- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

عہد رسالت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فقہی تربیت (دسویں قسط)

شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کا نظریہ
حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کا نظریہ یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے مذہب کے تابع و پیرو ہیں، چنانچہ موصوف لکھتے ہیں:
“کان أبوحنیفة رضی الله عنه ألزمهم بمذهب إبراهیم و أقرانه لایجاوزه إلا ماشاء الله” (1)
’’امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے ابراہیم نخعی رحمہ اللہ اور ان کے ہم عصروں کی پیروی کو اپنے اوپر لازم کر رکھا تھا، وہ اس سے تجاوز نہیں کرتے تھے مگر بہت کم۔‘‘
موصوف حجۃ اللہ البالغہ میں لکھتے ہیں:
“کان أبوحنیفة رضی الله عنه ألزمهم بمذهب إبراهیم و أقرانه لا یجاوزه الا ماشاء الله و کان عظیم الشان فی التخریج علی مذهبه و دقیق النظر فی وجوه التخریجات مقبلا علی الفروع أتم إقبال” (2)
’’امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ اور ان کے ہم عصر علماء کے مذہب کے پابند تھے اور ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے مذہب سے باہر نہیں جاتے الا ماشاء اللہ، وہ ان کے مذہب کے مطابق مسائل کی تخریج کرتے، بڑی شان رکھتے اور وجوہِ تخریجات کے معلوم کرنے میں دقیق النظر تھے۔‘‘
حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کا مذکورہ بالا بیان متعدد وجوہ و اسباب سے محل نظر ہے:
۱: امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے مشہور مجتہدین تابعین کو نام بنام گنا کر بتایا ہے کہ میں ان میں سے کسی مجتہد کے مسلک کی تقلید نہیں کرتا، ان میں پہلا نام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کا ہے، پھر ان کے مشہور ہم عصر مجتہدین کے نام ہیں۔
۲: خلاصیات کے ماہر ائمہ اصول فقہ اس امر پر متفق ہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ مجتہدین تابعین میں سے کسی امام کے مذہب کے مقلد و ترجمان اور ناشر نہیں، چنانچہ وہ ’’زاحمناھم‘‘۔۔۔ ’’ہم نہ ان کے اجماع کو تسلیم کرتے ہیں، نہ ان کے مسلک و نظریات کے پیرو کار ہیں‘‘۔۔۔ بلکہ ’’ھم رجال و نحن رجال‘‘۔۔۔ ’’وہ بھی مجتہد ہیں، ہم بھی مجتہد ہیں‘‘۔۔۔ کے قائل ہیں، ان کو اجتہاد کا حق ہے، ہم بھی اجتہاد کرتے ہیں، ہم ان کے اجتہاد کے پابند نہیں، یہ اور بات ہے کہ بعض مسائل میں ہمارا ان کا اتفاق ہوجائے۔
۳: انہی وجوہ سے اصولیین امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو مجتہدِ مطلق مانتے اور ان کے مذہب کے مقلد ہیں۔
۴: کوئی اصولی شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ کے مذکورہ نظریہ کا ہم نوا نہیں ہے۔
۵: محقق عصر علامہ محمد عبدالرشید نعمانی رحمہ اللہ نے ’’ماتمس الیہ الحاجۃ‘‘ میں شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے مذکورہ نظریہ کی تردید کی ہے۔ (۳)
یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کا یہ نظریہ بھی ان کے تفردات میں سے ہے۔
بعض اعتراض کرنے والوں کے اس اعتراض کا کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تابعی نہ تھے، جواب دیتے ہوئے شمس الائمہ رحمہ اللہ رقم طراز ہیں:
“عن إبی حنیفة أنه قال: إذا اجتمعت و الصحابة علی شئی سلمناه لهم و إذا اجتمع التابعون زاحمناهم… . أما أبوحنیفة فهو تابعی قد أدرک فیما یحکی أربعة من الصحابة… فجاز له مزاحمة التابعین، فإن أبا حنیفة قد کان من أهل الاجتهاد فی زمن التابعین، و کان یفقه الناس فیما قیل أربعین سنة و کثیر من التابعین کانوا موجودین بعد سنة عشرین و مائة، فلما لحق أیامهم، و هو من أهل الفتیا، جاز له مخالفتهم و القول ومعهم”(4)
’’حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا جب کسی بات پر اجماع ہوجاتا ہے تو ہم اُسے تسلیم کرتے ہیں اور اگر تابعین رحمہم اللہ کا کسی بات پر اجماع ہو تو ہم ان کے اجماع کو نہیں مانیں گے، ہم ان کی اس مزاحمت کریں گے۔۔۔ ابوحنیفہ رحمہ اللہ تابعی ہیں، موصوف نے جیسا کہ بیان کیا جاتا ہے چار صحابہ رضی اللہ عنہم کو دیکھا ہے۔۔۔ انہیں تابعین رحمہم اللہ سے مزاحمت کرنے کا حق ہے، اس لیے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ عہد تابعین میں اہل اجتہاد میں سے تھے۔ وہ چالیس برس تک طلبہ کو فقہ پڑھاتے رہے، جیسا کہ مشہور ہے اور ان کے زمانے میں ۱۲۰ھ کے بعد بھی تابعین کثیر تعداد میں موجود تھے، امام موصوف رحمہ اللہ اس زمانے میں ان کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں اور ابوحنیفہ رحمہ اللہ اربابِ فتویٰ میں سے تھے، موصوف کو ان کی مخالفت اور موافقت دونوں جائز و درست ہے۔‘‘
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی چالیس سالہ فقہی، تدریسی و تحقیقی خدمات نے فقہ ابوحنیفہ کو اسلامی قلمرو میں ایسا پھیلایا اور اس کا نفع ایسا عام و تام کیا تھا کہ شیخ الاسلام سفیان بن عینیہ رحمہ اللہ التوفی ۱۹۸ کا بیان ہے:
“شیئان ماظننت أنهما یجاوزان قنطرة الکوفة و قد بلغنا الآفاق”(5)
’’دو چیزیں ایسی ہیں جن کے متعلق میرا وہم و گمان نہ تھا کہ وہ کوفہ کا پل پار کریں گی، مگر وہ تو دنیا کے تمام اطراف میں پھیل گئی ہیں۔‘‘

