- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

عہد رسالت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فقہی تربیت (تیسری قسط)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی رائے کی بجائے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی رائے سے اتفاق


“إن الأمر لما ضاق علی المسلمین في حرب الأحزاب، وکان فی الکفار قوم من أهل مکة عوناً لهم رئیسهم عیینة بن حصن الفزاری، أبوسفیان بن حرب، بعث رسول الله صلی الله علیه وسلم إلی عیینة و قال: ارجع أنت و قومک و لک ثلث: ثمار المدینة، فأبی إلا أن یعطیه نصفها فاستشار فی ذلک الأنصار و فیهم سعد بن عبادة رئیسا الأوس و الخزرج، فقالا: هذا شئ أمرک الله به أم شئ رأیته من نفسک؟ قال: لا، بل رأیی رأیته من عند نفسی، فقالا: یا رسول الله! لم ینالوا من ثمار المدینة إلا بشراء أو بقری فإذا أعزنا الله بالإسلام لا نعطیهم الدنیئة، فلیس بیننا و بینهم إلا السیف، و فرح بذلک رسول الله صلی الله علیه وسلم ثم قال للذین جاؤوا بالصلح: إذهبوا فلا نعطیهم إلا السیف” (1)
’’غزوۂ احزاب میں مسلمانوں پر جب جنگ کا معاملہ پریشان کن ہوگیا اور کفار (کے لشکر) میں مکہ کے لوگوں کی ایک جماعت ان کی معاونت کررہی تھی، ان کے سردار عینیہ بن حصن اور ابوسفیان بن حرب تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عینیہ کے پاس (ایک قاصد) بھیجا اور فرمایا: تو اور تیری قوم (کفار کی نصرت و مدد چھوڑ کر) مکہ لوٹ جائے تو تمہارے لیے مدینہ کے پھلوں کا تیسرا حصہ ہوگا تو اس نے صاف انکار کردیا، مگر یہ کہ آپ ہمیں آدھے پھل دیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملے میں انصار سے مشورہ کیا اور ان میں قبیلہ اوس و خزرج کے سردار حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ اور سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ بھی تھے تو ان دونوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اس بات کا حکم اللہ تعالی نے دیا ہے یا یہ آپ کی ذاتی رائے ہے؟ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، بلکہ یہ میری اپنی رائے ہے۔ تو انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ان مکہ والوں کو خرید و فروخت اور مہمانداری کے علاوہ مدینہ کے پھل نہیں ملے، پھر جب اللہ تعالی نے ہمیں اسلام کے بدولت عزت عطا فرمائی ہے تو ہم ان کو گئی گزری چیز بھی نہیں دیں گے، ہمارے اور ان کے درمیان میں (فیصلہ کن چیز) صرف تلوار ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ان کی) اس بات سے مسرور ہوئے، پھر ان کی طرف سے صلح کے لیے آئے ہوئے لوگوں سے کہا: جاؤ! ب تو ہم ان کا تلوار ہی سے فیصلہ کریں گے۔‘‘

رائے کے استعمال پر اظہار مسرت
ایک حدیث میں ہے:
“عن رجال من أصحاب معاذ: أن رسول الله صلی الله علیه وسلم لما بعثه إلی الیمن، قال: کیف تقضی؟ قال: بکتاب الله عزوجل، قال: فإن لم تجد فی کتاب الله؟ فقال: بسنة رسول الله، قال: فإن لم یکن فی سنة رسول الله؟ قال: أجتهد برأیی، فقال: الحمدلله الذی وَفَّقَ رسول الله لِما یُحبّه رسول الله، فأجاز له الاجتهاد فیما لا نصّ فیه. و من جهة أخری أنّ هذا الخبر قد تلقّاه الناس بالقبول و استفاض، و اشتهر عندهم من غیر نکیر من أحد منهم علی رواته، و لا ردّ له و أیضاً: فإن أکثر أحواله أن یصیر مرسلا، و المرسل عندنا مقبول ” (2)
