مناسب ہے شیراز کے دور عروج کی بعض شخصیات کی سوانح عمری کا مختصراً تذکرہ کیا جائے تاکہ دسویں صدی ہجری تک شیراز کے علمی وثقافتی عروج اور اس کے بعد پیدا ہونے والے زوال کی وجوہات کا تجزیہ کیا جاسکے۔
حسن بن عثمان ابوحسان الزیادی الشیرازی:
ان کا شمار بڑے محدثین ومورخین میں ہوتاہے۔ وہ ثقہ عالم دین تھے جنہوں نے قضاوت کا عہدہ بھی سنبھالا۔ تاریخ پر ایک کتاب لکھی۔ ان کے شاگردوں میں محمد بن ادریس الشافعی، اسماعیل بن علیہ، وکیع بن الجراح و دیگر کا نام قابل ذکر ہے۔ “طبری” کے مطابق حسن بن عثمان الشیرازی 272 ھ.ق کو انتقال کرگئے۔
ابو عبداللہ محمد بن خفیف الشیرازی:
سرزمین فارس کے انتہائی زاہد ومتقی شخص تھے جو اپنے دور کے قطب تھے۔ علوم ظاہری کے ماہرترین عالم سمجھے جاتے تھے۔ ابوعبداللہ الشیرازی رؤیم، ابوالعباس بن عطاء اور طاہرالمقدسی جیسی شخصیات کے ہم عصر تھے اور ان کا شمار اکابرین میں ہوتاتھا۔ زندگی کی 104 بہار دیکھنے کے بعد سنہ 371 ھ.ق میں اس فانی دنیا سے کوچ کرگئے۔ ان کے جنازے کے ساتھ مسلمانوں کے علاوہ یہودیوں اور عیسائیوں کی بھی بڑی تعداد نکل گئی تھی۔
احمد بن عبدالرحمن الحافظ الشیرازی ابوبکر:
موصوف کا شمار حفاظ حدیث میں ہوتا تھا جو بکثرت روایت کرتے تھے۔ انہوں نے ابوبکر بن احمد بن ابراہیم الاسماعیلی، ابوسہل احمد الاسفرائینی اور ابواحمد محمد الحافظ ودیگر عراقی، خراسانی وجبلی مشایخ سے روایت کی ہے۔ جبکہ ابوطاہر بن سلمۃ، ابوالفضل بن غیلان اور ابوبکر الزنجانی سمیت ایک بڑی جماعت نے ان سے روایت کی ہے۔ احمد بن عبدالرحمن ثقہ، حافظ اور سچے محدث تھے۔ کئی سالوں تک ہمدان (ھمذان) میں رہے پھر سنہ 404 ھ.ق میں شیراز منتقل ہوئے اور شیراز ہی میں 411 ھ.ق کو ان کا انتقال ہوا۔
احمد بن منصور الشیرازی:
یہ شیخ کثرت سے سفر کرنے والے اور حدیث روایت کرنے والے تھے۔ حاکم نیشابوری نے لکھاہے: “احمد بن منصور زاہد اور طلب حدیث کے لیے بہت سفر کرنے والے تھے۔
کثرت سے حدیث سماع اور جمع کرتے تھے۔ 338 ھ.ق میں ہمارے پاس نیشابور آئے اور کئی سالوں تک یہیں رہے۔ مشایخ اور ابواب حدیث کے حوالے سے ان کے پاس بڑی تعداد میں کتابیں تھیں۔ انہوں نے عراق اور شام کا سفر بھی کیا۔ اس کے بعد اپنے آبائی علاقہ “شیراز” واپس آگئے۔ وہ شیراز میں از حد مقبول تھے اور نیکی واچھائی میں ضرب المثل تھے۔ شیراز ہی میں شعبان 382 ھ.ق کو انتقال کرگئے”۔
“شیراز” کے مشاہیر اور دانشور علماء کے ناموں کی فہرست کافی لمبی ہے جس کا احاطہ یہاں مشکل ہے۔ ساتویں صدی میں سید قطب الدین محمد الحسنی جیسے عالم وعارف باللہ، فن نحو کے ماہر حسن بن احمد الفارسی شیراز کے بسنے والے تھے۔ اس شہرمیں بستے تھے۔ معروف شاعر وعارف مصلح الدین سعدی شیرازی بھی اسی صدی میں رہے ہیں جن کی دومایہ ناز فارسی کتابیں “بوستان” اور “گلستان” بہت معروف ہیں۔
اسی طرح آٹھویں صدی ہجری میں نجومیات کے ماہر عالم ابوالحسن بن محمد شیرازی نے شیراز کا نام بلند کردیا۔ معروف نحوی عالم وادیب، نحویوں کے امام ابوبشیر عمرو بن عثمان بن قنبر البصری (140 هـ / 760 م-180 هـ / 796 م) ملقب بہ “سیبویہ” کی نسبت بھی اسی شہر کی طرف ہے۔
شروع میں سیبیویہ نے فقہ وحدیث میں مہارت حاصل کی پھر عربی زبان کو اپنا موضوع بنایا اور اس فن میں اپنے زمانے کے امام بن گئے۔ چنانچہ عربی ادب میں انہوں نے ایک ایسی کتاب لکھی جس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ سیبویہ کا انتقال 180 هـ.ق میں ہوا۔