قراء تِ حمز کسائی رحمہ اللہ اور فقہ ابوحنیفہ رحمہ اللہ
یہ دونوں اسلامی قلمرو کے چپے چپے میں پہنچی ہوئی ہیں۔ یحیی بن معین رحمہ اللہ فرماتے تھے:
“القراءة عندی قراءة حمزة و الفقه فقه أبی حنیفة، علی هذا أدرکتُ الناس”(6)
’’میرے نزدیک قراء ت‘ حمزہ کی قراء ت ہے، اور فقہ‘ امام ابوحنیفہ کی فقہ ہے، میں نے لوگوں کو اسی پر عمل کرتے پایا ہے۔‘‘
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا سنن و آثار اور فقہ کا علمی و تحقیقی سرمایہ دوسری صدی ہجری میں بر اعظم ایشیا اور افریقہ میں پہنچ گیا تھا، اسلامی قلمرو کے مرکز عراق، حجاز، خراسان، شام و مصر اور بربر میں یہ علمی ورثہ اپنی افادیت کی وجہ سے مجتہدین اور دانشوروں کے علمی سرمائے میں اپنی جگہ بنا چکا اور مرکزِ توجہ بن گیا تھا۔
عہد عباسی میں عراق، بغداد، کوفہ و بصرہ علم کے مشہور مرکز تھے، یہاں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی کتابیں ان کے شاگردوں اور ہم عصروں کے زیر مطالعہ تھیں، چنانچہ مجتہدین میں امام سفیان ثوری رحمہ اللہ (۹۷۔۱۶۱ھ) کے پاس امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی کتاب الرہن کا تذکرہ کتب تاریخ میں عام ہے۔(۷) دانشور و مؤرخ محمد بن عمر الواقدی رحمہ اللہ (۱۳۰۔۲۰۷ھ) کے عظیم کتب خانے (۸) میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی کتابیں موجود تھیں۔(۹) یہ ایسا عظیم کتب خانہ تھا جو بغداد میں ان کے نامور شاگرد محمد بن سعد رحمہ اللہ کے پاس بھی منقول و محفوظ تھا۔(۱۰) امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (۱۶۴۔۲۴۱ھ) ہر جمعہ کو اس کے کتب خانے سے دو جز منگا کر اس سرمائے کا مطالعہ اور اس سے استفادہ کرتے تھے۔ (۱۱)
کوفہ میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد اسد بن عمرو البحلی الکوفی المتوفی ۱۸۸ھ کے پاس امام موصوف کی کتابیں موجود و محفوظ تھیں۔ (۱۲)
حجاز میں مدینہ کو مرکزی حیثیت حاصل تھی، ائمہ مجتہدین میں امام مالک رحمہ اللہ کو نہایت ممتاز مقام حاصل تھا، ان کے مطالعے میں بھی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا علمی و تحقیقی ذخیرہ موجود تھا، چنانچہ علامہ عبدالعزیز بن محمد دراوردی رحمہ اللہ المتوفی ۱۸۶ھ نے امام مالک رحمہ اللہ کا بیان نقل کیا ہے:
“عندی من فقه أبی حنیفة ستون آلاف مسألة” (۱۳)
’’میرے پاس امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ساٹھ ہزار مسئلے موجود ہیں۔‘‘
امام مالک رحمہ اللہ‘ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی کتابیں مطالعہ کرتے اور ان سے فائدہ اٹھاتے تھے، چنانچہ امام شافعی رحمہ اللہ نے عبدالعزیز دراوردی رحمہ اللہ سے سنا، وہ فرماتے تھے:
“کان مالک بن أنس ینظر کتب أبی حنیفة و ینتفع بها”(14)
’’امام مالک بن انس رحمہ اللہ‘ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی کتابیں مطالعہ کرتے اور ان سے فائدہ اٹھاتے تھے۔‘‘
اور امام موصوف کی کتابیں مجتہدین کی رہنمائی کرتی تھیں، جیسا کہ علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ کے مندرجہ ذیل بیان سے عیاں ہے، وہ فرماتے ہیں کہ:
’’امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ان خصوصی مناقب میں سے جن میں وہ یکتا ہیں، ایک یہ ہے کہ وہی پہلے شخص ہیں جنہوں نے علم شریعت مدون کیا اور اس کے ابواب کو ترتیب دیا، پھر امام مالک بن انس رحمہ اللہ نے موطأ کی ترتیب میں انہی کی پیروی کی اور اس امر میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر کسی کو سبقت حاصل نہیں۔‘‘(۱۵)
خراسان: ترمذ اور بلخ میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد عبدالعزیز بن خالد الترمذی رحمہ اللہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی کتابوں کی روایت و اشاعت کرتے تھے۔ (۱۶)
بلخ میں قاضی بلخ ابومطیع حکم بن عبداللہ البلخی رحمہ اللہ (۱۱۳۔۱۹۷ھ) موجود تھے، یہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے ان کی کتاب ’’الفقہ الأکبر‘‘ کے راوی ہیں۔ (۱۷) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پاس بھی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی کتابیں موجود تھیں۔
مَرو میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد عبداللہ بن المبارک مروزی خراسانی رحمہ اللہ (۱۱۸۔۱۸۱ھ) کے پاس بھی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی کتابوں کا ذخیرہ موجود تھا، بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ تحقیقاتی ذخیرہ سفر و حضر میں بھی ساتھ رکھتے تھے، چنانچہ جب بیروت میں عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کی مجتہد مطلق ابو عمرو عبدالرحمن اوزاعی رحمہ اللہ (۸۸۔۱۵۷ھ) سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے ابن المبارک رحمہ اللہ سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے متعلق پوچھا تو موصوف نے انہیں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے فقہی مسائل دکھائے تو ان کی غلط فہمی دور ہوئی اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے علمی مقام کا اندازہ ہوا۔ (۱۸)
افریقہ، بلادِ بربر و مصر میں ابوسعید سابق بن عبداللہ المعروف بالبربری رحمہ اللہ، جو شاعر و زاہد اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد اور کتاب الآثار کے ان سے راوی ہیں موجود تھے، چنانچہ حافظ ابوالقاسم ابن عساکر رحمہ اللہ المتوفی ۵۳۱ھ نے تصریح کی ہے کہ ابوسعید سابق بربری رحمہ اللہ، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے کتاب الآثار کے راوی ہیں۔ (۱۹) مصر علوم اسلامی کا مرکز تھا، یہاں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا علمی ذخیرہ، امام مالک رحمہ اللہ، امام محمد رحمہ اللہ اور امام ابویوسف رحمہ اللہ کے شاگرد‘ اسد بن الفرات رحمہ اللہ(۱۴۲۔۲۱۳ھ) لے کر پہنچے تھے اور امام مالک رحمہ اللہ کے نامور فقیہ عبداللہ ابن وہب رحمہ اللہ المتوفی ۱۹۷ھ اور عبدالرحمن ابن القاسم رحمہ اللہ المتوفی ۱۹۱ھ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی کتابوں کے مسائل کے متعلق امام مالک رحمہ اللہ کی آرا ان سے معلوم کیں، چنانچہ فقیہ ابواسحاق شیرازی رحمہ اللہ المتوفی ۴۷۶ھ میں رقم طراز ہیں:
“هذه کتب أبی حنیفة، و سأل أن یجیب فیها علی مذهب مالک”(20)
’’اسد رحمہ اللہ نے کہا: یہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی کتابیں ہیں اور پوچھا آپ ان کا امام مالک رحمہ اللہ کے مسلک پر جواب دیں۔‘‘
دیارِ مغرب میں یہی کتابیں ’’کتب الاسدیہ‘‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے شاگرد اور ان کے مذہب کے راوی، امام طحاوی رحمہ اللہ کے ماموں امام ابوابراہیم اسماعیل مزنی رحمہ اللہ المتوفی ۲۹۴ھ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی کتابوں کا مطالعہ کرتے تھے، چنانچہ امام طحاوی رحمہ اللہ المتوفی ۳۲۱ھ کا بیان ہے:
“إنی کنت أری خالی یدیم النظر فی کتب أبی حنیفة فلذلک انتقلت إلیه”(21)
’’میں دیکھتا تھا کہ میرے ماموں ہمیشہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی کتابوں کا مطالعہ کرتے رہتے، چنانچہ میں نے شافعی مذہب چھوڑ کر حنفی مذہب اختیار کیا۔‘‘
ابن الندیم رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تدوین علم کی خوبی کا اعتراف ان الفاظ میں کیا ہے:
“العلم براً و بحراً شرقاً و غرباً بعداً و قرباً تدوینه –رضی الله عنه-“(22)
’’اللہ امام (ابوحنیفہ رحمہ اللہ) سے راضی ہو، اس تدوین نے خشکی و سمندر، مشرق و مغرب، دور و نزدیک ہر جگہ کو علم سے بھر دیا ہے‘‘۔

