Categories: اسلام

خلافت راشدہ کا ایک جج

حضرت عمرؓ بن خطاب کا عہدِ خلافت ہے۔ عمرؓ کسی شخص سے ایک گھوڑا خریدتے ہیں، اِس شرط پر کہ پسند آ گیا تو رکھ لیں گے، ورنہ واپس کر دیں گے۔ گھوڑا ایک سوار کوے کے لیے دیتے ہیں اور وہ سواری میں چوٹ کھا کر لنگڑا ہو جاتا ہے ۔عمرؓ گھوڑا واپس کرنا چاہتے ہیں مگر مالک لینے سے انکار کر دیتا ہے۔ دونوں شریح بن حارث کو ثالث مقرر کرتے ہیں۔ شریح فیصلہ کرتے ہیں ’’جو گھوڑا خریدا ہے، اُسے رکھو یا جس حالت میں لیا تھا، اِسی حالت میں واپس کرو۔‘‘ عمرؓ فیصلہ ہی تسلیم نہیں کرتے بلکہ شریح کو کوفہ کا جج بھی مقرر کر دیتے ہیں کہ ایسا دقیقہ رس، ذکی، طباع، حدیث و فقہ کا ماہر اور بے خوف انسان شخص ایسے ہی بلند پایہ منصب کا اہل ہو سکتا ہے۔

قاضی شریح اپنی ذمے داریاں اِتنی خوبی، قابلیت اور دیانت کے ساتھ انجام دیتے ہیں کہ اموی خلیفہ عبدالمالک کے زمانے تک مسلسل ساٹھ برس اِس منصبِ جلیلہ پر فائز رہتے ہیں۔ اسلام کی تاریخ میں اُن کا شمار سب سے بڑے قضاۃ میں ہوتا ہے۔ اِن کے بعض فیصلوں پر تو اسلام کی تاریخِ عدل بجا طورپر ناز کر سکتی ہے۔

٭٭
حضرت علیؓ کا دورِ خلافت ہے۔ دارالخلافہ مدینے سے کوفے منتقل ہو چکا ۔شریح اسلامی مملکت کے چیف جسٹس ہیں۔ امیر المؤمنین علیؓ اور ایک یہودی کا تنازع ان کی عدالت میں پیش ہوتا ہے۔ امیر المؤمنین کی زرہ کہیں گر پڑی تھی اور اِس یہودی کے ہاتھ لگ گئی۔ امیر المؤمنین کو پتا چلتا ہے تو اِس سے زرہ کا مطالبہ کرتے ہیں، مگر یہودی کہتا ہے کہ زرہ میری ہے، چنانچہ دینے سے انکار کر دیتا ہے۔ امیر المؤمنین عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں۔ چیف جسٹس شریح فریقین کے بیان لیتے ہیں۔ یہودی اپنے بیان میں کہتا ہے کہ زرہ میری ہے اور اِس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ میرے قبضے میں ہے ۔چیف جسٹس شریح، امیر المؤمنین سے اپنے دعوے کے ثبوت میں گواہ پیش کرنے کو کہتے ہیں۔ وہ دو گواہ پیش کرتے ہیں: حسنؓ اور قنبرؓ۔ چیف جسٹس شریح کہتے ہیں کہ قنبرؓ کی شہادت تو قبول کرتا ہوں لیکن حسنؓ کی شہادت قابلِ قبول نہیں۔

امیر المؤمنین کہتے ہیں کہ آپ حسنؓ کی شہادت کو مسترد کرتے ہیں ! کیا آپؓ نے رسول اﷲﷺ کا ارشاد نہیں سنا کہ حسنؓ اور حسینؓ جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں۔ چیف جسٹس شریح کہتے ہیں ’’سنا ہے، مگر میرے نزدیک باپ کے حق میں بیٹے کی شہادت معتبر نہیں۔‘‘

دوسرا شاہد نہ ہونے کی وجہ سے امیر المؤمنین کا دعویٰ خارج کر دیا گیا ۔امیر المؤمنین نہ تو کوئی آرڈی نینس جاری کرتے اور نہ کسی قانون کی پناہ ڈھونڈتے ہیں بلکہ اِس فیصلے کے آگے سر تسلیم خم کر دیتے ہیں۔

