- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

عہد رسالت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فقہی تربیت (چھٹی قسط)

’’عہد رسالت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فقہی تربیت اور اس کے نتائج و ثمرات‘‘ کی سرگزشت آپ کی نظر سے گزری، جو خیرالقرون کی دو اہم کڑیوں عہد رسالت اور عہد صحابہ پر محیط تھی۔
اس سلسلے کی تیسری اہم کڑی عہد تابعین (۱) پر مشتمل ہے۔ یہ گوناگون پہلو رکھتی ہے، اس میں بحث کی زیادہ گنجائش ہے۔ بعض جامعات میں اس کے بعض پہلوؤں پر تحقیقی کام ہوا بھی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس طرح عہد صحابہ میں پانچ صحابہ رضی اللہ عنہم نے احکام پر کام کیا، دور صحابہ میں کسی اور صحابی سے اس میں شرکت منقول نہیں، اسی طرح عہد تابعین میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پہلے تابعی ہیں جن سے شریعت کے تمام ابواب کی تشکیل و تدوین کتابی صورت میں ظہور پذیر ہوئی۔ یہ کام قدرت کی طرف سے انہی کے لیے مقدر تھا، وہی احکام شریعت کا سب سے زیادہ علم رکھتے تھے۔ چنانچہ نقد حدیث و رجال کے اپنے وقت کے مشہور عالم یحیی بن سعید القطان (۱۲۰۔۱۹۸ھ) امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے متعلق فرماتے تھے:
’’انّہ و اللہ أعلم ھذہ الأمۃ بما جاء عن اللہ و رسولہ۔‘‘ (۲)
’’واللہ! امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اس امت میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کے سب سے بڑے عالم تھے۔‘‘
چنانچہ فقہی خدمت کی یہ سعادت دوسرے قرون میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے شاگردوں کے حصہ میں آئی، مفتی مشرق محدث و فقیہ خلف بن ایوب بلخی رحمہ اللہ (۱۳۹۔۲۰۵ھ) فرماتے تھے:
’’صار علم من اللہ تعالی الی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ثم صار الی أصحابہ ثم صار الی التابعین، ثم صار الی أبی حنفیۃ و أصحابہ فمن شاء فلیرض و من شاء فلیسخط۔‘‘ (۳)
’’اللہ تعالی کی طرف سے علم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچا، پھر وہ علم رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں آیا، پھر صحابہ رضی اللہ عنہم سے تابعین رحمہم اللہ میں پھیلا، پھر تابعین رحمہم اللہ میں یہ علم امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے شاگردوں میں آیا، سو جو چاہے اس (حقیقت) پر خوش ہو اور جو چاہے اس پر ناراض ہو۔‘‘
اس تاریخی حقیقت کو علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے ان الفاظ میں نقل کیا ہے:
’’من مناقب أبی حنیفۃ التی انفرد بھا أنّہ أوّل من دوّن علم الشریعۃ و رتّبہ أبواباً ثم تبعہ مالک بن أنس فی ترتیب الموطأ و لم یسبق أبا حنیفۃ أحد۔‘‘ (۴)
