عالم اسلام

طالبان کا قیدیوں کی رہائی تک بین الافغان مذاکرات نہ کرنے کا اعلان

طالبان ترجمان کا کہنا ہے کہ جب تک ان کے 5 ہزار قیدی رہا نہیں کیے جاتے تب تک وہ بین الافغان مذاکرات میں حصہ نہیں لیں گے۔
امریکا اور طالبان کے درمیان ہفتے کو ہونے والے معاہدے کے مطابق دونوں فریقین نے اعتماد سازی کے اقدام کے طور پر جنگی و سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لیے مل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ‘رائٹرز’ کے مطابق معاہدے کے تحت 10 مارچ تک طالبان کے تقریباً 5 ہزار قیدیوں اور افغان حکومت کے تقریباً ایک ہزار قیدیوں کو رہا کیا جانا ہے۔
تاہم افغانستان کے صدر اشرف غنی نے، جو امریکا ۔ طالبان مذاکرات کا حصہ نہیں تھے، اس مطالبے کو مسترد کردیا تھا۔
طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ‘رائٹرز’ کو بتایا کہ ‘ہم بین الافغان مذاکرات کے لیے پوری طرح تیار ہیں لیکن اس کے لیے اپنے 5 ہزار قیدیوں کی رہائی کا انتظار کر رہے ہیں۔’
انہوں نے کہا کہ ‘اگر ہمارے 5 ہزار قیدی رہا نہیں کیے جاتے تو کوئی بین الافغان مذاکرات نہیں ہوں گے۔’
واضح رہے کہ امریکا نے امید کا اظہار کیا تھا کہ افغانستان میں مستقل سیاسی تصفیے اور سیز فائر کے لیے مذاکرات کا آغاز جلد ہوگا، تاہم مغربی سفارتکاروں اور تجزیہ کاروں کو آگے کے مراحل میں بھرپور چیلنجز نظر آرہے ہیں۔
اشرف غنی نے اتوار کو کہا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قیدیوں کی رہائی کے لیے نہیں کہا ہے اور قیدیوں کی رہائی کے معاملے پر جامع امن منصوبے کے حصے کے طور پر بات ہونی چاہیے۔
طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ‘5 ہزار قیدیوں کی فہرست میں بیشتر وہ ہیں جنہیں امریکی فوج نے گرفتار کیا اور انہیں افغان حکومت کی جیلوں میں رکھا گیا ہے، جبکہ ان میں سے اکثر بیمار اور بزرگ قیدی ہیں۔’
انہوں نے کہا کہ دوحہ معاہدے سے قبل سات یوم تک کشیدگی میں کمی کا منصوبہ باضابطہ طور پر ختم ہوچکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم اس طرح کی رپورٹس موصول ہو رہی ہیں کہ لوگ کشیدگی میں کمی سے خوش ہیں اس لیے ہم ان کی یہ خوشی تباہ نہیں کرنا چاہیے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اپنی ملٹری کارروائیاں اس سطح پر نہیں لے جائیں گے جس سطح پر یہ پہلے تھیں۔’
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ‘یہ سرگرمیاں اس سطح پر کبھی بھی پہنچ سکتی ہیں، ایک گھنٹے بعد، آج رات کو، کل یا دو روز بعد۔’ خیال رہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان طویل مذاکرات کے بعد تحریری معاہدے کے نتیجے میں افغانستان میں 18 سالہ جنگ کے خاتمے کے قوی امکانات ہیں۔
معاہدے کے تحت امریکا 135 روز میں افغانستان میں اپنی فوج 13 ہزار سے کم کرکے 8 ہزار 600 کرے گا جبکہ اس کی اتحادی افواج کی تعداد بھی بتدریج کم کی جائے گی۔
طالبان کی طرف سے معاہدے میں افغانستان کی سرزمین کسی دہشت گرد گروپ کی جانب سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال نہ ہونے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔
امریکا اور افغان حکومت کے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ افغانستان سے امریکی اور اتحادی افواج کا مکمل انخلا 14 ماہ میں مکمل ہوگا۔

baloch

Recent Posts

دارالعلوم مکی زاہدان کے استاد کو رہا کر دیا گیا

مولوی عبدالحکیم شہ بخش، دارالعلوم زاہدان کے استاد اور "سنی آن لائن" ویب سائٹ کے…

5 months ago

زاہدان میں دو دینی مدارس پر سیکورٹی حملے کے ردعمل میں دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ کا بیان

دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ نے زاہدان میں دو دینی مدارس پر سکیورٹی اور فوجی دستوں…

5 months ago

زاہدان میں دو دینی مدارس پر سکیورٹی فورسز کے حملے میں درجنوں سنی طلبہ گرفتار

سنی‌آنلاین| سیکورٹی فورسز نے آج پیر کی صبح (11 دسمبر 2023ء) زاہدان میں دو سنی…

5 months ago

امریکہ کی جانب سے غزہ جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کرنا ایک “انسانیت سے دشمنی” ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکہ کی طرف سے…

5 months ago

حالیہ غبن ’’حیران کن‘‘ اور ’’مایوس کن‘‘ ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے آج (8 دسمبر 2023ء) کو زاہدان میں نماز جمعہ کی…

5 months ago

دنیا کی موجودہ صورت حال ایک “نئی جہاں بینی” کی متقاضی ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے ایک دسمبر 2023ء کو زاہدان میں نماز جمعہ کی تقریب…

6 months ago