے نکال لینا کیا ان کی مدد ہے یا برما حکومت کی جو ان سے جان چھڑا رہی ہے؟ اگرمسلمان متحد ہوکر برمی حکمرانوں سے بات کریں تو انہیں جرات نہیں ہوگی کہ آئندہ ایسے ظلم کی نوبت بھی آئے۔
عالمی اداروں کی اطلاعات کے مطابق دیرانتھو نامی تنظیم اس قتل عام میں ملوث ہے جسے حکومت اورعالمی امن ایوارڈ یافتہ آنگ سانگ سوچی کی بھی مکمل حمایت حاصل ہے۔ اس تنظیم نے صرف ۲۰۱۵ء میں اب تک تین ہزار بچوں سمیت پندرہ ہزار مسلمانوں کو شہید کردیا ہے۔ ۲۰۰۹ء سے اب تک شہدا کی تعداد تین لاکھ کے قریب بتائی جاتی ہے۔ پاکستانی حکومت اور دینی جماعتیں برمی مسلمانوں کے حق میں اچانک فعال ہوگئی ہیں۔ اس حوالے سے کہا جارہا ہے کہ پاکستان کی دینی وسیاسی جماعتیں چینی رد عمل کے خدشے سے برما کے خلاف چپ تھیں۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ سوشل میڈیا کی بھرپور مہم نے ان کو برما کے مظلوم مسلمانوں کیلئے آواز اٹھانے پرمجبورکیا۔ ذرائع کے بقول اس سلسلے میں اسلام آباد کے صحافیوں کے ایک گروپ نے بنیادی کردار ادا کیا۔
دستیاب اطلاعات کے مطابق روہنگیا مسلمانوں کے خلاف برمی حکومت کی سرپرستی میں بدھ دہشت گردوں کے مظالم پر پوری دنیا میں رد عمل سامنے آرہا ہے مگر پاکستانی حکومت اور دینی وسیاسی جماعتیں اس حوالے سے حیرت انگیز طور پر خاموشی سادھے ہوئے تھیں۔ بتایا جاتاہے کہ اس ساری خاموشی کا مقصد صرف ایک ہی تھا کہ برما چین کے نہ صرف زیر اثر ہے بلکہ چین اسے بہت زیادہ اہمیت دیتاہے۔ حکومتی اور دیگر جماعتوں کو خدشہ تھا کہ اگر برما حکومت کے خلاف ردعمل آیا تو بیجنگ ناراض ہوسکتاہے۔ چند روز قبل ایک سنیئر اخبارنویس نے انکشاف کیاہے کہ ایک سفارتی تقریب میں جب انہوں نے برما کے سفیر سے بات کی کہ وہ مسلمانوں پر اتنا ظلم کیوں کرہے ہیں؟ تو برما کے سفیر نے کہا کہ آپ لوگوں کا چین کے ساتھ اقتصادی کوریڈور پر معاہدہ ہوچکا ہے، اب آپ کو احتیاط سے بات کرنی چاہئے، چین، برما کے اندرونی معاملات میں کسی بھی قسم کی مداخلت پسند نہیں کرتا۔
وزارتِ خارجہ کے ایک ذریعہ نے انکشاف کیا ہے کہ چین برما کے اندرونی معاملات میں مداخلت برداشت نہیں کرتا، تاہم ذرائع کا دعوی ہے کہ انٹیلی جنس اداروں نے ایسی رپورٹس فائل کی ہیں جن میں خبردار کیا گیا ہے کہ برما میں مسلمانوں کی ابتر صورت حال کے سبب عالمی سطح پر انتہا پسندی کو فروغ مل سکتا ہے اور اس امر کا اندیشہ پایا جاتا ہے کہ بعض عالمی سطح پر سرگرم گروپس برما کا رخ کرلیں۔ اس لئے اگر اس صورتحال سے بچنا ہے تو لازم ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کی مدد کی جائے اور انہیں ان کا حق دلوایا جائے۔ ذریعے کا دعویٰ ہے کہ اس حوالے سے چین کو بھی اعتماد میں لے لیا گیا ہے۔ اس کے بعد ہی حکومت پاکستان نے وزیراعظم نواز شریف کے حکم پر ایک کمیٹی بنائی ہے اور حکومت نے اپنے بیان میں اقوام متحدہ اور اوآئی سی کی مذمت کی ہے، انہوں نے خاموش رہ کر معاملہ خراب کیا لیکن ذرائع کے جانب سے بتایا جارہا ہے کہ اب بھی حکومت کوئی متحرک کردار ادا کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی بلکہ سعودی عرب سے مزید کردار ادا کرنے کی توقع کر رہی ہے۔
دوسری جانب ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت پاکستان اور چین کے درمیان اس حوالے سے مشاورت ہوجانے کے بعد ہی جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور جماعت الدعوۃ سمیت دیگر جماعتوں نے روہنگیا مسلمانوں کے حق میں برمی حکومت کی مذمت شروع کی ہے۔ جماعت اسلامی کے امیرسراج الحق نے جمعہ کے روز برما کے سفیرسے ملاقات کرکے احتجاج ریکارڈ کرایا جب کہ جماعت الدعوۃ کے شعبہ خدمت خلق نے برمی مسلمانوں کیلئے امدادی فنڈ قائم کردیا ہے۔ اس حوالے سے اسلام آباد کے صحافیوں کے ایک گروپ نے سوشل میڈیا پر مہم چلائی کہ جمعہ کے روزبرما کے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کیا جائے۔ اس حوالے سے انہوں نے تمام سیاسی و دینی جماعتوں کی قیادت سے رابطے بھی کیے۔ ان کوششوں کی بدولت تقریبا تمام جماعتوں نے جمعہ کے روز روہنگیا مسلمانوں سے یومِ یکجہتی منانے کی حمایت کرتے ہوئے پروگرام منعقد کیے۔ اس حوالے سے جماعت الدعوۃ کے مرکزی رہنما حافظ عبدالرحمان مکی کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت روزِ اول سے ہی اس مسئلے کیلئے آواز اٹھا رہی ہے اور ریلیف کا کام بھی کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایسے عالمی ضابطوں کو نہیں مانتے جو مسلمانوں کے قتل عام پر خاموش ہوجاتے ہیں۔ اقوام متحدہ نے خاموشی اختیار کرکے اپنے کردار کو مزید مشکوک کرلیا ہے جب کہ اوآئی سی کی خاموشی بھی قابل مذمت ہے، مگر ہم ان کی طرف نہیں دیکھیں گے بلکہ خود آگے بڑھ کر ان کی مدد کریں گے۔
اسی طرح جماعت اسلامی سے وابستہ ذرائع کا بھی کہنا ہے کہ خیبرپختون کے بلدیاتی انتخابات کے باوجود ان کی جماعت نے سب سے پہلے اس مسئلہ کو اٹھایا اور ہر فورم پر بات کی مگر حقیقت یہ ہے کہ حکومت پاکستان کو چین کی ناراضگی کا ڈر رہا اور پاکستان کی جماعتوں نے بھی مجرمانہ خاموشی اختیار کئے رکھی۔ دوسری جانب اسلام آباد میں سیکورٹی ذرائع نے بتایا کہ حکومت اورسیاسی و دینی جماعتوں کی خاموشی کا سبب صرف چینی ردعمل کا خدشہ تھا لیکن اس خاموشی نے پوری دنیا میں انتہا پسند عناصر کو پروپیگنڈے کا جواز فراہم کردیا ہے۔ اگر اب بھی مسلم حکمران اس معاملے میں خاموش رہے تو اس کا رد عمل شدید بھی ہو سکتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ اب تقریبا ہر اسلامی ملک اس معاملہ میں کردار ادا کرنے کو تیار دکھائی دے رہا ہے۔ تیسری جانب چینی سفارت خانے میں موجود ایک ذریعے نے بتایا ہے کہ برما کے معاملہ میں چین کا کوئی کردار ہے اور نہ ہی چین نے روہنگیا کے مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھانے پرکوئی ردعمل دینے کا اشارہ دیا۔ اس حوالے سے تمام الزامات بے بنیاد ہیں۔ اب یہ مستقبل ہی بتائے گا کہ مظلوم روہنگیا کی تقدیر یونہی خون آشام آندھیوں میں لڑکھڑاتی رہے گی یا بعض مسلم حکومتوں کی مداخلت سے ان کی جان چھوٹ جائے۔

