افغانستان کے خلاف امریکا کی اپنے اتحادیوں کے ساتھ نو سال پہلے کی گئی سراسر ناجائز جارحیت نتائج کے اعتبار سے سپر پاور کے لیے خود کش حملہ بن گئی ہے۔ مسلمانان افغانستان کی تاریخ ساز ، سخت جان اور ایمان افروز مزاحمت سے نمٹنا امریکی معیشت کے لیے روز بروز مشکل تر ہوتا جارہا ہے اور وہ تباہی کے دہانے پر آپہنچی ہے۔

امریکی حکمراں کہتے رہے ہیں کہ ان کی اصل لڑائی القاعدہ سے ہے جو ان کے موقف کے مطابق، صحیح اور غلط کی بحث سے قطع نظر، نائن الیون حملوں کی اصل ذمہ دار ہے۔ جبکہ طالبان حکمرانوں سے ان کا اختلاف صرف اتنا تھا کہ انہوں نے القاعدہ کی قیادت اور ارکان کو اپنے ملک میں پناہ دی تھی۔ چنانچہ سی آئی کے سربراہ لیون پنیٹا نے پچھلے دنوں جب یہ انکشاف کیا کہ افغانستان میں القاعدہ کے ارکان کی تعداد مشکل سے اب پچاس سے لے کر سو تک ہے تو اس پر برجستہ گرفت کرتے ہوئے نیوزویک کے ایڈیٹر فرید زکریا نے سی این این کے ایک پروگرام میں سوال اٹھایا کہ اگر القاعدہ کے محض سو ارکان کے خلاف امریکا افغانستان میں جنگ لڑ رہا ہے تو فی دشمن اسے سالانہ ایک ارب ڈالر خرچ کرنا پڑ رہے ہیں۔اس طرح یہ ایک سراسر غیر معقول جنگ بن گئی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ افغانستان میں سارا کاروبار تناسب سے عاری ہے اور اس طرح ایک چھوٹے مسئلے کا انتہائی مہنگا حل تلاش کیا جارہا ہے۔ اور اگر القاعدہ کو افغانستان میں اس حد تک کمزور کردینے کے بعد طالبان سے صرف اس لیے جنگ کی جارہی ہے کہ وہ القاعدہ کے حلیف تھے یا ہیں تو یہ ایسا ہی ہے جیسے دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست کے بعد اتحادی ملکوں کی جانب سے اٹلی سے جنگ جاری رکھے جانے کا فیصلہ ہوتا۔ جمہوری آزادیوں اور عوامی حقوق کے دعویدار امریکی حکمرانوں کی جانب سے افغانستان پر حریصانہ سامراجی عزائم کی تکمیل کے لیے کی گئی فوج کشی کے تلخ نتائج نے جہاں ایک طرف عوامی سطح پر اس جنگ کی مخالفت کرنے والوں کی اقلیت کو اکثریت میں تبدیل کردیا ہے وہیں منتخب ایوانوں کی فضا بھی حیرت انگیز طور پر بدل دی ہے۔ چنانچہ ماہ رواں کے اوائل میں افغانستان میں بھیجی گئی مزید امریکی فوج کے اخراجات کے لیے 33 بلین ڈالر کے اضافی فنڈز کی منظوری ایوان نمائندگان میں صرف پانچ ووٹوں سے ممکن ہوئی۔ اس بل کے حق میں 215 ارکان نے ووٹ دیا جبکہ مخالفت میں 210 ووٹ پڑے۔ اور یہی نہیں بلکہ اس بل میں دو ترامیم بھی پیش کی گئیں جو اگرچہ منظور نہیں ہوئیں مگر ارکان کی بڑی تعداد نے ان کی حمایت کی۔ان میں سے ایک ترمیم میں اضافی رقم کو فوجوں کی واپسی کے نظام الاوقات سے منسلک کرنے کی تجویز دی گئی تھی جس کے حق میں 162 ارکان نے رائے دی۔جبکہ دوسری ترمیم میں تیس ہزار مزید فوج کو افغانستان میں رکھنے کے بجائے اس اضافی رقم کو افواج کو افغانستان سے نکالنے کے لیے استعمال کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔یہ ترمیم سو ارکان کی جانب سے پیش کی گئی جن میں ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی بھی شامل تھیں۔
واضح رہے کہ یہ 33 بلین ڈالرعراق اور افغانستان میں امریکی افواج کے اضافی اخراجات کے اس 130 بلین ڈالر کے علاوہ ہیں جن کی منظوری کانگریس پہلے ہی دے چکی ہے۔ جبکہ پنٹاگون یعنی امریکی محکمہ دفاع کا2010ء کا بجٹ 693 بلین ڈالر کا ہے اور دوسرے تمام صوابدیدی اخراجات مل کر بھی اس سے کم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تجزیہ کار امریکا کے معاشی بحران کو افغان جنگ کا براہ راست نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ امریکا کے نیشنل لایئرز گلڈ کی گزشتہ میعاد تک صدر رہنے والی پروفیسر مارجوری کوہن کا کہنا ہے کہ اس صورت حال نے تعلیم اور صحت کے شعبوں میں ناگزیر اخراجات کے لیے بھی رقم باقی نہیں رہنے دی ہے۔ افغانستان میں ایک امریکی سپاہی پر ایک سال میں دس لاکھ ڈالر خرچ ہوتے ہیں جبکہ اس رقم سے بیس بے روزگار امریکیوں کو گرین جابس فراہم کی جاسکتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ جنگ امریکا کو نہ صرف دیوالیہ کررہی ہے بلکہ جانی نقصان کے لحاظ سے بھی اس کی المناک قیمت ادا کرنی پڑرہی ہے۔جون کا مہینہ سب سے ہلاکت خیز ثابت ہوا جبکہ اس سے پہلے 1149 امریکی سپاہی افغانستان میں ہلاک ہوچکے تھے۔جہاں تک افغان عوام کے جانی نقصان کا تعلق ہے تو یہ تعداد بتائی نہیں جاتی کیونکہ امریکی محکمہ دفاع امریکی سپاہیوں کے سوا کسی اور کے جانی نقصان کے اعداد وشمار مرتب کرنے سے انکار کرتا ہے۔ تاہم تاریخ شاہد ہے کہ جانی نقصان غیور اور حریت پسند افغانوں کے حوصلے پست نہیں کرسکتا چنانچہ امریکا کی سیاسی قیادت کے معتوب ٹھہرنے والے جنرل میک کرسٹل کہہ چکے ہیں کہ ”روس نے دس لاکھ افغانوں کو قتل کیا مگر اس کا کام نہیں بنا۔“ یہی وجہ ہے کہ امریکا کی سیاسی اور فوجی قیادت اب افغانستان میں طالبان کے مقابلے میں فتح کی بات نہیں کرتی بلکہ اس لفظ کے استعمال سے واضح طور پر گریز کیا جارہا ہے۔
حال ہی میں افغان جنگ کی مخالفت کے حوالے سے ایک اہم واقعہ ری پبلکن پارٹی کے چیئر مین مائیکل اسٹیل کی جانب سے افغانستان میں جنگ کو پھیلانے پر صدر اوباما پر کی گئی سخت تنقید ہے حالانکہ صدر بش کے دور میں اس جنگ کو شروع کرنے اور اس کے درست ہونے کی وکالت کرنے کی ذمہ دار ان ہی کی پارٹی ہے ۔ بہرصورت مائیکل اسٹیل نے سپر پاور کا خود کش حملہ ثابت ہونے والی افغان جنگ کو ناقابل فتح قرار دیتے ہوئے ، صدر اوباما کو یہ راستہ منتخب کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ” اوباما تاریخ کے ایسے طالب علم ہیں جو اسے سمجھ نہیں سکے۔ اگر وہ تاریخ کو سمجھتے تو افغانستان کے اندر زمینی جنگ میں الجھنے کا کام نہ کرتے۔ کیونکہ پچھلے ایک ہزار سال میں جس نے بھی یہ کوشش کی وہ ناکام ہوا۔“مائیکل اسٹیل کی اس نکتہ چینی پر صدر اوباما اس کے سوا اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ :
لو وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ بے ننگ و نام ہے
یہ جانتا اگر تو لٹاتانہ گھر کو میں