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا عظیم ترین کارنامہ
تابعین رحمہم اللہ کے دور میں علم شریعت کی تشکیل و تدوین کی سعادت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو حاصل ہے، چنانچہ قاضی ابوبکر عتیق بن داؤد یمانی رحمہ اللہ اپنے رسالے ’’فضل أبی حنیفۃ‘‘ میں رقم طراز ہیں:
’’امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے شریعت کے علم کو مدون و مرتب کیا اور کسی کو ان پر سبقت حاصل نہیں، اس لیے کہ صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم نے علم شریعت ابواب میں مدون نہیں کیا تھااور نہ کتابی صورت میں ترتیب دیا تھا، وہ صرف اپنی قوتِ فہم پر بھروسہ رکھتے تھے،انہوں نے اپنے دل و دماغ کو علم کا خزانہ بنایا ہوا تھا۔ ان اکابر تابعین رحمہم اللہ کے بعد جب ابوحنیفہ رحمہ اللہ نمایاں ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ علم شریعت منتشر ہے، انہیں خطرہ ہوا کہ بعد میں آنے والی نسلیں اس علم کو برباد کردیں گی، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالی لوگوں کے سینوں سے علم چھین نہیں لے گا، بلکہ وہ عالموں کو دنیا سے اٹھالے گا، پھر دنیا میں جاہل سردار رہ جائیں گے، جن کے پاس علم نہ ہوگا، وہ خود گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے، اس لیے ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے شریعت کا علم مدون و مرتب کیا اور اس کی ابواب میں ترتیب کی، کتاب میں عنوان اور ابواب قائم کیے، چنانچہ کتاب الطہارت سے ابتدا کی، پھر کتاب الصلاۃ کا عنوان قائم کیا، پھر عبادات کے تمام ابواب ترتیب وار مقرر کیے، پھر معاملات کے ابواب قائم کیے اور میراث کے ابواب پر شریعت کو ختم کیا۔ آغاز طہارت سے کیا، پھر صلاۃ کا عنوان لگایا، اس لیے کہ ہر مکلف انسان کو صحت اعتقاد کے بعد نماز پڑھنے کا حکم ہے، یہ خاص اور اہم عبادات میں سے ہے، ہر مکلف پر فرض ہے۔ آخر معاملات ہیں، کیونکہ اصل یہی ہے کہ یہ معاملات نہ ہوں اور انسان ان سے بری الذمہ ہو، کتاب کا خاتمہ وصایا اور مواریث پر کیا، اس لیے کہ ان کا تعلق اس کے آخری حالات سے ہے، کیسی اچھی ابتدا اور کیسا اچھا خاتمہ ہے۔ جو ائمہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بعد آئے انہوں نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے علم سے فائدہ اٹھایا، ان کی پیروی کی اور ان کتابوں پر اپنی کتابوں کی تفریع کی، انہی سانچوں میں اپنی کتابوں کو ڈھالا۔ اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے، اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اس کی تدوین کی ہے، تو بعید ہے کہ اللہ تعالی ضمانت لے اور اس کا پہلا مدون غلطی کرے۔‘‘ (۲۳)

