- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

عہد رسالت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فقہی تربیت (بارہویں قسط)

دسویں صدی ہجری میں مذہب امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا تنقیدی جائزہ
دسویں صدی ہجری میں شیخ عبدالوہاب الشعرانی الشافعی رحمہ اللہ جیسے بالغ نظر محقق نے مذاہب اربعہ کا تنقیدی جائزہ لیا ہے، موصوف کو اس امر کا اعتراف ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب قرآن و سنت اور آثار کے مطابق ہے، چنانچہ امام موصوف رقم طراز ہیں:
’’و حاشا رضی اللہ عنہ من القول فی الدین اللہ بالرأی الذی لایشھدہ ظاہرُ کتاب و لا سنۃ۔۔۔ و قد تثبت بحمداللہ أحوالہ و أقوال أصحابہ لما ألفتُ کتابَ أدلۃِ المذاھب فلم أجد قولاً من أقوالہ و أقوالِ أصحابہ الا و ھو مستند الی آیۃ أو حدیث أو أثر أولیٰ مفھوم ذلک أو الی قیاس صحیح علی أصل صحیح۔‘‘ (۱)
’’اللہ تعالی نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو دین اسلام میں ایسی رائے سے جس کا ظاہر کتاب اللہ، سنت رسول اللہﷺ میں شاہد موجود نہ ہو‘ پیش کرنے سے بچایا ہے۔ اور اللہ تعالی کا شکر ہے بحمد اللہ میں نے جب ادلۃ المذاہب پر کتاب مرتب کی تو میں نے ان کے اور ان کے شاگردوں کے اقوال میں ہر قول کو دیکھا، تو اُنہیں ۱: آیت قرآنیہ، ۲: حدیث اور اثر، ۳: یا ان کے مفہوم، ۴: یا قیاس صحیح کی طرف جو اصل صحیح پر مبنی ہو‘ پایا ہے۔‘‘
اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ کسی امام فن کی دو، چار، چھ روایات پر کلام ہو یا اس سے دو، چار، دس غلطیاں ہوجائیں تو اس سے نہ اس کے علم پر حرف آتا ہے، نہ اس کی علمی شان میں کوئی فرق آتا ہے۔ اساطین علم اور ائمہ فن سے بھی دو، چار، دس جگہ غلطیاں ہوجاتی ہیں، اس سے ان کی علمی قدر و منزلت اور جلالت شان میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ بھول چوک بڑے بڑوں سے ہوتی ہے، چنانچہ حافظ شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ حسین المعلم رحمہ اللہ کے تذکرے میں رقمطراز ہیں:
’’لیس من شرط الثقۃ أن لا یغلط أبداً، فقد غلط شعبۃ و مالک و ناھیک بھماثقۃ و نبلا و حسین المعلم ممن و ثقہ یحیی بن معین و من تقدم مطلقاً و ھو من کبار أئمۃ الحدیث۔‘‘ (۲)
’’ثقہ کی شرط یہ نہیں ہے کہ وہ کبھی غلطی نہ کرے۔ شعبہ رحمہ اللہ سے غلطی ہوئی، مالک رحمہ اللہ سے بھول چوک ہوئی ہے، اور تمہارے لیے ان دونوں کی ثقاہت، شرافت و عظمت کے لیے یہی بات کافی ہے۔ حسین المعلم کی توثیق یحیی بن معین رحمہ اللہ نے کی ہے اور اس سے پہلے کے علماء نے اس کی مطلقاً توثیق کی ہے اور وہ کبار ائمہ حدیث میں سے ہیں۔‘‘
حافظ ذہبی رحمہ اللہ حافظ ابوداؤد الطیاسی رحمہ اللہ کی بھول چوک کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:
’’سلیمان بن داؤد أبوداؤد الطیالسی ثقۃ ماعلمت بہ بأساً و قد أخطأ فی أحادیث فکان ماذا۔‘‘ (۳)
’’سلیمان بن داؤد ابوداؤد الطیالسی ثقہ ہے، مجھے موصوف کے متعلق کسی خرابی کا علم نہیں، بلاشبہ کچھ حدیثوں میں ان سے بھول چوک ہوئی ہے، تو اس سے کیا ہوگیا، ایسا ہوتا رہتا ہے۔‘‘
شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ علی بن فضیل رحمہ اللہ کے تذکرے میں رقم طراز ہیں:
’’قلتُ: اذا کان مثل کبراء السابقین قد تکلم فیھم الروافض و الخوارج و مثل الفضیل یتکلم فیہ، فمن الذی یسلم من ألسنۃ الناس لکن اذا ثبت امامۃ رجل و فضلہ لم یضرہ مما قیل فیہ۔‘‘ (۴)
’’میں کہتا ہوں جب سابقین اولین (خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم) میں رافضیوں اور خارجیوں نے کلام کیا، اسی طرح فضیل بن عیاض رحمہ اللہ جو سنت کی اتباع کرتے تھے متقی تھے، ان کے بارے میں کلام کیا گیا ہے تو ان لوگوں کی زبانوں سے کون بچ سکتا ہے؟ لیکن ایسے عالم کا جس کی امامت و فضیلت اور ورع و تقویٰ ثابت ہو، قیل و قال اور جرح و قدح سے کچھ نہیں بگڑتا۔‘‘