ثروت جمال اصمعی
(بہ شکریہ روزنامہ جنگ)
modiryat urdu

Recent Posts

دارالعلوم مکی زاہدان کے استاد کو رہا کر دیا گیا

مولوی عبدالحکیم شہ بخش، دارالعلوم زاہدان کے استاد اور "سنی آن لائن" ویب سائٹ کے…

5 months ago

زاہدان میں دو دینی مدارس پر سیکورٹی حملے کے ردعمل میں دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ کا بیان

دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ نے زاہدان میں دو دینی مدارس پر سکیورٹی اور فوجی دستوں…

5 months ago

زاہدان میں دو دینی مدارس پر سکیورٹی فورسز کے حملے میں درجنوں سنی طلبہ گرفتار

سنی‌آنلاین| سیکورٹی فورسز نے آج پیر کی صبح (11 دسمبر 2023ء) زاہدان میں دو سنی…

5 months ago

امریکہ کی جانب سے غزہ جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کرنا ایک “انسانیت سے دشمنی” ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکہ کی طرف سے…

5 months ago

حالیہ غبن ’’حیران کن‘‘ اور ’’مایوس کن‘‘ ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے آج (8 دسمبر 2023ء) کو زاہدان میں نماز جمعہ کی…

5 months ago

دنیا کی موجودہ صورت حال ایک “نئی جہاں بینی” کی متقاضی ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے ایک دسمبر 2023ء کو زاہدان میں نماز جمعہ کی تقریب…

5 months ago