”شیراز” ہی کے ایک اور فرزند ارجمند حسن بن خطیر المعروف ابوعلی الفارسی تھے جو مختلف علوم وفنون کے ماہر تھے۔ عشر وشاذ، تفسیر، ناسخ ومنسوخ، فقہ واختلاف ودیگر علوم کے استاد تھے۔ علوم قراء ات کے ماہر ابوعلی الفارسی کا انتقال 598 ھ.ق کو قاہرہ میں ہوا۔
عالم اسلام کے نامور علماء وفقہاء اور شعراء کے ظہور کا سلسلہ ”شیراز” سے اسی طرح جاری رہا یہاں تک کہ سنہ 909 ھ.ق کو درندہ صفت صفویوں نے اس تاریخی شہر پر اپنا قبضہ جمالیا۔
ایران کے دیگر شہروں کی طرح شیراز بھی صفویوں کی درندگی وسربریت سے محفوظ نہیں رہا، انسان دشمن، علم دشمن اور وحشی صفویوں نے اس شہر سے علم وفقہ اور تعلیم کی جڑوں کو اکھاڑ پھینکا چنانچہ کئی صدیوں تک علم وہدایت کا روشن مینار بننے والا شیراز جہالت، رفض اور نادانی کی کھائیوں میں بری طرح گرگیا۔ صفوی درندے جس شہر کا رخ کرتے جیسا کہ ”اصفہان” ہو یا ”شیراز” یا کہ ”تبریز” سب سے پہلے علم اور اہل علم ان کا نشانہ بنتے چنانچہ وہ علماء کو قتل کرتے، تعلیمی اداروں کو بند کراتے تا کہ بدعات وخرافات کی اشاعت میں کوئی رکاوٹ ان کے سامنے نہ ہو۔
علم دشمن صفویوں نے اس قدر ایرانی شہروں کو تباہ کیا کہ ان کے بعد آنے والی حکومتوں کی کوششیں بارآور ثابت نہیں ہوئیں اور خرافات وبدعات کے دامن میں گرفتار عوام علم کی روشنیوں سے محروم رہے۔ اہل علم اور صاحب درد لوگوں نے شیراز چھوڑنے کو ترجیح دی اور دور دراز علاقوں کا رخ کیا۔ اس طرح علماء کے چلے جانے سے علم بھی اس علاقے سے چلا گیا۔ اہل سنت والجماعت کے ترک وطن سے سنت اور اس کی برکات بھی کوچ کر گئیں۔ نتیجہ میں وہاں جہالت، نادانی اور مہلک بدعات و رسوم کے سوا کچھ بھی باقی نہیں رہا۔ یہاں تک کہ اخیر صدیوں میں اسلام دشمن تحریکوں میں سے بعض بڑی تحریکیں مثلا “بھائیت” اور “بابیت” کا ظہور اسی شہر سے ہوا جن کے ماننے والے اپنے باطل عقائد کی وجہ سے بالاتفاق دایرہ اسلام سے خارج ہیں۔ تاریخی حوالوں کے مطابق اس باطل مذہب کا بانی “علی محمدرضاشیرازی” بنیادی طورپر شیعہ تھا جوباطنی اور جاہلانہ تصوف کی تعلیم حاصل کرکے روسیوںِ، انگریزوں اور یہودیوں کے اشارے پر1260ہ۔ق ( 23مارچ 1844)کو مہدویت اور پھرنبوت کادعوی کیا۔ درحقیقت اس تحریک کی پیدائش اور پھر نشوونما کی اصل وجہ بھی صفویوں کی وحشیانہ حرکتیں تھیں جو اہل سنت والجماعت پر عرصہ حیات تنگ کر چکے تھے اور اپنے جاہلانہ خیالات ونظریات کی پرچار کرکے امت مسلمہ کو اس علاقے میں تتر بتر کر گئے۔ چنانچہ بچ جانے والے عوام اپنے روشن ماضی کو بھول کر جہالت، باطل عقائد اور جھوٹے دعووں کے شکار ہوگئے۔
اللہ تعالی ایک بار پھر اس شہر کو علم ودانش کا گہوارہ بنادے۔ آمین
مولوی عبدالحکیم شہ بخش، دارالعلوم زاہدان کے استاد اور "سنی آن لائن" ویب سائٹ کے…
دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ نے زاہدان میں دو دینی مدارس پر سکیورٹی اور فوجی دستوں…
سنیآنلاین| سیکورٹی فورسز نے آج پیر کی صبح (11 دسمبر 2023ء) زاہدان میں دو سنی…
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکہ کی طرف سے…
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے آج (8 دسمبر 2023ء) کو زاہدان میں نماز جمعہ کی…
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے ایک دسمبر 2023ء کو زاہدان میں نماز جمعہ کی تقریب…