’’امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ان خصوصی مناقب میں سے جن میں وہ یکتا و منفرد ہیں، ایک یہ ہے کہ وہی پہلے شخص ہیں جنہوں نے علم شریعت کو مدون کیا اور اس کی ابواب پر تربیت کی، پھر امام مالک رحمہ اللہ نے مؤطأ کی ترتیب میں ان کی پیروی کی اور اس امر میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر کسی کو سبقت حاصل نہیں۔‘‘
ان وجوہ سے اس دوسری قسط میں فقہائے تابعین کی مجتہدانہ سرگرمیوں کی مختصر نشاندہی کے بعد عہد تابعین میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے فن حدیث، فقہ، رجال میں علمی خدمات و مقام اور اسلامی قلمرو میں ان کے علمی و تحقیقی ورثے کے ثمرات و نتائج کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

تابعین رحمہم اللہ کی مجلس میں فقہی مسائل میں مذاکرہ
اس سنت متواترہ و متوارثہ پر تابعین رحمہم اللہ کے دور میں عمل جاری رہا، چنانچہ مؤرخ اسلام علامہ شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ المتوفی ۷۴۸ھ نے تاریخ الاسلام میں نامور محدث فضیل (۵) بن غزوان ضبی کوفی المتوفی بعد ۱۴۰ھ کا بیان نقل کیا ہے، وہ فرماتے ہیں:
’’کنا نجلس أنا و مغیرۃ (۶) و عدد ناسا نتذاکر الفقہ فربما لم نقم حتی نسمع النداء لصلاۃ الفجر۔‘‘ (۷)
’’ہماری رات میں بیٹھک رہتی تھی اور مغیرہ بن مقسم ضبی المتوفی ۱۳۳ھ اور چند اہل علم کا نام اور لیا، سب فقہی مسائل میں مذاکرہ کرتے اور بسا اوقات اس مجلس سے کوئی اٹھتا نہیں تھا، تا آنکہ فجر کی اذان سنتے اور نماز فجر کے لیے اٹھتے تھے۔‘‘

رائے (فقہی بصیرت) اور مطالب و معانی حدیث میں ربط و تلازم
وہ مجتہدین و فقہائے امت جنہوں نے اس سنت متواترہ و متوارثہ کی آبیارہ کی اور اُسے زندہ رکھا، انہی پر طعن و تشنیع کی جاتی ہے۔ تذکرہ و رجال کی کتابوں میں انہیں ’’أصحاب الرأی‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ سنت کو چھوڑ کر رائے پر عمل کرتے ہیں، حالانکہ یہی مجتہدین و فقہا سنت و آثار کے معانی و مطالب کو بہتر سمجھتے، اور وہ ان کی نسبت ان پر عمل بھی زیادہ کرتے ہیں، ان مجتہدین و فقہا کے معانی و مطالب حدیث کو بہ غور سمجھنے کا اعتراف امام بخاری رحمہ اللہ کے نامور شاگرد امام ترمذی رحمہ اللہ کو ہے، وہ فرماتے ہیں: ’’و ھم (الفقھاء) أعلم بمعانی الحدیث۔‘‘۔۔۔ ’’وہ فقہا معانیِ حدیث کو بہتر طور پر جانتے سمجھتے ہیں۔‘‘ اور سنت پر عمل کے زیادہ دلدادہ ہیں، اس لیے کہ فقہی بصیرت اور معانی حدیث کی تقسیم میں گہرا ربط و تلازم ہے۔ ان کا بنیادی اصول یہ ہے:
’’لایستقیم العمل بالحدیث الا بالرأی، و لایستقیم العمل بالرأی الّا بالحدیث۔‘‘
’’رائے (فقہی بصیرت) کے بغیر حدیث پر عمل درست نہیں ہوتا، اور حدیث کے بغیر فقہی بصیرت درست نہیں ہوتی، اس اصول کی طرف امام محمد رحمہ اللہ نے کتاب ادب القاضی میں رہنمائی کی ہے۔‘‘
اس اصول کی روشنی میں اربابِ اصول فقہ اور فقہا یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ ائمہ احناف کا سنت پر عمل دوسرے ائمہ مجتہدین کی نسبت سے زیادہ ہے، چنانچہ شمس الائمہ سرخسی ’’اصول السرخسی‘‘ میں رقم طراز ہیں:
ترجمہ: ’’امام محمد رحمہ اللہ نے ادب القاضی میں تصریح کی ہے کہ حدیث پر عمل فقہی بصیرت کے بغیر درست نہیں ہوتا، اور حدیث کے بغیر فقہی بصیرت درست نہیں۔ حقیقت میں ہمارے اصحاب (متقدمین ائمہ حنفیہ) نے سنت پر عمل کو مضبوطی سے پکڑا ہوا ہے، چنانچہ حدیث شریف کی تعظیم و تکریم جیسی ان سے ظاہر ہوتی ہے اور اصحاب الحدیث سے ظاہر نہیں ہوتی، اس امر کی دلیل یہ ہے کہ ۱:۔۔۔ انہوں نے (اصحاب الرائے نے) سنت کو اتنا قوی درجہ دیا ہے کہ اس سے کتاب اللہ کا نسخ جائز سمجھا ہے۔ ۲: ۔۔۔ مرسل روایتوں پر عمل درست قرار دیا۔۳:۔۔۔ مجہول راوی کی روایت کو قیاس پر مقدم کیا ہے۔ ۴: ۔۔۔ صحابی کے قول کو قیاس پر فوقیت دی، اس لیے کہ صحابی کے قول میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے کا احتمال برابر برقرار ہے، جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے۔ ان تمام باتوں کے بعد بھی ۵:۔۔۔ انہوں نے (یعنی فریق مخالف امام شافعی رحمہ اللہ نے) قیاس صحیح پر عمل کیا اور یہ وہ بات ہے جس کا اثر اپنی قوت کے ساتھ نمایاں ہے (اس کے برعکس حدیث پر عمل کرنے والوں کا حال یہ ہے کہ وہ مرسل روایتوں پر عمل جائز قرار نہیں دیتے، چنانچہ انہوں نے حدیث و سنت کے بڑے ذخیرے پر عمل چھوڑ رکھا ہے اور اُسے ناقابل عمل قرار دے رکھا ہے۔ انہوں نے خیرالقرون کے مجہول راوی کی روایت کو قبول نہیں کیا، اس طرح بعض سنتوں پر عمل معطل کیا۔ امام موصوف نے جب صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی صحابی کی تقلید کو روا نہیں رکھا تو انہوں نے سماع کے شبہ سے صرف نظر کی اور قیاس کے شبہ پر عمل کو جائز رکھا۔ حالانکہ یہ ان باتوں میں سے ہے کہ کسی حال میں وجوب کی نسبت اس کی طرف کرنا جائز نہیں، اس کا حال اس شخص کے حال کی طرح ہے جو قیاس پر عمل کو قطعاً جائز قرار نہیں دیتا، پھر امام موصوف ’’استصحابِ حال‘‘ (۸)، پر عمل کرتے ہیں۔ موصوف کا استصحابِ حال کو اختیار کرنا دلیل کے بغیر احتیاط پر عمل کرنا ہے اور ترک عمل دلیل سے ہوتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ ہمارے اصحاب احکام شرع کے اصول و فروع میں پیشوا و رہنما ہیں اور ان کے فتوے سے لوگوں کے لیے شریعت کا راستہ کھلا ہے، تا ہم یہ بات پیش نظر رہے کہ یہ ایک گہرا سمندر ہے، ہر تیراک اس سمندر میں تیر نہیں پاتا اور نہ ہر طالب اس کی شرائط کو پورا کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ ہی بخشنے والا ہے۔‘‘ (۹)
امام فخرالاسلام بزدوی رحمہ اللہ ’’کنز الوصول‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:
ترجمہ: ’’ہمارے اصحاب وہ ہیں جنہیں اس باب (فقہ حدیث) میں بلند رتبہ اور اعلی مرتبہ حاصل ہے اور وہی علمائے ربانی کتاب و سنت کے علم میں لائق اقتدا ہیں اور وہی ’’اصحاب الحدیث‘‘ ہیں جو حدیث کے معانی سمجھتے ہیں۔ حدیث کے معانی کا فہم و ادراک انہی علما کا حق تسلیم کیا گیا ہے، چنانچہ ان کو ’’أصحاب الرأی‘‘ کے نام سے یاد کیا گیا اور وہ رائے اس فقہ کا نام ہے جس کا تذکرہ ہم نے اوپر کیا ہے اور یہ معانی حدیث کے سمجھنے والے ہی اصحاب الحدیث کہلانے کے زیادہ لائق ہیں۔ کیا تمہیں نظر نہیں آتا کہ ان کے یہاں سنت کا مرتبہ اتنا قوی ہے کہ انہوں نے سنت سے کتاب اللہ کا نسخ جائز قرار دیا اور انہوں نے سنت و حدیث سے استدلال کرتے ہوئے ’’مراسیل‘‘ پر عمل کیا اور مرسل حدیث پر عمل کرنا رائے سے بہتر سمجھا۔ اور جس نے مراسیل کو نظر انداز کیا، اس نے سنت کے بہت بڑے حصے کو چھوڑ دیا اور اصل کو چھوڑ کر فرع پر عمل کیا، اس نے حدیث کو جو اصل ہے چھوڑ کر قیاس پر عمل کیا، جو فرع کی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے مجہول راوی کی روایت کو قیاس پر مقدم کیا۔ انہوں نے صحابی کے قول کو قیاس پر فوقیت دی۔ امام محمد رحمہ اللہ نے ’’کتاب ادب القاضی‘‘ میں تصریح کی ہے کہ: ’’لایستقیم الحدیث الا بالرأی و لا یستقیم الرأی الا بالحدیث‘‘ ۔۔۔
’’حدیث کا مطلب و منشا رائے و فقہی بصیرت کے بغیر صحیح طور پر سمجھا نہیں جاتا اور رائے و قیاس‘ حدیث کے بغیر صحیح نہیں ہوتا۔‘‘ حتیٰ کہ جو حدیث کو اچھی طرح سمجھ نہیں پاتا اور علم حدیث میں مہارت حاصل نہیں کر پاتا، اس کی رائے و قیاس درست نہیں، وہ قضا اور فتوے کی صلاحیت نہیں رکھتا، اگر چہ اس نے اپنی کتابوں کو حدیث سے بھرا ہوا ہو، اور جو معانی حدیث میں بحث و نظر کیے بغیر ظاہر حدیث پر مطمئن ہوگیا اور اس نے فروع کو اصول کے تحت تربیت دینے سے منہ موڑ، اُسے ظاہری کہا جاتا ہے۔‘‘ (۱۰)
یہی وجہ ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کسی ایسے عالم کو منصب افتا و قضا کا اہل نہیں سمجھتے جو فقہ و حدیث میں بصیرت نہ رکھتا ہو، چنانچہ امام طحاوی رحمہ اللہ المتوفی ۳۲۱ھ مختصر الطحاوی میں رقم طراز ہیں:
’’ اور ایسے عالم کو قاضی بنانا مناسب ہے جس کی ۱: پاک دامنی، ۲: صلاح، ۳: فہم و فراست قابل اعتماد ہو، ۴: سنت و آثار کا علم رکھتا ہو، ۵: (جس کی) وجوہِ فقہ کی معرفت قابل اعتماد ہو۔ ایسے صاحب رائے عالم کو قاضی نہ بنائیں جسے سنت و احادیث کا علم نہ ہو اور نہ ایسے حدیث داں کو جسے فقہ کا علم اور فقہ میں بصیرت نہ ہو، اور جو عالم مذکورۂ بالا صفات سے آراستہ ہو وہ فتویٰ نہ دے اور فتویٰ دے تو صرف ایسی بات کا جسے اس نے (تحقیق سے) سنا ہو۔‘‘ (۱۱)
امام محمد رحمہ اللہ نے جس بات کی طرف ’’کتاب ادب القاضی‘‘ میں اشارہ و تنبیہ کی ہے کہ رائے کے بغیر حدیث کے معانی نہیں سمجھے جاسکتے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نصوصِ شرعیہ معقولۃ المعانی ہیں، ان کا ادراک فہم سلیم اور عقل و دانش سے کیا جاسکتا ہے، لیکن یہ کام وہی ارباب صدق و صفا سرانجام سے سکتے ہیں جنہیں اللہ تعالی نے مزاج شریعت سے مناسبت اور فقہی بصیرت کی نعمت سے سرفراز کیا ہے۔ نصوصِ شرعیہ معقولۃ المعانی ہیں، مگر ان کا ادراک و فہم آسان نہیں، یہ ہر عالم کے بس کا کام نہیں، چنانچہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’میں نے اپنی بساط کے مطابق شرعی دلائل پر غور و فکر کیا تو میں نے قیاس صحیح کو حدیث صحیح کے مخالف نہیں پایا، جیسا کہ معقول صحیح منقول صحیح کے مخالف نہیں ہوتا، بلکہ میں نے قیاس کو اکثر مخالف حدیث و اثر پایا تو لازماً میں نے ان میں سے ایک کو ضعیف پایا، لیکن قیاس صحیح اور قیاسِ فاسد میں بہت سے فاضل علما امتیاز کرنے سے قاصر ہیں، اور علما کا تو ذکر ہی کیا ہے، اس لیے کہ احکام میں علت موثرہ کا صحیح ادراک اور ان معانی کا فہم جن کا تعلق احکام سے ہے اشرف علوم سے ہے۔ ان میں سے کچھ تو بہت روشن و نمایاں ہوتے ہیں جو بیشتر اہل علم سمجھتے ہیں، اور بعض دقیق ہوتے ہیں جن کو خاص علما سمجھتے ہیں، اس لیے بہت سے علما کے قیاس نصوص کے مخالف ہوتے ہیں، اس لیے کہ قیاسِ صحیح کی حقیقت ان پر منکشف نہیں ہوتی، جس طرح بہت سے اہل علم پر نصوص میں جو دقیق دلائل‘ احکام پر دلالت کرتے ہیں، مخفی رہتے ہیں۔‘‘ (۱۲)
اس سے ثابت ہوا کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی فقہ حدیث پر نظر اور صحیح کا ادراک و بصیرت ان کے تلامذہ کی نظر میں مسلم تھی۔

صحیح حدیث کی شناخت
اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ محض سلسلۂ اسناد سے حدیث کی صحت معلوم نہیں ہوتی، حاکم نیشاپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ان الصحیح لایعرف بروایۃ فقط انما یعرف بالفھم و الحفظ و کثرۃ السماع۔‘‘ (۱۳)
’’صحیح حدیث محض اپنے سلسلۂ سند سے نہیں پہچانی جاتی، اس کی صحت تین باتوں سے معلوم ہوتی ہے: ۱: فہم و فراست، ۲: حفظ، ۳: کثرت سماع۔‘‘
امام ابوحنفیہ رحمہ اللہ مذکورۂ بالا تینوں صفات سے بدرجہ اتم بہرہ ور ہیں، اس امر کا صحیح اندازہ امام موصوف کی تحصیل و طلب علم سے کیا جاسکتا ہے جو مختصراً ہدیۂ ناظرین ہے۔

امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تحصیل حدیث کا زمانہ
علامہ شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ المتوفی ۷۴۸ھ نے تصریح کی ہے کہ موصوف نے حدیث کی تحصیل ۱۰۰ھ اور اس کے بعد کے سالوں میں کی ہے، وہ لکھتے ہیں:
’’أنّ الامام أباحنیفۃ طلب الحدیث و أکثر منہ فی سنۃ ماءۃ و بعدھا۔‘‘ (۱۴)
’’بلاشبہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے ۱۰۰ ھ اور اس کے بعد کے سالوں میں حدیث کی تحصیل کی اور بہت زیادہ کی ہے۔‘‘
مؤرخ ذہبی رحمہ اللہ کے مذکورۂ بالا بیان سے امام اعظم رحمہ اللہ کی ۱: طلب حدیث، ۲: حدیث کی کثرت طلب، اور ۳: طلب حدیث کے زمانے کی تعیین سے ایک محقق کے لیے بہت سے علمی گوشے کھل جاتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواشی و حوالہ جات
۱: یہاں یہ امر ملحوظ خاطر رہے کہ تابعین کرام رحمہم اللہ کا عہد ۱۸۰ھ۔۷۹۶ء میں ختم ہوا ہے۔ چنانچہ علامہ حافظ سراج الدین معروف بابن الملقن رحمہ اللہ المتوفی ۸۰۴ھ ’’المقنع فی علوم الحدیث، ۲؍۵۱۵‘‘ مکہ، دارالفوز للنشر، ۱۴۱۳ھ میں اور صاحب تدریب الراوی، طبع: مکہ ۱۳۷۹ھ، ص: ۴۳۳، میں رقمطرز ہیں کہ: ’’أول التابعین وفاۃً أبوزید معضد بن زید سنۃ ثلاثین فی خلافۃ عثمان و آخرھم خلف بن خلیفۃ، مات بعد ثمانین و ماءۃ‘‘۔ ۔۔۔ ’’تابعین میں سے پہلے وفات پانے والے ابوشید معضد بن زید رحمہ اللہ تھے، موصوف خلافت عثمانی ۳۰ھ میں شہید ہوئے تھے۔ اور تابعین میں سب سے آخر میں انتقال کرنے والے خلف بن خلیفہ رحمہ اللہ تھے، موصوف کا انتقال ۱۸۰ھ میں ہوا تھا۔‘‘