یہودی اِس فیصلے سے بے حد متاثر ہوتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ ایک شخص صاحبِ اقتدار ہونے کے باوجود زرہ اِس سے نہیں چھینتا بلکہ عدالت کے دروازے پر دستک دیتا اور مدعی کی حیثیت سے اِس کے سامنے جاتا ہے ۔ پھر عدالت اِس کے ساتھ کوئی امتیازی برتاؤ نہیں کرتی، مدعی اور مدعا علیہ دونوں یکساں حالت میں اِس کے سامنے پیش ہوتے ہیں۔ عدالتی کارروائی میں بھی کوئی خاص اہتمام نہیں ہوتا، روز مرہ کی سی کارروائی ہوتی ہے اور عدالتی طریق کار کے عین مطابق۔ پھر عدالت کا جج امیر المؤمنین کے خلاف فیصلہ صادر کرتا اور امیر المؤمنین بے چون و چرا اِس فیصلے کے آگے سر جھکا دیتا ہے۔ اسلامی عدالت کا بے لوث عدل اور امیر المؤمنین کا منصفانہ کردار اِس کے دل میں کھب جاتا ہے۔ وہ وہیں عدالت میں پکار اُٹھتا ہے کہ’’ زِرہ امیر المؤمنین ہی کی ہے اور جس دین کا ماننے والا قاضی، امیر المؤمنین کے خلاف فیصلہ صادر کرتا ہے اور امیر المؤمنین اِس فیصلے کو بلا حیل و حجت تسلیم کر لیتا ہے، وہ یقینا سچا ہے ۔‘‘

امیر المؤمنین اِس یہودی کے اسلام قبول کر لینے پر اِتنے مسرور و شادماں ہوتے ہیں کہ بطور یادگار اپنی زرہ اِسے دے دیتے ہیں۔

٭٭
عدلِ گستری کا ایک منظر اور ملاحظہ فرمائیے:

عدالت کا اجلاس ہورہا ہے۔ اپنے عہد کے بلند پایۂ عالم اشعث بن قیس تشریف لاتے ہیں۔ جسٹس شریح اُٹھ کھڑے ہوتے اور کہتے ہیں، ہمارے شیخ اور سردار، خوش آمدید! پھر اُنہیں اپنے پہلو میں بٹھا لیتے ہیں ۔ اِتنے میں ایک شخص داخل ہوتا ہے ، وضع قطع اور لباس وغیرہ بتا رہے ہیں کہ کوئی عامی ہے۔ وہ اشعث کے خلاف دعویٰ دائر کرتا اور عدالت سے انصاف چاہتا ہے۔ جسٹس شریح اِس کا بیان لیتے ہیں۔ جونہی سارا واقعہ سنتے ہیں، اُن کی نگاہیں بدل جاتی ہیں اور اشعث کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں :

’’اشعث ! یہاں سے اُٹھو، مدعی کے پاس کھڑے ہو جاؤ اور جوابِ دعویٰ پیش کرو۔‘‘

اشعث جسٹس شریح کے اِس طرزِ عمل پر چونک پڑتے اور کہتے ہیں’’میں یہیں بیٹھ کر اِن باتوں کا جواب دوں گا۔‘‘

جسٹس شریح کی باوقار اور بلند آواز عدالت میں گونجتی ہے ’’فوراً کھڑے ہو جاؤ ورنہ میں کسی کو حکم دوں گا کہ وہ تمہیں اُٹھا دے ۔‘‘

عدالت میں سناٹا طاری ہے۔ اشعث چپ چاپ اُٹھتے اور مدعی کے ساتھ جا کر کھڑے ہوتے ہیں۔

٭٭
ایک جج کو عدل و انصاف کی راہ سے کئی اُمور منحرف کر سکتے ہیں…مثلاً اعلیٰ حکام کا دباؤ، اُن کا لحاظ، عزیز و اقارب کا پاس، سفارش، رشوت اور ظاہر فریبی۔لیکن جن دِنوں کا ذکر ہو رہا ہے، تب عدالت پر اعلیٰ حکام یا خود سربراہِ مملکت کے دباؤ کا کبھی تصور تک سایہ افگن نہیں ہوا۔ رہا لحاظ اور مروّت، تو اوپر کے مناظر شاہد ہیں کہ جسٹس شریح عدل و انصاف کے باب میں کسی کا لحاظ نہیں کرتے۔ اگر امیر المؤمنین کی پیش کردہ شہادت بھی ناقص ہو، تو اُن کا دعویٰ مسترد کر دیتے ہیں۔ اپنے ایک دوست اور وقت کے بڑے قابلِ احترام عالم کو بھی بھری عدالت میں مدعی کے دوش بدوش جا کھڑے ہونے کا حکم صادر کرتے اور ان کی طرف سے نادانستہ گریز کا اظہار دیکھ کر جبراً اُٹھانے کی دھمکی دیتے ہیں۔