سمیع اللہ ملک
بصیرت فیچرس

baloch

Recent Posts

دارالعلوم مکی زاہدان کے استاد کو رہا کر دیا گیا

مولوی عبدالحکیم شہ بخش، دارالعلوم زاہدان کے استاد اور "سنی آن لائن" ویب سائٹ کے…

5 months ago

زاہدان میں دو دینی مدارس پر سیکورٹی حملے کے ردعمل میں دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ کا بیان

دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ نے زاہدان میں دو دینی مدارس پر سکیورٹی اور فوجی دستوں…

5 months ago

زاہدان میں دو دینی مدارس پر سکیورٹی فورسز کے حملے میں درجنوں سنی طلبہ گرفتار

سنی‌آنلاین| سیکورٹی فورسز نے آج پیر کی صبح (11 دسمبر 2023ء) زاہدان میں دو سنی…

5 months ago

امریکہ کی جانب سے غزہ جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کرنا ایک “انسانیت سے دشمنی” ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکہ کی طرف سے…

5 months ago

حالیہ غبن ’’حیران کن‘‘ اور ’’مایوس کن‘‘ ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے آج (8 دسمبر 2023ء) کو زاہدان میں نماز جمعہ کی…

5 months ago

دنیا کی موجودہ صورت حال ایک “نئی جہاں بینی” کی متقاضی ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے ایک دسمبر 2023ء کو زاہدان میں نماز جمعہ کی تقریب…

6 months ago