جرح و قدح میں معیار
جرح و قدح میں معیار عدل و انصاف کی ترازو ہے، اس کے باٹ امامت و تقویٰ ہیں، انصاف کی ترازو میں تولو، اس ترازو میں جو پورا اترے لوگوں کی قیل و قال اور جرح و قدح سے ان کا کچھ نہیں بگڑتا ہے، اسی وجہ سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور دیگر ائمہ پر جرح و قدح پر علماء توجہ نہیں کرتے اور نہ ان سے اعتنا کرتے ہیں۔

کسی محدث کی حدیثوں کو نظرانداز کرنے کا معیار
کسی محدث کی حدیثوں کو نظر انداز کرنے کا معیار یہ ہے کہ وہم حدِ فاحش تک پہنچے، اس طرح درست اور صحیح حصہ بھی مغلوب ہوکر رہ جائے تو پھر وہ چھوڑنے کے لائق ہوجاتا ہے۔ چنانچہ ابوحاتم بستی رحمہ اللہ حافظ عبدالملک العرزمی رحمہ اللہ کے تذکرے میں رقم طراز ہیں:
’’عبدالملک بن ابی سلیمان عرزمی رحمہ اللہ اہل کوفہ میں بہترین محدثین اور حفاظ حدیث میں سے تھے، جس پر حفظ کا غلبہ ہوتا ہے او روہ اپنی یادداشت سے حدیث بیان کرتا ہے (تو اس کو کبھی بلااختیار) وہم لاحق ہوجاتا ہے، اور یہ انصاف کی بات نہیں کہ ایسے متقن شیخ کی حدیث کو جس کی عدالت صحیح ہو، اس سے روایات میں کچھ وہم واقع ہوجائے تو اس کی حدیث کو چھوڑ دیا جائے۔ اگر ہم اس روش پر چلنے لگے تو ہم پر لازم ہوجائے گا کہ ہم زہری، ابن جریح، ثوری اور شعبہ رحمہم اللہ کی حدیثوں سے دست بردار ہوجائیں۔ اس لیے کہ وہ اہل حفظ و اتقان تھے اور وہ اپنے حافظے کے بل بوتے پر حدیثیں بیان کرتے تھے، وہ معصوم نہ تھے کہ روایات میں ان سے وہم نہ ہوتا ہو، بلکہ ایسے صورت میں احتیاط اور بہتر یہ ہے کہ ایسے متقن کی روایات کو قبول کیا جائے، اور اس کی ان روایات کو چھوڑ دیا جائے، جن میں صحیح طریقے سے یہ ثابت ہوجائے کہ ان میں وہم ہوا ہے اور اس سے وہم حدِ فاحش تک نہ پہنچے کہ اس کا درست اور صحیح حصہ بھی مغلوب ہو کر رہ جائے، جب ایسا ہوجائے تو اس وقت وہ چھوڑنے کے لائق ہوجاتا ہے۔‘‘ (۵)
یہ معیار ہے جس پر کسی محدث کو اور اس کی روایات کو نظرانداز کیا جاتا ہے، چنانچہ محقق عبدالعزیز بخاری رحمہ اللہ رقم طراز ہیں:
’’ہر وہ عالم جسے کسی وجہ سے متہم کیا گیا اس کی روایت ساقط الاعتبار نہیں، جیسے عبداللہ بن لہیعہ رحمہ اللہ، حسن بن عمارہ رحمہ اللہ اور سفیان ثوری رحمہ اللہ و غیرہ، ان میں سے ہر ایک پر کسی نہ کسی وجہ سے طعن و حرف گیری کی گئی ہے، لیکن دین میں ان کے بلند مراتب اور علم و تقویٰ میں ان کے مرتبہ و مقام کی عظمت، ان کے حق میں ان کے طعن و تشنیع کو قبول کرنے اور ان کی حدیث کو رد کرنے سے مانع ہے۔ اس لیے کہ اگر ان جیسے بلند پایہ حفاظ و محدثین کی حدیث کو ہر ایک کی طعن و تشنیع سے در کیا گیا تو روایت کا راستہ بند ہوجائے گا اور سلسلۂ روایت ہی مٹ جائے گا، اس لیے کہ انبیاء علیہم السلام کے بعد شاذ و نادر کوئی ہو جس پر ادنیٰ سی جرح بھی نہ کی گئی ہو، اس لیے اس جیسے طعنوں کی طرف توجہ نہیں کی گئی اور اس کا بہت اچھا محمل نکالا گیا، اور اس قسم کے طعن سے ان کی حفاظت کرنا لازم ہے، جیسا کہ ذکر کیا گیا۔‘‘ (۶)
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی چند حدیثوں پر ابن عدی رحمہ اللہ اور دارقطنی رحمہ اللہ کو اعتراض ہے۔ اولاً: علماء نے ان کے جواب دیئے ہیں۔ ثانیاً: پانچ دس حدیثوں پر کلام ہر مجتہد اور امام فن کے یہاں موجود ہے۔ کوئی امام بھی معصوم نہیں۔ آخر امام اعظم رحمہ اللہ بشر تھے، نبی تو نہیں کہ ان سے خطا نہ ہو۔