۲: مقدمۃ کتاب التعلیم، تالیف مسعود بن شیبہ السندی، حیدر آباد السند، لجنۃ احیاء الادب السندی، ۱۹۶۵ء ص: ۱۳۴۔
۳: تاریخ بغداد، ج ۱۳، ص: ۳۳۶۔
۴: تبییض الصحیفۃ، طبع دائرۃ المعارف النظامیہ، ۱۳۳۴ھ ، ص: ۳۶۔
۵: فضیل بن غزوان الضبی الکوفی (بعد ۱۴۰ھ) کا تذکرہ ذہبی رحمہ اللہ نے ’’الامام المحدث الثقۃ‘‘ کے الفاظ سے کیا ہے۔ یہ صحاح ستہ کے رواۃ میں سے ہیں، حضرت عکرمہ مولیٰ ابن عباس اور سالم بن عبداللہ و غیرہ سے روایت کرتے ہیں۔ محمد بن فضیل، عبداللہ بن المبارک اور یحییٰ القطان و غیرہ موصوف سے روایت کرتے ہیں۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ و غیرہ نے موصوف کو ثقۃ قرار دیا۔ یہ ایسے بلند پایہ فقہا میں سے ہیں جن کی راتیں فقہی مسائل کی بحث میں گزرتی تھیں۔ امام موصوف کا تذکرہ علامہ شیرازی رحمہ اللہ سے طبقات الفقہاء میں اور ابن حزم اندلسی رحمہ اللہ سے غیر معمولی جستجو کے باوجود نام رہ گیا، بلکہ اور بھی ایسے کتنے فقہاء و مجتہد ہوں گے جن کا تذکرہ و نام ان سے رہ گیا ہوگا۔ (سیر اعلام النبلاء، ج: ۶، ص: ۲۰۳، تہذیب الکمال، بیروت، دارالمامون للتراث، ج: ۲، ص: ۵۔۱۱)
۶: مغیرۃ بن مقسم الضبی مولاھم الأعمیٰ الکوفی صحاح ستہ کے رواۃ میں سے ہیں۔ مورخ ذہبی رحمہ اللہ نے موصوف کا تذکرہ ان الفاظ سے کیا ہے: ’’الامام، العلامہ الثقۃ الضبی الکوفی الأعمی‘‘۔ صغار تابعین میں موصوف کا شمار ہوتا ہے، عکرمہ، ابراہیم نخعی اور شعبی کے شاگرد ہیں۔ تابعین میں سلیمان تیمی رحمہ اللہ نے موصوف سے روایت کی ہے۔ شعبہ رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ یہ حکم اور حماد دونوں سے بڑے حافظ تھے اور ابوبکر بن عباس کہتے ہیں: ’’ما رأیت أفقہ منہ‘‘۔۔۔ ’’میں نے موصوف سے بڑا فقیہ نہیں دیکھا، چنانچہ میں ان سے چمٹارہا۔‘‘ (سیر اعلام النبلاء: ۶/۱۱) جریر بن عبدالحمید رحمہ اللہ نے موصوف کے حفظ کے متعلق خود مغیرہ کا قول نقل کیا کہ: ’’ما وقع فی سماعی شئی فنسیتہ‘‘ میرے کانوں میں کوئی چیز پڑی ہو، پھر میں اس کو بھولوں ایسا نہیں ہوا۔ اس پر علامہ الذہبی رحمہ اللہ المتوفی ۷۴۸ھ لکھتے ہیں: ’’ھذا واللہ الحفظ، لا حفظ من درس کتاباً مرات عدۃ، حتی عرضہ، ثم علیہ، ثم درسہ فحفظہ، ثم نسیہ أو أکثرہ۔‘‘ (سیر اعلام النبلاء: ۶/۱۱) ۔۔۔ ’’واللہ حفظ یہ ہے، اس کا حفظ نہیں جس نے کتاب کئی بار پڑھائی، یہاں تک کہ اسے طلبہ میں پیش کیا، انہیں پڑھائی، سنائی، پھر اس پر توجہ کی اور محفوظ کرلی، پھر اسے پڑھایا تو یاد کیا، پھر اسے بھول گئے یا اس کا اکثر حصہ ذہن سے جاتا رہا۔‘‘ حافظ عجلی رحمہ اللہ المتوفی ۲۶۱ھ فرماتے ہیں: ’’مغیرۃ ثقۃ فقیہ کان من فقھاء أصحاب ابراھیم، و کان أعمی۔