’’حضرت معاذ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جب یمن کی طرف (قاضی بناکر) بھیجا تو پوچھا: (جب تمہارے سامنے کوئی مسئلہ آئے گا) کیسے فیصلے کروگے؟ عرض کیا: کتاب اللہ کے موافق۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: اگر کتاب اللہ میں نہ پاؤ؟ عرض کیا: رسول اللہ ﷺ کے سنت کے موافق۔ سرکار دوعالم نے پھر پوچھا: اگر سنت رسول اللہ میں نہ ملے؟ عرض کیا: اپنی رائے و اجتہاد سے فیصلہ کروں گا۔ تو سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہین جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول و سفیر کو ایسی چیز کی توفیق عنایت فرمائی جس کو اللہ کا رسول ﷺ پسند کرتا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو غیر منصوص مسائل میں اجتہاد کی اجازت عطا کی تھی، اس حدیث کو عوام و خواص میں قبول عام حاصل ہے اور اہل علم کے یہاں اس حدیث کو بغیر کسی انکار و رد کے شہرت حاصل ہے۔ نیز (یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ) بیشتر راویوں نے اس حدیث کو مرسل روایت کیا ہے اور مرسل ہمارے (حنفیہ کے) یہاں مقبول اور قابل حجت ہے۔‘‘
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے ارشاد ’’أجتھد برأیی‘‘ کی تشریح صحیح البخاری و سنن ابی داؤد کے اولین شارح امام ابوسلیمان الخطابی رحمہ اللہ المتوفی ۳۸۸ھ نے ان الفاظ میں کی ہے:
“قال الخطابی: أجتهد برأیی یرید الإجتهاد فی رَد القضیة من طریق القیاس إلی معنی الکتاب و السنة و لم یرد الرأی الذی ینسخ له من قبل نفسه أو یخطر بباله من غیر أصل من کتاب أو سنة و فی هذا إثبات القیاس و إیجاب الحکم به” (۳)
یعنی ’’أجتھد برأیی‘‘ سے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی مراد وہ اجتہاد ہے جس میں قیاس کے ذریعہ غیرمنصوص مسئلے کے حکم کو قرآن و سنت کے معنی و منشأ کی طرف لوٹایا جائے، نہ کہ اس رائے کی طرف جو محض نفسانی خواہش کی بنا پر ظاہر ہو، یا وہ رائے جو قرآن و سنت کی اصل کے بغیر یوں ہی دل میں کھٹکنے لگے۔ یہ حدیث قیاس کے ثبوت کی دلیل ہے، نیز اس امر کی دلیل ہے کہ قیاس جو حکم ثابت کرتا ہے اس پر عمل کرنا ضروری اور واجب ہے۔‘‘
فقہاء محدثین میں حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ المتوفی ۷۷۴ھ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا حدیث کے مأخذ و سند کے متعلق فرماتے ہیں:
’’ھذا الحدیث فی المسند و السنن باسناد جید‘‘۔ (۴)
یعنی ’’یہ حدیث مسند احمد اور سنن کی کتابوں میں عمدہ سند کے ساتھ آئی ہے۔‘‘

فقہی بصیرت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی آراستگی
اکثر و بیشتر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس صفت سے آراستہ تھے اور اس صفت کے اصل مصداق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں، چنانچہ شیخ الاسلام ابواسحاق شیرازی شافعی رحمہ اللہ المتوفی ۴۷۶ھ ’’طبقات الفقھاء‘‘ میں رقم طراز ہیں، جس کا ترجمہ یہ ہے:
’’اس حقیقت کو سمجھو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اکثر و بیشتر صحابی جنہوں نے ان کی صحبت اٹھائی اور ان سے وابستہ رہے، وہ سب فقیہ ہیں اور بلاشبہ یہ فقہ (شریعت کو سمجھنے سمجھانے) کا طریقہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے حق میں آیا ہے۔ انہوں نے اللہ تعالی کے خطاب (اوامر و نواہی) اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطاب سے جو کچھ سمجھا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال و اعمال اور تقریرات (معرض بیان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سکوت کرنے اور نکیر نہ کرنے) کو جانا اور سمجھا کہ وہ اللہ تعالی کا خطاب ہے۔ وہی قرآن کریم ہے جو انہی کی زبان میں ہے۔ ان اسباب کی وجہ سے جنہیں یہ جانتے اور ان واقعات کے تحت جو ان کے سامنے پیش آئے تھے یہ ان سے واقف تھے‘ اتارا گیا۔ انہوں نے نوشتۂ وحی کو سمجھا، اس کے منشأ و مطلب کے سمجھنے کی کوشش کی اور اس کے صریح اور غیرصریح احکام کو سمجھا۔ ابوعبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ المتوفی ۲۲۴ھ نے ’’کتاب المجاز‘‘ میں کہا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی صحابی سے منقول نہیں کہ اس نے قرآن کی کسی صریح و صاف بات کو سمجھنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رجوع کیا ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطاب ان سے انہی کی زبان میں ہوتا تھا، وہ اس کے معافی و مطالب کو جانتے، اس کی مبہم بات کو سمجھتے تھے، اس کے مقصد کو سمجھنے کی کوشش کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ افعال جن کا تعلق عبادات ، معاملات، عادات و اطوار اور سیاسیات سے ہے، ان سب کا انہوں نے مشاہدہ کیا، دیکھا ، اور سمجھا تھا۔ اور جو باتیں ان کے سامنے بار بار آتی تھیں ان کی گہراہی تک پہنچتے تھے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق فرمایا تھا:
’’أصحابی کالنجوم بأیھم اقتدیتم اھتدیتم‘‘
(میرے صحابہ ستاروں کی طرح رہنما ہیں، تم جس کی پیروی کروگے رہنمائی پاؤگے) اس لیے جو کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان اقوال میں جو صحابہ رضی اللہ عنہم نے نقل کیے ہیں، غور و فکر کرے گا اور ان اعمال میں جن کا تعلق عبادات و غیرہ سے ہے نقل کرے گا، وہ ان کے علم و دانش، فہم و فراست اور فضل و کمال کی طرف اپنے آپ کو مجبور و محتاج پائے گا، یہ اور بات ہے کہ ان اکثر و بیشتر صحابہ رضی اللہ عنہم میں وہ وہ صحابہ رضی اللہ عنہم جنہیں فتوی دینے، حلال و حرام سے بحث کرنے (اور مشکل مسئلوں کا حل نکالنے) میں شہرت حاصل تھی، وہ ایک مخصوص جماعت تھی۔‘‘ (۵)

عہد رسالت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعداد
عہد رسالت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کل تعداد ایک لاکھ چودہ ہزار تھی۔ (۶) ان میں اکثر و بیشتر فقیہ تھے، لیکن ہر ایک صحابہ مجتہد نہ تھا اور نہ وہ اپنے آپ کو فتوی دینے کا اہل سمجھتا اور نہ اسلامی معاشرے میں اس کو اس اہم ذمہ داری کا اہل سمجھا جاتا تھا۔

مجتہدین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم
اوپر تصریح گزر گئی ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی مذکورہ بالا تعداد میں وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جن سے بکثرت فتوی منقول ہیں، ایسے کل سات مجتہد صحابی ہیں۔ اور جن سے کم فتوے منقول ہیں، وہ تیرہ مجتہد صحابی ہیں۔ اور جن سے کم تر صرف ایک دو فتوے منقول ہیں، وہ ایک سو بیس ہیں۔ اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کل تعداد میں صرف سات ہی سربرآوردہ مجتہدین کو شمار کیا جائے تو اس کا مطلب یہ نکلے گا کہ سولہ ہزاردو سو پچاسی صحابی رضی اللہ عنہم کی عظیم جماعت میں صرف ہمیں ایک ہی عظیم ترین مجتہد نظر آتا ہے۔
اور اگر ان تیرہ صحابہ کرام کو جن کے فتوے کم منقول ہیں، ان سات عظیم ترین مجتہد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ جن سے بکثرت فتوے منقول ہیں‘ ملائیں تو ان عظیم ترین اور عظیم تر سب کی تعداد بیس ہوجاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پانچ ہزار سات سو کی جماعت میں ہمیں ایک مجتہد ملتا ہے۔

مجتہدین صحابہ رضی اللہ عنہم کے تین طبقات
علامہ ابن حزم رحمہ اللہ المتوفی ۴۵۶ھ نے عہد صحابہ میں مجتہدین صحابہ رضی اللہ عنہم کے تین طبقات بیان کیے ہیں، وہ فرماتے ہیں:
’’لم ترووا الفتیا فی العبادات و الأحکام الا عن ماءۃ و نیف و ثلاثین منھم فقط من رجل و امرأۃ بعد التقصی الشدیدۃ‘‘ (۷)
’’عبادات اور ایسے مسائل میں جن میں شریعت کا حکم درکار ہوتا ہے، فتوے دینے والے صحابی اور صحابیہ کا بہت چھان بین کے بعد پتہ لگ سکا ہے۔ ان کی تعداد ایک سو تیس سے کچھ اوپر ہے۔‘‘
ان مجتہدین صحابہ رضی اللہ عنہم کے تین طبقات ہیں:
۱: پہلا طبقہ مکثرینِ صحابہ رضی اللہ عنہم کا ہے۔ یہ وہ ارباب فتویٰ صحابی ہیں جن کے فتووں کی سنن و آثار کی کتابوں میں اتنی کثرت اور بہتات ہے کہ انہیں یکجا کیا جائے تو ایک بڑی موٹی جلد تیار ہوجائے۔
۲: دوسرا طبقہ متوسطین صحابہ رضی اللہ عنہم کا ہے۔ یہ ان ارباب فتویٰ صحابہ رضی اللہ عنہم کا طبقہ ہے جن کے فتووں کی کتب و آثار و سنن میں اتنی کثرت نہیں کہ موٹی سی ایک کتاب بن جائے، لیکن اتنی تعداد ضرور منقول ہے کہ ان سے ایک رسالہ ترتیب پا جائے۔
۳: تیسرا طبقہ مقلین کا ہے۔ یہ ان ارباب فتویٰ صحابہ رضی اللہ عنہم کا طبقہ ہے جن سے اتنے فتوے بھی حدیث کی کتابوں میں منقول نہیں کہ ایک چھوٹا موٹا رسالہ ہی بنایا جاسکے، بس ایک دو فتوے ہی منقول ہیں، وہ ایک جز (ایک یا دو ہی ورق) میں آجائیں گے۔ چنانچہ علامہ ابن حزم اندلسی رحمہ اللہ المتوفی ۴۵۶ھ لکھتے ہیں کہ:
مکثرین (کثرت سے فتوے دینے والے) سات ارباب فتویٰ صحابی یہ ہیں:
۱: ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، ۲: حضرت عمر بن الخطاب، ۳: حضرت عبداللہ بن عمر، ۳: حضرت علی بن ابی طالب، ۵: حضرت عبداللہ بن عباس، ۶: حضرت عبداللہ بن مسعود، ۷: حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہم ہیں۔
اور یہ سات صحابہ رضی اللہ عنہم ہیں، ان میں سے ہر ایک کے فتووں کو جمع کیا جائے تو وہ ایک موٹی کتاب بن جائے۔ ابوبکر محمد بن موسی بن یعقوب بن امیرالمومنین مامون نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے فتووں کو جمع کیا تو وہ بیس کتابوں میں یکجا ہوئے تھے۔ ابوبکر محمد رحمہ اللہ جس کا ذکر اوپر آیا ہے، یہ علم فقہ و حدیث میں ائمہ اسلام میں سے ایک تھے۔
متوسطین میں وہ ارباب فتویٰ صحابی ہیں جن سے زیادہ فتوے منقول نہیں، ان میں:
ام المومنین حضرت ام سلمہ، حضرت انس بن مالک، حضرت ابوسعید خدری، حضرت ابوہریرہ، حضرت عثمان بن عفان، حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص، حضرت عبداللہ بن زبیر، ابوموسی اشعری، معاذ بن جبل، حضرت ابوبکر صدیق، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت سلمان فارسی، جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم شامل ہیں، یہ تیرہ ۔۱۳۔ صحابی ہیں۔
ان میں سے ہر ایک کے فتوے اگر جمع کیے جائیں تو ایک چھوٹا رسالہ بن جائے گا۔ انہی میں :
حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت عمران بن حصین، حضرت ابوبکر، حضرت عبادہ بن صامت، حضرت معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہم کے ناموں کو اور بڑھایا جائے اور تیرہ میں سات کا اور اضافہ کیا جائے تو متوسطین کی تعداد بیس تک پہنچ جائے گی، اس صورت میں مکثرین اور متوسطین کی مجموعی تعداد ستائیس ہوجائے گی۔
باقی سب مقلین وہ صحابی ہیں جن میں ہر ایک سے ایک دو فتوے ہی منقول ہیں اور وہ بہت مختصر ہیں، ورق دو ورق سے زیادہ نہیں ہیں، ان سے ہر ایک کے فتووں کا بہت مختصر جزء بنے گا۔ (۸) مکثرین، متوسطین صحابہ رضی اللہ عنہم کی مجموعی تعداد کے پیش نظر علامہ ابن الہمام رحمہ اللہ المتوفی ۸۶۱ھ نے شرح فتح القدیر میں لکھا ہے:
’’لا تبلغ عدۃ المجتھدین الفقھاء منھم أکثر من عشرین‘‘۔ (۹)
’’صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں مجتہدین صحابہ کی تعداد بیس سے زیادہ نہیں پہنچتی ہے۔‘‘
ان ارباب فتویٰ صحابہ کی مجموعی تعداد ایک سو سترہ سے کچھ اوپر ہے۔ ان میں ایک سو بیالیس ۔۱۴۲۔ صحابی اور بیس ۔۲۰۔ صحابیہ ہیں، جن کی مجموعی تعداد ایک سو باسٹھ ہی ہوتی ہے۔ (۱۰)
لیکن ڈاکٹر احسان عباس، ڈاکٹر ناصر الاسد کی تحقیق اور شیخ احمد محمد شاکر کی مراجعت کے ساتھ ابن حزم رحمہ اللہ کا تیسرا رسالہ ’’أصحاب الفتیا من الصحابۃ و من بعدھم علی مراتبھم فی کثرۃ الفتیا‘‘ میں ارباب فتویٰ صحابہ و صحابیات کی مجموعی تعداد ۱۴۹ مذکور ہے، ہم نے اس نقص کو علامہ ابن حزم رحمہ اللہ کی ’’الأحکام صفحہ:۹۳‘‘ سے مقابلہ کیا تو مجموعی تعداد تو درست نکلی، لیکن صحابیات کی تعداد بیس نہیں بائیس ہے۔
اس لحاظ سے صحابہ رضی اللہ عنہم اور صحابیات رضی اللہ عنہن کی مجموعی تعداد ایک سو چونسٹھ ۔۱۶۴۔ ہوجاتی ہے۔
یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ مسلم معاشرے میں جب کبھی اور جہاں کہیں نت نئے مسائل پیش آئے، اکثر و بیشتر انہی سات اکابر مجتہدین صحابہ رضی اللہ عنہم میں کسی نہ کسی کے پاس جاکر مسئلہ کا حکم، اس کا حل اور جواب پوچھا جاتا تھا اور جس سے معلوم کیا جاتا وہ اپنی مجتہدانہ بصیرت سے کبھی فوراً جواب دے کر سائل کو عمل کا راستہ بتاتا تھا، جیسا کہ کسی نے میراث کا ایک نہایت پیچیدہ مسئلہ دوران خطبہ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا، اور آپ نے اسی وقت اس کا حل بتایا، وہ جواب آج بھی مسئلہ منبر یہ کے نام سے مشہور ہے۔ کبھی سائل سے کہا جاتا کہ بعد میں اس کا جواب دیا جائے گا، چنانچہ غور و فکر میں کبھی ایک مہینہ گزرجاتا تھا، چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے مہر اور میراث مفوضہ کے مسئلے کا جواب ایک مہینے کے بعد دیا تھا۔ (۱۱) اور جب انہیں معلوم ہوا کہ اس مسئلہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی جواب دیا تھا تو ایسی خوشی ہوئی تھی کہ زندگی میں عظیم کارنامے انجام دینے پر انہیں اتنی خوشی و مسرت نہیں ہوئی ہوگی، جتنی اس مسئلہ کے حل اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب کے ساتھ مطابقت و موافقت سے ہوئی تھی۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا مجتہدین صحابہ رضی اللہ عنہم کی فطرت میں کیسا عظیم اجتہادی ملکہ ودیعت کیا گیا تھا۔ اور بارگارہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضری، صحبت و خدمت نے صحابہ رضی اللہ عنہم میں ایسا جلا و نور بخشا تھا کہ مشکل سے مشکل مسئلے کو حل کرنا اور اس پر عمل کرنا اُن کے لیے آسان تھا۔ ان اکابر مجتہدین صحابہ رضی اللہ عنہم کی مجتہدانہ صلاحیت اور فقیہانہ بصیرت، مزاجِ شریعت سے مناسبت اور اس میں رسوخ و پختگی نے انہیں مرجع خلائق بنایا تھا، مسائل کے حل میں سب کی نگاہیں انہیں کی طرف اٹھتی تھیں اور انہی کے بتائے ہوئے مسئلوں پر عمل کیا جاتا تھا۔
مذکورہ بالا مجتہدین صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ہر مجتہد نے جن مسائل کو حل کیا، یہ انفرادی اجتہادی مسائل کا ذخیرہ ہر مجتہد کے انداز فکر و نظر کا شاہد، اس کی اجتہادی آرا و نظریات کا جامع اور اس کی اصابت رائے کا شاہکار ہے۔
مذکورہ بالا مجتہدین صحابہ رضی اللہ عنہم کے اجتہادی کام کی ابتدا عہد رسالت میں مدینہ منورہ سے ہوئی، جیسا کہ گزرچکا، پھر جیسے جیسے اسلامی قلمرو کی فتوحات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا، ان کی اجتہادی سرگرمیوں کا دائرہ بھی اسلامی مملکت کے مرکزی شہروں میں وسعت اختیار کرتا گیا، ان کی تعلیمی و تربیتی مساعی سے ان کے طلبہ اور شاگردوں میں اجتہادی سلیقہ پروان چڑھتا گیا، چنانچہ ان کی وفات کے بعد ان کے شاگردوں نے اس بنیادی فریضے کو اسلامی قلمرو کے وسیع تر علاقے کے مرکزی شہروں میں انجام دینا شروع کیا۔
ان سات مجتہدین صحابہ کے جس مجتہدانہ کام کا آغاز عہد رسالت میں مدینہ سے ہوا تھا، وہ سارے اسلامی قلمرو میں پھیلا اور ان مکثرین صحابہ کے اجتہادی کام کا سلسلہ عہد صحابہ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی وفات پر ساتویں دہائی کے وسط میں اختتام پذیر ہوا اور ان کے نامور شاگردوں نے اس سلسلے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، لیکن اس کا دائرہ انفرادی کوششوں تک محدود رہا، اور اسلامی قلمرو کی مقامی اور وقتی ضرورتوں کو پورا کرتا رہا، مگر شورائی نظام اجتہادی جس کا آغاز حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں کیا تھا، وہ اکابر مجتہدین کے اسلامی قلمرو میں مامور کیے جانے سے زیادہ عرصہ تک قائم نہ رہ سکا۔

عہد رسالت میں بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کی خدمت افتاء