اجتہادی مسائل میں ائمہ فقہا کی کشادہ دلی
مجتہدین میں جس طرح اجتہادی مسائل کے استنباط و استخراج میں اختلاف نظر رہا، یہ اختلاف ان کے شاگردوں میں بھی نمایاں رہا جو اجتہادی مسائل میں ان کی کشادہ دلی، برداشت اور رواداری کی نہایت روشن دلیل ہے، چنانچہ مسجد حرام مکہ معظمہ میں ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ حضرت اعمش رحمہ اللہ (۶۱۔۱۴۸ھ) امام مالک رحمہ اللہ (۹۳۔۱۷۹ھ) اور حضرت عثمان بنتی رحمہ اللہ (۱۴۳ھ) تشریف فرما تھے، کسی نے ان سے ایک مسئلہ پوچھا، مسئلہ ایک اور ہر امام کا جواب مختلف، مسئلہ پوچھنے والے سے نہ رہا گیا، اس نے ان سے پوچھا کہ وجۂ اختلاف آخر ہے کیا؟ مؤرخ خطیب بغدادی رحمہ اللہ اس واقعے کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’حضرت اعمش رحمہ اللہ کوفہ سے، حضرت مالک بن انس رحمہ اللہ مدینہ سے اور حضرت عثمان بنتی بصرہ سے، حج کے لیے نکلے اور مسجد حرام میں بیٹھ کر فتوے دیئے، وہ فتوے ایک دوسرے کے خلاف ہوئے تو ایک شخص نے حضرت اعمش رحمہ اللہ سے عرض کی: آپ اہل مدینہ کے خلاف فتویٰ دیتے ہیں؟ حضرت اعمش نے جواب میں کہا: ہم میں اور اہل مدینہ میں اختلاف آج کا نہیں، پرانا ہے، چنانچہ ہم اپنے علما کے قول کو پسند کرتے ہیں اور وہ اپنے علما کے قول کے دلدادہ ہیں (ہر ایک اپنے اسلاف کے اقوال و آراء پر عمل کرتا ہے، سب دین پر عمل کرتے ہیں)۔‘‘ (۲۴)

