’’مس! مجھے میری بچی کا ایڈمیشن کروانا ہے، آپ کے اسکول میں۔‘‘ عاکفہ استقبالیہ پر بیٹھی مس نزہت سے بولی۔
’’جی ضرور! مگر ایڈمیشن اس ماہ کی ۲۹ سے شروع ہوں گے۔‘‘ مس نزہت نے مسکراتے ہوئے عاکفہ کو معلومات دیں۔
’’اچھا! تو پھر آپ میرا رابطہ نمبر لکھ لیجیے۔‘‘ عاکفہ نے کہا۔
’’ٹھیک ہے، لکھوایئے۔‘‘ مس نزہت نے پیشہ ورانہ انداز سے کہا۔
یہ مس نزہت اور عاکفہ کی پہلی ملاقات تھی۔
’’جی! آپ اپنی بچی کا ہمارے اسکول میں داخلہ کیوں کروانا چاہتی ہیں؟‘‘
مس نزہت نے عاکفہ سے سوال کیا۔
’’دراصل۔۔۔ ہم اس علاقے میں نئے شفٹ ہوئے ہیں، اب پرانا علاقہ دور پڑتا ہے۔ اس لیے بچی کا اسکول تبدیل کروا رہے ہیں، یہ پہلی وجہ ہوئی۔ دوسری وجہ آپ کے اسکول کا اسلامی ماحول و تربیت ہے۔ ورنہ اسکول تو ہر گلی کے نکڑ پر موجود ہیں۔‘‘ عاکفہ نے وضاحت سے جواب دیا۔
’’ہم م م ۔۔۔ آپ کون سی گلی میں شفٹ ہوئی ہیں؟‘‘ مس نزہت نے ان کی منتقلی کا سن کر دلچسپی سے پوچھا۔
’’گلی نمبر تین میں۔‘‘ عاکفہ نے مختصر جواب دیا۔
’’اچھا! میں گلی نمبر ایک میں رہتی ہوں۔‘‘ مس نزہت نے بتایا۔
’’بہت خوشی ہوئی یہ جان کر کہ آپ تو بہت قریب رہتی ہیں، میرے گھر سے۔۔۔‘‘ عاکفہ نے خوشی کا اظہار کیا۔
’’سنیں! وہ مجھے آپ سے ایک بات کہنی تھی۔‘‘
مس نزہت نے جھجکتے ہوئے کہا:
’’جی۔۔۔ جی فرمائیے!‘‘ عاکفہ ہمہ تن گوش ہوئی۔
’’وہ میں اپنا مکان فروخت کرنا چاہتی ہوں، اگر آپ کے جاننے والوں میں کوئی دلچسپی رکھتا ہو تو ضرور بتائیے گا، یہ میرا نمبر ہے کہ تا کہ مجھے سے رابطہ ہوسکے۔‘‘ مس نزہت نے نمبر کی پرچی عاکفہ کی طرف بڑھائے ہوئے کہا۔
’’اس طرح اسٹیٹ ایجنسی والوں کے کمیشن سے بچا جاسکتا ہے۔ کچھ ہمارا فائدہ ہوجائے گا، کچھ ان کا۔‘‘ مس نزہت نے نظریں جھکائے بات مکمل کی۔
عاکفہ نے بہت غور سے ان کی باتیں سنیں۔ہر وقت مسکرانے والی مس نزہت آج اسے کچھ مغموم سی محسوس ہوئیں۔
ابھی عاکفہ ان کی اس جھجک کا راز معلوم کرنے کے لیے ذہن میں جملہ ترتیب دے رہی تھی کہ مس نزہت پھر سے گویا ہوئیں۔
’’دراصل میں بیوہ ہوں۔‘‘ عاکفہ یکدم سناٹے کی کیفیت میں آگئی۔ مس نزہت کے اس جملے میں کیسا درد اور غم چھپا ہوا تھا۔ کتنا کرب چھایا تھا ان کے چہرے پر۔ ان کی آنکھوں میں بے یقینی کے سائے لہرائے تھے۔ کتنی اذیت سے وہ جملہ ان کے ہونٹوں سے ادا ہوا تھا۔ عاکفہ کے لیے وہ سب ناقابل بیان تھا۔
’’کتنے سال ہوئے؟‘‘ عاکفہ صرف یہی جملہ کہہ پائی۔
’’بیس سال۔۔۔‘‘ مس نزہت نے مختصرا کہا۔
’’بیس سال!‘‘ عاکفہ نے دہرایا۔
یعنی بیس سال سے یہ عورت بنا شجر کے دھوپ کی تمازتوں کو برداشت کرتی، گرم ہواؤں کے تھپیڑوں اور سرد طوفانوں کا تن تنہا مقابلہ کررہی ہے۔ کتنی عظیم ہے یہ عورت!
شوہر کی ناگہانی موت، بھری جوانی میں بیوگی کی چادر اوڑھ کر دو بیٹوں کو جو ابھی منے منے سے تھے، ان کو زمانے کے سرد و گرم سے بچانے کے لیے مس نزہت میدان عمل میں آئیں۔ سسرالیوں نے تو گویا تعلق ہی ختم کرلیا۔ ماں باپ تھے نہیں۔ بھائی بھابھی نے دوسری شادی کا مشورہ دیا مگر جب عورت ماں بن جاتی ہے تو پھر اس کی اپنی ذات کہیں پیچھے رہ جاتی ہے۔ اس لیے اسکول میں ٹیچنگ اور گھر میں شام کے وقت ٹیوشن پڑھانا شروع کردیا۔ بھائی نے کہا بھی کہ ’’میں تمہارا اور بچوں کا خرچا برداشت کرسکتا ہوں۔‘‘ مگر اس نے اپنا بوجھ خود ہی اٹھانے کا فیصلہ کرلیا تھا، آخر کار آج اس کا بڑا بیٹا انجینئرنگ جب کہ چھوٹا ایم بی اے کی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔
عاکفہ سوچ رہی تھی کہ عورت سے جب مرد کی چھت چھن جاتی ہے تو وہ کس طرح ٹوٹ کر بکھر جاتی ہے، مگر پھر وہ ان کرچیوں کو اپنی ذات کے مقبرے میں دفن کرکے اپنے اوپر ایک فولادی خول چڑھا لیتی ہے۔ پھر اس خول کے اندر کوئی نہیں جھانک سکتا اور وہ زمانے کو اپنی اہمیت جتلا کر اپنے بچوں کے لیے اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ ایک چھتنار درخت کے روپ میں ابھرتی ہے۔ خود ساری حیات جلتی ہے، مگر اپنی اولاد کو اپنے سائے کی ٹھنڈک اور آسودگی فراہم کرتی رہتی ہے۔
مولوی عبدالحکیم شہ بخش، دارالعلوم زاہدان کے استاد اور "سنی آن لائن" ویب سائٹ کے…
دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ نے زاہدان میں دو دینی مدارس پر سکیورٹی اور فوجی دستوں…
سنیآنلاین| سیکورٹی فورسز نے آج پیر کی صبح (11 دسمبر 2023ء) زاہدان میں دو سنی…
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکہ کی طرف سے…
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے آج (8 دسمبر 2023ء) کو زاہدان میں نماز جمعہ کی…
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے ایک دسمبر 2023ء کو زاہدان میں نماز جمعہ کی تقریب…