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے روایت پرستوں کی مخالفت کے عناصر اربعہ
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے روایت پرست محدثین کی مخالفت کے مندرجہ ذیل چار عناصر ہیں:
۱: رائے و قیاس کا استعمال
۲: صحیح سند سے آئی ہوئی حدیثوں کا رد
۳: ارجاء کا قول
۴: ابوحنیفہ کی فطانت و ذہانت۔ (سبب حسد)

۱: رائے و قیاس کا استعمال
مذکورہ بالا عناصر اربعہ کا تحقیقی جائزہ حافظ مغرب علامہ ابن عبدالبر قرطبی رحمہ اللہ ۴۶۳ھ نے لیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ:
اصحاب الحدیث ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی برائی کرنے میں حدود سے باہر نکل گئے ہیں، ان کے یہاں اس کی وجہ یہ ہے کہ موصوف نے آثار میں رائے اور قیاس کو داخل کیا اور رائے و قیاس کا اعتبار کیا، حالانکہ بیشتر اہل علم کہتے ہیں کہ جب اثر و حدیث صحیح ثابت ہوجائے تو قیاس اور نظر باطل ہوجاتی ہے۔ ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا اثر وحدیث کو رد کرنا اس محتمل تاویل کی وجہ سے ہے جو اخبار آحاد میں پائی جاتی ہے، حالانکہ امام موصوف سے پہلے بہت سے اہل علم یہ کام سرانجام دے چکے ہیں اور ابوحنیفہ رحمہ اللہ انہی کی روش پر چلے ہیں جو ان کی طرح رائے کے قائل تھے۔ اسی قسم کی تمام تر باتیں جن کی نسبت ان کی طرف کی جاتی ہے، وہ موصوف کے اہل بلد (فقہاء) جیسے ابراہیم نخعی رحمہ اللہ اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عن کے تلامذہ کی پیروی کا ثمرہ ہیں، مگر بات اتنی ہے کہ موصوف اور ان کے شاگرد، نت نئے پیش آنے والے مسائل کو حل کرنے میں بہت زیادہ منہمک رہے ہیں اور ان مسائل میں انہوں نے قیاس و استحسان سے جواب دیا، اس لیے اس میں سلف کا اختلاف زیادہ ہوا اور یہ ان کے مخالفین کے نزدیک نئی اور بری بات تھی۔ اور اہل علم میں سے میرے علم میں کوئی ایسا نہیں جس سے:
۱: آیت میں تاویل منقول نہ ہو، یا
۲: سنت میں اس کا کوئی مذہب ہے تو اس مذہب کی وجہ سے اس نے دوسری سنت کو مناسب تاویل سے رد نہ کیا ہو، یا
۳: اس کے متعلق نسخ کا دعویٰ نہ کیا ہو، مگر بات یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے یہ بات دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ پائی گئی اور دوسروں میں یہ بات کم پائی گئی ہے۔