فتوے دینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرض منصبی تھا، قرآن میں اس کا ذکر ہے: ’’یَستَفتُونَکَ‘‘ (۱۲) ’’صحابہ رضی اللہ عنہم آپ (ﷺ) سے فتویٰ لیتے ہیں‘‘ یعنی شرعی حکم معلوم کرتے ہیں۔ چنانچہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم فتویٰ دیتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض مہاجر و انصار صحابہ کی بھی تربیت کی تھی اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غیرموجودگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے فتوی دیتے تھے۔ (۱۳) ان میں چھ صحابہ رضی اللہ عنہم کو شہرت حاصل تھی، تین مہاجر اور تین انصاری تھے، چنانچہ حضرت سہل بن ابی خیثمہ ساعدی رضی اللہ عنہ اپنے والد حضرت ابوخیثمہ رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں:
’’کان الذین یُفتون علی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیi وسلم ثلاثة من المھاجرین و ثلاثة من الأنصار: عمر و عثمان و علی و أُبی بن کعب و معاذ بن جبل وزید بن ثابت رضی اللہ عنهم۔‘‘ (۱۴)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فتوی دیتے تھے، ان میں تین حضرت عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم مہاجر تھے اور تین حضرت أبی بن کعب، حضرت معاذ بن جبل اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم انصاری تھے۔‘‘
علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ (متوفی ۹۱۱ھ) فرماتے ہیں: مجھے احادیث و آثار کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ زمانۂ رسالت میں افتاء کی خدمت انجام دینے والے صحابہ رضی اللہ عنہم آٹھ تھے، میں نے انہیں دو شعروں میں نظم کیا ہے، وہ شعر یہ ہیں:

و قد کان فی عصر النبی ثمانیة
یقومون بالافتاء قومة قانت
فأربعة أھل الخلافة معھم
معاذ، أبی، و ابن عوف ابن ثابت (۱۵)

یعنی ’’حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آٹھ صحابہ رضی اللہ عنہم فتاویٰ دینے کا ایسا اہتمام کرتے جیسے کوئی فرمانبردار اطاعت الہی کرتا ہے۔ ان میں چار خلفاء راشدین حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی رضی اللہ عنہم تھے اور ان کے ساتھ حضرت معاذ، حضرت ابی بن کعب، حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہم بھی یہ خدمت انجام دیتے تھے۔‘‘
مؤرخ علامہ عبدالرحمن بن الجوزی رحمہ اللہ (متوفی ۵۹۷ھ) نے ’’کتاب المدھش‘‘ میں عہد رسالت میں مفتیان صحابہ رضی اللہ عنہم کی تعداد چودہ نقل کی ہے، موصوف کا بیان ہے:
’’من کان یفتی علی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: أبوبکر و عمر و عثمان و علی و عبدالرحمن بن عوف و ابن مسعود و أبی و معاذ و عمار و حذیفۃ و زید بن ثابت و أبوالدرداء و أبوموسی و سلمان رضی اللہ عنہم‘‘۔ (۱۶)

عہد رسالت میں جو صحابہ فتوے دیتے تھے، وہ:
حضرت ابوبکر عبداللہ بن عثمان تیمی قرشی رضی اللہ عنہ (۵۱ق ھ۔۱۳/۵۷۳ء۔۶۳۴ء)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ (۴۰ ق ھ۔ ۲۴ھ/۵۸۴ء۔۶۴۴ء)
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ (۴۷ ق ھ۔ ۳۱ھ/۵۷۷ء۔۶۵۶ء)
حضرت علی رضی اللہ عنہ (۲۳ ق ھ۔ ۴۰ھ/۶۰۰۔۶۶۱ء)
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ (۴۴ ق ھ۔۳۲ھ /۵۸۰ء۔۶۵۲ء)
حضرت عبداللہ بن مسعود ہذلی رضی اللہ عنہ (۰۰۰۔۳۲ھ/۔۔۔۶۵۳ء)
حضرت ابی بن کعب الانصاری رضی اللہ عنہ(۔۔۔۲۱ھ/۔۔۔۶۴۲ء)
حضرت معاذ بن جبل خزرجی انصاری رضی اللہ عنہ (۲۰ ق ھ۔۱۸ھ/۶۰۳۔۶۳۹ء)