اسلامی دنیا کے چار مقبول و عظیم الشان فقہی مذاہب
مذاہب اربعہ جنہیں اسلامی دنیا میں شہر حاصل ہے، ان میں: ۱: عظیم ترین مذہب حنفی مذہب ہے، ۲: پھر عظیم تر مذہب شافعی مذہب، ۳: اس کے بعد مالکی مذہب اور ۴: پھر حنبلی مذہب ہے۔
مؤخر الذکر مذاہب ثلاثہ بھی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے تلامذہ اور فقیہانِ کوفہ کے مرہونِ منت ہیں، خاص طور پر امام محمد رحمہ اللہ کے تربیت یافتہ شاگردوں کا فیض و ثمرہ ہیں۔ علامہ شمس الدین الذہبی رحمہ اللہ فقیہانِ کوفہ کے سلسلے میں لکھتے ہیں کہ:
’’اہل کوفہ میں سب سے بڑھ کر فقیہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں اور ان دونوں مجتہدین کے شاگردوں میں سب سے بڑھ کر فقیہ، علقمہ رحمہ اللہ اور علقمہ رحمہ اللہ کے شاگردوں میں سب سے بڑھ کر فقیہ ابراہیم رحمہ اللہ تھے، اور ابراہیم رحمہ اللہ کے شاگردوں میں سب سے بڑھ کر فقیہ حماد رحمہ اللہ تھے، اور حماد رحمہ اللہ کے شاگردوں میں سب سے بڑھ کر فقیہ ابوحنیفہ رحمہ اللہ تھے اور ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے شاگردوں میں سب سے بڑھ کر فقیہ ابویوسف رحمہ اللہ تھے، ان کے شاگرد سارے جہاں میں پھیل گئے اور ان کے شاگردوں میں سب سے بڑھ کر فقیہ محمد رحمہ اللہ تھے اور محمد رحمہ اللہ کے شاگردوں میں سب سے بڑھ کر فقیہ ابوعبداللہ الشافعی رحمہ اللہ تھے۔‘‘ (۲۵)