عزیز و اقارب کا پاس بھی عموماً عدل کی راہ میں حائل ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے دور میں کوئی عادل جج کسی ایسے مقدمے کی سماعت نہیں کرتا جس کا تعلق اُس کے اپنے عزیز واقارب یا دوست احباب سے ہو۔ خود فریق مخالف بھی ایسی صورت میں خواہش مند ہوتا ہے کہ مقدمہ کسی دوسری عدالت میں منتقل ہو جائے ، لیکن اُس زمانے میں اِس بنیاد پر انتقالِ مقدمہ کا دستور نہیں تھا۔ دوسرے ججوں کی طرح جسٹس شریح کی عدالت میں بھی اُن کے اپنے عزیزوں اور دوستوں کے مقدمات پیش ہوتے اور ان کا فیصلہ کرنے میں وہ کسی تعلق کو خاطر میں نہیں لاتے۔ اگر ان کا بیٹا بھی قانون کی زد میں آ جاتا تو اِس کی پروا نہیں کرتے۔

ایک مرتبہ ان کا صاحبزادہ کسی ملزم کی ضمانت دیتا ہے۔ ملزم بھاگ جاتا ہے۔ جسٹس شریح ملزم کے بدلے میں اپنے بیٹے کو جیل بھیج دیتے ہیں۔

ایک بار ان کا اردلی کسی شخص کو کوڑے مارتا ہے۔ مضروب ان کی عدالت میں استغاثہ دائر کرتا ہے اور وہ اردلی کو مضروب کے ہاتھوں کوڑے لگواتے ہیں۔

ایک مرتبہ ان کے خاندان کا ایک فرد کسی شخص پر ظلمِ ناروا کرتا ہے۔ جسٹس شریح اُسے ایک ستون سے بندھوا دیتے ہیں۔ عدالت برخاست ہو جاتی ہے اور جانے لگتے ہیں تو وہ عزیز کچھ کہنا چاہتا ہے ۔مگر شریح یہ کہہ کر چلے جاتے ہیں’’ مجھ سے کہنے سننے کی حاجت نہیں، تمہیں حق نے قید کیا ہے ۔

ایک مرتبہ ان کے صاحبزادے کا چند دوسرے اشخاص سے کسی حق کے بارے میں تنازع ہو گیا۔ لڑکا اُنہیں سارے واقعات بتا کر پوچھتا ہے ، اگر مقدمے میں کامیابی کی اُمید ہو تو میں دعویٰ کر دوں یا خاموش رہوں؟ شریح مشورہ دیتے ہیں کہ مقدمہ دائر کر دو۔ مقدمہ اُنہی کے سامنے پیش ہوتا ہے اور وہ بیٹے کے خلاف فیصلہ دیتے ہیں۔ گھر آتے ہیں تو بیٹا کہتا ہے، میں نے آپ سے مشورہ نہ کیا ہوتا، تو اِس فیصلے پر مجھے شکایت نہ ہوتی۔ مگر آپ نے خود ہی مقدمہ دائر کرنے کا مشورہ دیا اور خود ہی میرے خلاف فیصلہ صادر کر دیا۔ اِس طرح مجھے ذلیل و رُسوا کیا۔ جسٹس شریح کا جواب انصاف کی تاریخ میں آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ کہتے ہیں:

’’جانِ پدر! تم مجھے دُنیا جہان سے عزیز ہو، لیکن اﷲ مجھے عزیز تر ہے۔ مجھے اُن لوگوں کا حق نظر آیا تھا۔ اگر میں تمہیں بتا دیتا تو تم اُن سے صلح کر لیتے اور یوں اُن کا حق مارا جاتا۔‘‘