تفریعِ مسائل میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا نقطۂ نظر
پیش آنے والے مسئلوں کا حل پہلے نکالنا چاہیے، تا کہ وقت پر کسی طرح کی زحمت نہ ہو، چنانچہ ایک مرتبہ حضرت قتادہ رحمہ اللہ کوفہ آئے اور دار ابی بردہ میں ٹھہرے، ایک مجلس میں موصوف نے حلال و حرام کے مسئلے پوچھنے کی اجازت دی، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے پوچھا: ایک عورت کی شادی ہوئی، شوہر برسوں سے غائب ہے، اس نے سمجھا کہ وہ مرگیا ہے، دوسری شادی کی، پھر پہلا خاوند آگیا، آپ اس کے مہر کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟ قتادہ رحمہ اللہ نے پوچھا: کیا ایسا ہوا ہے؟ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ بولے: نہیں! فرمایا: فرضی مسائل کیوں پوچھتے ہو؟ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’انا نستعد للبلاء قبل نزولہ فاذا وقع عرفنا الدخول فیہ و الخروج منہ۔‘‘ (۷)
’’امتحان کے لیے ہمیں تیار رہنا چاہیے، تاکہ جب وہ آئے تو ہم اس میں پھنسنا اور اس سے نکلنا جانتے ہوں۔‘‘
اس ترقی یافتہ دور میں منصوبہ بندی زندگی کے ہر شعبے میں کامیابی کا راز ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ دوسری صدی ہجری کے نصف اول میں بھی اس پر عمل پیرا تھے۔

۲: امام مالک رحمہ اللہ کے یہاں صحیح احادیث کا رَد
اور یحیی بن سلام کا بیان ہے کہ میں نے عبداللہ بن غانم سے ابراہیم بن اغلب کی مجلس میں سنا، وہ لیث بن سعد سے نقل کرتے تھے کہ لیث کا بیان ہے کہ میں نے امام مالک بن انس رحمہ اللہ کے مسئال کو شمار کیا تو میں نے پورے ۷۰؍ستر مسئلوں میں انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف پایا، یہ وہ مسائل ہیں جن میں امام مالک رحمہ اللہ نے اپنی رائے سے فتویٰ دیا۔ لیث کا بیان ہے کہ میں نے اس سلسلے میں امام مالک رحمہ اللہ کا لکھا تھا، انہوں نے قبول نہیں کیا۔ (۸)
ہر مجتہد ثقہ راوی کی ہر روایت کو قبول نہیں کرتا۔ امام مالک رحمہ اللہ نے ستر روایتوں کو قبول نہیں کیا، جیسا کہ آپ کو امام لیث رحمہ اللہ کی تصریح سے معلوم ہوا۔