—————————–
حواشی و حوالہ جات

۱: الانصاف فی بیان سبب الاختلاف، لاہور، ۱۹۷۱ء، ص: ۱۸۔
۲: حجۃ اللہ البالغۃ، کراچی، قدیمی کتب خانہ، ج:۲، ص: ۴۱۹۔
۳: ماتمس الیہ الحاجۃ لمن یطالع سنن ابن ماجۃ، ص: ۷۴۔
۴: اصول الجصاص، ج: ۲، ص: ۱۲۰۔
۵: تاریخ بغداد، ج:۱۳، ص: ۳۴۷۔
۶: ایضا۔
۷: تاریخ بغداد، ج: ۱۳، ص: ۳۴۲، الجواہر المضیۃ فی طبقات الحنفیہ، حیدرآباد دکن، مطلبعۃ دائرۃ المعارف النظامیہ، ۱۳۳۲ھ، ج: ۱، ص: ۲۵۰۔
۸: تاریخ بغداد، ج:۳، ص: ۶۔۵، اسلامی کتب خانے عہد عباسی میں، تالیف راقم السطور، لاہور، الفیصل ناشران و تاجران کتب، ۲۰۰۰ھ، ص: ۴۴۳۔
۹: الجواہر المضیۃ، ج:۱، ص: ۱۸۱۔
۱۰: تاریخ بغداد، ج:۵، ص: ۳۲۲۔
۱۱: ایضا۔
۱۲: الجواہر المضیۃ، ج:۱، ص: ۱۴۰۔
۱۳: اقوام المسالک فی بحث روایۃ مالک و روایۃ ابی حنیفۃ عن مالک، تالیف محمد زاہد الکوثری، ۱۴۰۸ھ، ص: ۹۷۔
۱۴: اقوام المسالک، ص: ۹۹۔
۱۵: تبییض الصحیفہ، حیدرآباد رکن، مطبعۃ دائرۃ المعارف، ۱۳۳۴ھ، ص: ۳۶۔
۱۶: مناقب الامام الاعظم، صدر الائمہ موفق بن احمد المکی، کوئٹہ، مکتبہ اسلامیہ، ۱۴۰۷ھ، ج: ۱، ص: ۶۸۔
۱۷: الجواہر المضیۃ، ج:۲، ص: ۲۶۵۔۲۶۶، میزان الاعتدال، ج:۱، ص: ۵۷۴، ابومطیع بلخی کے متعلق یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ سے ان کی تعدیل منقول ہے، چنانچہ سید الحفاظ یحیی بن معین رحمہ اللہ نے اپنے شاگرد احمد بن محمد بغدادی رحمہ اللہ سے فرمایا تھا: ’’فما ظنک بمن عدلہ ابن المبارک و وکیع۔‘‘ (مناقب امام الاعظم للکردری، ج:۱، ص: ۹۱)۔ ’’تمہارا کیا خیال ہے جس کی توثیق و تعدیل عبداللہ بن المبارک اور وکیع نے کی ہو۔‘‘
۱۸: تاریخ بغداد، ج: ۱۳، ص: ۳۳۸۔
۱۹: تاریخ ابن عساکر، ترجمہ سابق بن عبداللہ معروف بالبربری۔
۲۰: طبقات الفقہاء، بغداد، المکتبہ العربیہ، ۱۳۵۶ھ، ص: ۱۳۲۔
۲۱: وفیات الاعیان لابن خلکان، بیروت، دارصادر، ج:۱، ص: ۷۱۔
۲۲: الفہرست، ابن ندیم، کراچی، نورمحمد اصح المطابع، ۱۹۹۰ء، ص: ۲۰۶۔
۲۳: مناقب الامام الاعظم لصدر الائمہ، ج:۲، ص: ۱۳۶۔۱۳۷۔
۲۴: تاریخ بغداد، ج: ۸، ص: ۱۶۶۔ (ترجمہ جمعہ بن یونس، رقم: ۴۲۷۱)
۲۵: سیر اعلام النبلاء، ج:۵، ص: ۲۳۶۔

(جاری ہے۔۔۔)

نویں قسط [1]

تحریر: مولانا ڈاکٹر محمدعبدالحلیم چشتی
اشاعت: ماہنامہ بینات۔جمادی الاولی ۱۴۳۶ھ