رشوت بھی حق و عدل کی راہ میں سب سے بڑی رُکاوٹ ہے۔ عدالتوں اور سرکاری دفتروں میں اِس کا چلن ہر زمانے میں رہا ہے۔ رشوت کی ایک مہذب صورت ہدیہ و تحائف ہیں۔ اہلِ معاملہ اپنے جائز و ناجائز اُمور پورے کرنے کے لیے عموماً اُنہی کا سہارا لیتے ہیں۔ جسٹس شریح کے پاس بھی ہدیہ و تحائف آتے ۔ ہدیہ تو وہ قبول کر لیتے مگر رشوت سے بچنے کی خاطر فوراً ہدیہ دینے والے کو اپنی جانب سے ہدیہ دے دیتے۔

جج اور قاضی بسا اوقات بہ ظاہر فریب میں آ جاتے ہیں۔ حقیقت کی تہ تک پہنچنے کے لیے نہایت گہری بصیرت اور عمیق نظر کی ضرورت ہے۔ جسٹس شریح بے حد دقیقہ رس ہیں اور اہلِ مقدمہ کی ظاہری حالت سے کبھی متاثر نہیں ہوتے۔ ایک عورت ایک مرد کے خلاف مقدمہ دائر کرتی ہے۔ عدالت میں آتی ہے تو زارو قطار رونے لگتی ہے۔ امام شعبیؒ بھی موجود ہیں۔ وہ شریح سے کہتے ہیں’’یہ عورت مظلوم معلوم ہوتی ہے۔‘‘ شریح کہتے ہیں ’’رونا مظلومیت کا ثبوت نہیں۔ یوسفؑ کے بھائی بھی باپ کے پاس روتے گئے تھے۔‘‘

جسٹس شریح مقدمے کی گہرائیوں میں اُترتے اور شہادتوں کو خوب جانچتے پرکھتے ہیں۔ تاہم مقدمے کا انحصار چونکہ شہادتوں پر ہوتا ہے، اِس لیے جب دیکھتے کہ گواہ مشکوک ہیں، مگر ان کی ظاہری صداقت پر گرفت نہیں کی جا سکتی تو گواہوں سے کہتے کہ میں نے تمہیں طلب نہیں کیا ، تم جانا چاہتے ہو تو میں نہیں روکتا، تمہاری گواہی سے میرا دامن محفوظ ہو جائے گا، تم بھی اپنے آپ کو بچاؤ۔ اگر گواہ جھوٹی گواہی سے پھر بھی باز نہیں آتے تو چونکہ جج کسی گواہ کو شہادت دینے سے نہیں روک سکتا، اِس لیے جسٹس شریح مجبوراً اُس کی شہادت پر فیصلہ کر دیتے ۔ تاہم جس فریق کے حق میں فیصلہ ہوتا، اُس سے کہہ دیتے کہ تم اِس معاملے میں ظالم ہو، لیکن مقدمے کا فیصلہ مجھے اپنے خیال و گمان پر نہیں ثبوت کے مطابق کرنا ہے۔ اِس لیے یہ بات اپنی جگہ رہ جاتی ہے کہ جو چیز خدا نے تم پر حرام کی، میرا فیصلہ اُسے حلال نہیں کر سکتا ۔

بقلم: محمدتوصیف پراچہ
ہماری ویب

modiryat urdu

Recent Posts

دارالعلوم مکی زاہدان کے استاد کو رہا کر دیا گیا

مولوی عبدالحکیم شہ بخش، دارالعلوم زاہدان کے استاد اور "سنی آن لائن" ویب سائٹ کے…

5 months ago

زاہدان میں دو دینی مدارس پر سیکورٹی حملے کے ردعمل میں دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ کا بیان

دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ نے زاہدان میں دو دینی مدارس پر سکیورٹی اور فوجی دستوں…

5 months ago

زاہدان میں دو دینی مدارس پر سکیورٹی فورسز کے حملے میں درجنوں سنی طلبہ گرفتار

سنی‌آنلاین| سیکورٹی فورسز نے آج پیر کی صبح (11 دسمبر 2023ء) زاہدان میں دو سنی…

5 months ago

امریکہ کی جانب سے غزہ جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کرنا ایک “انسانیت سے دشمنی” ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکہ کی طرف سے…

5 months ago

حالیہ غبن ’’حیران کن‘‘ اور ’’مایوس کن‘‘ ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے آج (8 دسمبر 2023ء) کو زاہدان میں نماز جمعہ کی…

5 months ago

دنیا کی موجودہ صورت حال ایک “نئی جہاں بینی” کی متقاضی ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے ایک دسمبر 2023ء کو زاہدان میں نماز جمعہ کی تقریب…

6 months ago