امام شافعی رحمہ اللہ کے یہاں صحیح حدیثوں کا رد
ہر مجتہد کے یہاں کچھ اصول ہوتے ہیں، ان اصول سے جب کوئی صحیح حدیث ٹکراتی ہے وہ اس حدیث کو رد کرتا ہے۔ یہ بات امام شافعی رحمہ اللہ کے یہاں بھی موجود ہے، چنانچہ فقیہ ابواسحاق الشیرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’معتبر و ثقہ راوی جب روایت کرے تو اس کی صحیح روایت کو پانچ باتوں کی وجہ سے رَد کیا جاتا ہے:
۱: ایک یہ کہ جن باتوں کو عقل ضروری قرار دیتی ہے، ان کی وہ مخالفت کرتی ہو۔ اس بات سے اس کا باطل ہونا معلوم ہوجاتا ہے، اس لیے کہ شریعت عقل و دانش کی باتوں کو درست قرار دینے کے لیے آئی ہے، خلاف عقل باتوں کے لیے نہیں آئی ہے۔
۲: دوسری یہ کہ وہ ثقہ کی روایت جو کتاب اللہ کے صریح حکم یا سنت متواترہ کے صریح خلاف ہو۔ اس بات سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کی کوئی اصل نہیں ہے یا وہ منسوخ ہے۔
۳: تیسری یہ کہ ثق کی وہ روایت اجماع کے مخالف ہو، یہ بات اس امر کی دلیل ہے کہ وہ روایت منسوخ ہے، اس کی کوئی اصل و بنیاد نہیں ہے، اس لیے کہ یہ درست نہیں کہ وہ صحیح ہو، منسوخ نہ ہو اور امت مسلمہ اس کے خلاف اجماع کر بیٹھے۔
۴: چوتھی بات یہ ہے کہ ثقہ راوی ایسی روایت میں منفرد ہو، جس کا جاننا سب پر ضروری ہے۔ یہ بات اس امر کی دلیل ہے کہ یہ ایک بے بنیاد بات ہے، اس لیے یہ کیسے درست ہوسکتا ہے کہ اس کی اصل و بنیاد ہو اور عظیم خلقت میں اس کا علم صرف اس کو ہی ہو اور کسی اور کو نہ ہو۔
۵: پانچویں بات یہ کہ ثقہ راوی ایسی روایت میں منفرد ہو جسے عادۃً اہل تواتر سب ہی نقل کرتے ہوں، تو وہ روایت قابل قبول نہیں ہوگی، اس لیے کہ یہ درست نہیں کہ اس طرح کی روایت میں یہ منفرد ہوگا۔ (۹)
ان حقائق کی روشنی میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر صحیح حدیث کے رد کرنے کا الزام دھرنا کیا انصاف کہا جاسکتا ہے؟ اور علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ علمائے امت میں کسی عالم کو میں ایسا نہیں پاتا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو ثابت کرتا ہو اور
۱: اس جیسی حدیث سے اس کے منسوخ ہونے کا دعویٰ کیے بغیر اسے رد کرتا ہو، یا ۲: اجماع کے خلاف ہونے کا، یا ۳: ایسے عمل کے مخالف ہونے کا جس کی پیروی لازم ہے یا ۴: اس کی سند میں طعن کا دعویٰ کیے بغیر حدیث کا رد کرتا ہو، اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اس کی عدالت ہی ساقط ہوجائے گی، چہ جائے کہ اس کو امام بنایا جائے۔ اس کے ساتھ اس پر فسق کا گناہ بھی آئے گا۔ (۱۰)

حواشی و حوالہ جات
۱: تاریخ بغداد، ج: ۱۳، ص: ۳۱۹۔
۲: المیزان الکبریٰ، مصر، المطبعۃ الحسینیہ، ۱۳۳۱ھ، ج: ۱، ص: ۶۴۔
۳: رسالۃ فی الرواۃ الثقاۃ المتکلم فیہم مما لایوجب ردہم، الرحیم اکیڈمی، ص: ۸۹۔
۴: سیر اعلام النبلاء، ج: ۸، ص: ۴۴۸۔
۵: کتاب الثقات، بیروت، دارالفکر، ۱۴۱۰ھ، ج: ۷، ص: ۹۷۔۹۸۔
۶: کشف الاسرار، آستانہ، زین العابدین آفندی، ج:۳، ص: ۷۳۔
۷: جامع بیان العلم، ج: ۲، ص: ۱۴۸۔
۸: کتاب اللمع فی اصول الفقہ، مصر، مصطفی البابی، ص: ۴۴۔
۹: جامع بیان العلم و فضلہ، ج:۲، ص: ۱۴۸۔
۱۰: تاریخ بغداد، ج: ۱۳، ص: ۳۴۸۔

جاری ہے

گیارہویں قسط [1]