Categories: پاکستان

حامد میر قاتلانہ حملے میں زخمی، آئی ایس آئی پر الزام، فوج کا انکوائری کا مطالبہ

پاکستان کے سینیئر صحافی حامد میر کراچی میں ہونے والے ایک قاتلانہ حملے میں زخمی ہوگئے ہیں۔ ان کے ادارے جیو نیوز اور حامد میر کے بھائی نے پاکستان کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کو اس حملے کا ذمہ دار قرار دیا ہے جب کہ فوج کے ترجمان نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے آزادانہ انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔

فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ بغیر کسی ثبوت آئی ایس آئی یا اس کے سربراہ کو حملے کا ذمہ دار قرار دینا ’افسوسناک‘ اور ’گمراہ کن‘ ہے۔
بیان میں حملے کی مذمت کرتے ہوئے آزاد انکوائری کمیشن کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
سندھ کے وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ نے حملے کی تحقیقات کا حکم جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئی جی سندھ اور ایڈیشنل آئی جی کی سربراہی میں کمیٹی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرے گی اور ملزمان کو بے نقاب کیا جائے گا۔
اطلاعات کے مطابق حامد میر سنیچر کی شام کراچی کے ہوائی اڈے سے اپنے دفتر کی جانب جا رہے تھے کہ راستے میں نامعلوم افراد نے ان کی گاڑی پر فائرنگ کی جس سے وہ زخمی ہو گئے۔
ان کے ڈرائیور نے حملے کے بعد گاڑی کو نجی ہسپتال پہنچایا جہاں ابتدائی طبی امداد کے بعد حامد میر کا آپریشن کیا گیا اور اب ان کی حالت خطرے سے باہر بتائی جا رہی ہے۔
نیوز چینل جیو نے الزام عائد کیا ہے کہ حامد میر نے جنگ انتظامیہ، اپنے خاندان اور حکومت کے کچھ لوگوں کو تحریری طور پر آگاہ کر دیا تھا کہ اگر ان پر حملہ ہوا تو پاکستان کا خفیہ ادارہ آئی ایس آئی اور اس کے سربراہ جنرل ظہیر الاسلام اس کے ذمے دار ہوں گے۔
جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے حامد کے بھائی عامر میر نے کہا کہ ان کے بھائی نے انھیں بتایا تھا کہ آئی ایس آئی نے ان کے قتل کا ایک منصوبہ بنا رکھا ہے۔ عامر میر کے مطابق حامد میر نے کمیٹی تو پروٹیکٹ جرنلسٹ کے لیے ایک پیغام ریکارڈ کرا رکھا ہے جس میں انھوں نے آئی ایس آئی کے سربراہ ظہیر السلام اور کچھ کرنل رینک کے افسران کو نامزد کیا ہے۔
جذباتی انداز میں بات کرتے ہوئے عامر میر کا کہنا تھا ’حامد میر کو دہشت گردوں سے زیادہ آئی ایس آئی سے خطرہ تھا، جس کی وجہ بلوچستان کے مسئلے اور پرویز مشرف کے حوالے سے اختلاف رائے تھا۔ یہ اختلافات آئی ایس آئی کے سابق سربراہ احمد شجاع پاشا کے دور سے تھے۔‘
ادھر پاکستان کے سرکاری ٹی وی کا کہنا ہے کہ وزیراعظم میاں نواز شریف نے اس معاملے پر آج اہم اجلاس طلب کر لیا ہے۔ اس اجلاس میں سیاسی اور حکومتی معاون شرکت کریں گے۔
حامد میر پر قاتلانہ حملے کے خلاف پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ نے آج ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا ہے، جب کہ سنیچر کو بعض شہروں میں احتجاج بھی کیا گیا ادھر پاکستان کے سینیئر صحافیوں نے کہا ہے کہ پاکستانی میڈیا کو متحد ہونے کی ضرورت ہے۔
ایکسپریس ٹریبیون کے چیف ایڈیٹر ایم ضیاء الدین کے مطابق میڈیا اداروں کے مالکان بے حس اور کاروبار کے نام پر بک چکے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’پاکستان کے صحافتی اداروں میں اتحاد نہ ہونے کا نتیجہ ہے کہ صحافیوں کو چن چن کر مارا جا رہا ہے۔‘
انھوں نے کہا ’ہمارے ادارے پر کئی بار حملے ہوئے مگر ان کی رپورٹنگ اس طرح کی گئی کہ جیسے کسی اور جزیرے پر یہ واقع ہوا ہو۔‘
ایم ضیاالدین کا کہنا تھا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ اس واقع کے بعد میڈیا متحد ہو پائےگا۔’اب بھی دیکھ لیں اے آر وائی نے جیو کے حوالے سے بلیک آؤٹ کیا ہوا ہے۔ تو یہ تھوڑے دن تک بات چلے گی۔‘
اس سے قبل کراچی پولیس کے چیف شاہد حیات نے جیو نیوز کو بتایا کہ حامد میر کے ساتھ ایک محافظ بھی موجود تھا لیکن ان کی گاڑی پر حملہ اتنا اچانک ہوا کہ وہ بھی کچھ نہ کر سکا۔
شاہد حیات کے مطابق حامد میر آغا خان ہسپتال میں موجود ہیں اور انھیں بتایا گیا ہے کہ جسم کے نچلے دھڑ میں تین گولیاں لگی ہیں اور انھیں انتہائی نگہداشت کے وارڈ سے آپریشن تھیٹر منتقل کیا گیا۔
پولیس چیف کا کہنا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حملہ آوروں کو حامد میر کی کراچی آمد کے بارے میں پہلے سے ہی علم تھا اور وہ ان کے منتظر تھے۔ پولیس چیف کے مطابق حملے میں دو موٹر سائیکل اور ایک کار استعمال کی گئی۔
حامد میر کے ڈرائیور نے جیو نیوز کو بتایا کہ وہ ایئرپورٹ سے باہر سڑک پر آئے تو موڑ پر گاڑی کی رفتار کم ہو گئی اور اس دوران سفید کپڑوں میں ملبوس موٹر سائیکل سواروں نے ان کا پیچھا کرتے ہوئے پستول سے فائرنگ کی۔ ڈرائیور نے بتایا کہ انھوں نے گاڑی کی رفتار بڑھا دی لیکن حملہ آور پیچھا کرتے رہے۔
ایک ماہ پہلے ہی صوبہ پنجاب کے شہر لاہور میں نجی ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز کے اینکر پرسن اور بلاگر رضا رومی کی گاڑی پر فائرنگ سے ان کا ڈرائیور ہلاک ہوگیا تھا۔
اس سے پہلے سنہ 2012 میں بھی اسلام آباد میں حامد میر کی گاڑی میں بارودی مواد نصب کیا گیا تھا جسے بعد میں ناکارہ بنا دیا گیا۔
پاکستان کے صدر ممنون حسین، وزیرِ اعظم نواز شریف، وزیر داخلہ چوہدری نثار، وزیرِ اطلاعات پرویز رشید اور پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی جیو نیوز کے اینکر پرسن حامد میر پر حملے کی مذمت کی ہے۔
صحافیوں کے تحفظ کی عالمی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی ایک رپورٹ میں پاکستان کو دنیا میں صحافیوں کے لیے بدترین ملک قرار دیا جاتا ہے جہاں صحافیوں کو کسی قانونی گرفت کے خطرے سے بالاتر نشانہ بنایا جاتا ہے۔
روں سال بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز ساں فرنٹیئرز کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں طالبان اور فوج دونوں ہی صحافیوں کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں اور منتخب حکومت ان دونوں کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔

بی بی سی اردو

 

 

 

modiryat urdu

Recent Posts

دارالعلوم مکی زاہدان کے استاد کو رہا کر دیا گیا

مولوی عبدالحکیم شہ بخش، دارالعلوم زاہدان کے استاد اور "سنی آن لائن" ویب سائٹ کے…

5 months ago

زاہدان میں دو دینی مدارس پر سیکورٹی حملے کے ردعمل میں دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ کا بیان

دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ نے زاہدان میں دو دینی مدارس پر سکیورٹی اور فوجی دستوں…

5 months ago

زاہدان میں دو دینی مدارس پر سکیورٹی فورسز کے حملے میں درجنوں سنی طلبہ گرفتار

سنی‌آنلاین| سیکورٹی فورسز نے آج پیر کی صبح (11 دسمبر 2023ء) زاہدان میں دو سنی…

5 months ago

امریکہ کی جانب سے غزہ جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کرنا ایک “انسانیت سے دشمنی” ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکہ کی طرف سے…

5 months ago

حالیہ غبن ’’حیران کن‘‘ اور ’’مایوس کن‘‘ ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے آج (8 دسمبر 2023ء) کو زاہدان میں نماز جمعہ کی…

5 months ago

دنیا کی موجودہ صورت حال ایک “نئی جہاں بینی” کی متقاضی ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے ایک دسمبر 2023ء کو زاہدان میں نماز جمعہ کی تقریب…

6 months ago