‘‘ (تاریخ الثقات، ص: ۴۳۷، و سیر اعلام النبلاء، ج:۶، ص: ۱۲) ۔۔۔ ’’مغیرہ، ثقہ اور فقیہ تھے، ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے شاگردوں میں سے تھے اور اندھے تھے۔‘‘ ابن سعد رحمہ اللہ کا بیان ہے: ’’کان ثقۃ کثیر الحدیث۔‘‘ (الطبقات الکبریٰ، ج: ۶، ص: ۳۳۷) ’’مغیرہ ثقہ اور ان کے پاس حدیث کا ذخیرہ بہت تھا۔‘‘ امام کا قول ۱۳۳ھ اور ابن معلیٰ فرماتے ہیں: ۱۳۴ھ میں انتقال ہوا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلی صدی ہجری کے آخر سے دوسری صدی ہجری کی تیسری دہائی تک فقہا کا جن میں اندھے بھی ہوتے راتوں میں فقہی مسائل پر بحث کا معمول تھا۔ مذکورہ بالا بیان سے معلوم ہوا کہ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے شاگرد اس سنت متواترہ پر گامزی رہے، پھر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے شاگردوں نے اس طریقہ کو اپنایا اور یہ طریقہ امام ابوبکر الجصاص رحمہ اللہ المتوفی ۳۷۰ھ کے زمانے تک اس پر عمل جاری تھا۔ (احکام القرآن للجصاص، ج: ۲، ص: ۵۹۰)
۷: تاریخ الاسلام (حوادث و وفیات ۱۳۱۔۱۴۰ھ) ص: ۵۴۲۔
۸: استصحاب حال یہ ارباب اصول کی اصطلاح ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ حکم ثابت کرنے والا اس چیز کو باقی رکھنے والا نہیں ہے، اس لیے کہ ایک چیز کی ایجاد اور ہے اور اس چیز کو باقی رکھنا اور بات ہے، اس لیے ضروری نہیں کہ جس دلیل نے اس کو زمانۂ ماضی میں وجود بخشا ہے وہ دلیل اس کو زمانۂ حال میں باقی رکھنے والی ہو، اس لیے کہ بقا عرض ہے جو وجود کے بعد لاحق ہوتی ہے، عرض اس چیز کی عین اور ذات نہیں ہے، لہذا وجود سے بقا کی نفی کرنا درست ہے، چنانچہ یہ کہنا درست ہے کہ ایک چیز وجود پذیر ہوئی اور باقی نہیں رہی، لہذا اب بقا کے لیے ایک جداگانہ سبب در کار ہے، تو تنہا استصحاب کے حکم سے بقا کا حکم کرنا بغیر دلیل کے حکم لگانا ہے، اور یہ بات درست نہیں، اس کے لیے جداگانہ سبب درکار ہے، تو تنہا استصحاب کے حکم سے بقا کا حکم کرنا بغیر دلیل کے حکم لگانا ہے، اور یہ بات درست نہیں، اس کے لیے جداگانہ دلیل کی حاجت ہے اور وہ موجود نہیں۔ (کشاف اصطلاحات الفنون، لاہور، سہیل اکیڈیمی ۱۹۹۲ء، ج: ۱، ص: ۸۰۹)
۹: اصول السرخسی، مصر، دارالکتاب العربی، ۱۳۷۲ھ، ج۲، ص: ۱۱۳ (ولہ) المحرر فی اصول الفقہ، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۹۹۶ء، ۲/۸۷۔
۱۰: کنز الوصول الی معرفۃ الاصول، کراچی، اصح المطابع، ۱۳۸۶ھ، ص: ۴۔۵۔
۱۱: احمد بن محمد الطحاوی، مختصر الطحاوی، القاہرہ، دارالکتاب العربی، ۱۳۷۰ھ، ص: ۳۳۲۔
۱۲: ابن قیم جوزیہ، اعلام الموقعین عن رب العالمین، بیروت، دارالجیل ب ت، ج: ۲، ص: ۴۷۔
۱۳: معرفۃ علوم الحدیث، ص: ۵۹۔ (التاسع عشر من علوم الحدیث)۔
۱۴: سیر اعلام النبلاء، ج: ۶، ص: ۳۹۶۔

 

جاری ہے۔۔۔

پانچویں قسط [1]

بقلم مولانا ڈاکٹر محمد عبدالحلیم چشتی
ماہنامہ بینات، محرم الحرام ۱۴۳۶ھ