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ (۵۷ ق ھ۔۳۷ھ /۵۶۷۔۶۵۷ء)
حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ (۔۔۔۔۳۶ھ/۔۔۔۔۶۵۶ء)
حضرت زید بن ثابت خزرجی انصاری رضی اللہ عنہ (۱۱ ق ھ۔۴۵ھ/۶۱۱ء۔۶۶۵ء)
حضرت ابوالدرداء عویمر بن مالک رضی اللہ عنہ (۔۔۔۔۲۳ھ/۔۔۔۔۶۵۲ء)
حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ (۲۱ق ھ۔۴۴ھ/۶۰۲۔۶۶۵ء)
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ (۔۔۔۔۳۶ء/۔۔۔۔۶۵۶ء) رضی اللہ عنہم تھے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد رسالت میں مجتہدین صحابہ رضی اللہ عنہم کے فتووں پر عمل کیا جاتا تھا اور ان کی فقہی بصیرت و تقلید کو راہ نجات سمجھا جاتا تھا۔

خلافت راشدہ میں رائے اور فتووں پر عمل
خلافت راشدہ میں بھی رائے اور فتووں پر عمل کیا جاتا تھا، چنانچہ فقہاء سبعہ میں قاسم بن محمد بن ابی بکر رحمہ اللہ المتوفی ۱۰۶ھ کا بیان ہے:
’’ان إبابکر الصدیق کان إذا نزل به أمر یرید فیه مشاورة أهل الرأی و أهل الفقه، و دعا رجلاً من المهاجرین و الأنصار، عمر و عثمان و علیا و عبدالرحمن بن عوف و معاذ بن جبل و أبی بن کعب و زید بن ثابت، و کل هولاء یفتی فی خلافة أبی بکر، و إنما تصیر فتوی الناس إلی هولاء فمضی إبوبکر علی ذلک، ثم ولی عمر فکان یدعو هؤلاء النفر، و کانت الفتوی تصیر و هو خلیفة إلی عثمان و أبی و زید رضی الله عنهم اجمعین‘‘
’’بلاشبہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس جب کوئی نیا مسئلہ اور واقعہ پیش آتا، وہ اس میں اہل الرائے اور اہل فقہ سے مشورہ لینے کا ارادہ فرماتے تو مہاجرین و انصار میں سے حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابی بن کعب اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہم کو بلاتے تھے اور یہی لوگ خلافت صدیقی میں فتوے دیتے تھے اور لوگوں کی طرف سے جو سوالات آتے وہ انہی کو پہنچائے جاتے تھے۔ یہ فتاوی کے مرجع تھے اور انہی کا فتوی چلتا تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں یہی معمول تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حکمرانی کا زمانہ جب شروع ہوا تو وہ بھی انہی لوگوں کو بلاتے تھے اور انہی کے فتووں پر عمل جاری تھا۔ اور فتوے حضرت عثمان، حضرت علی اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہم کو پہنچائے جاتے تھے۔‘‘ (حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کے دورِ فرمانروائی میں یہ خود فتوے دیتے تھے)۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواشی و حوالہ جات
۱: کشف الاسرار علی أصول فخر الاسلام البزدوی رحمہ اللہ، ج:۳، ص:۲۱۰، کراچی الصدف پبلشرز، الاجتھاد فی الشریعۃ الاسلامیۃ و بحوث أخری، ادارۃ الثقافۃ و النشر بالجامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیۃ، ۱۴۰۴ھ۔
۲: أصول الجصاص، ج۲، ص۲۲۲۔
۳: معالم السنن، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۱۶ھ، ج۴، ص۱۵۳، بذل المجھود، کراچی، معہد الخلیل،ج۴، ص۳۰۹۔
۴: تفسیر القرآن العظیم، مصر، مصطفی البابی، ۱۳۵۶ھ، ج۱، ص۳۔
۵: طبقات الفقہاء للشیرازی، بغداد ۱۳۵۶ھ، ص۳۔
۶: مقدمہ ابن الصلاح و محاسن الاصطلاح، القاہرۃ، دارالمعاد، طبع ۱۴۱۱ھ، ص۴۹۴۔
* تدریب الراوی، طبع ۱۹۵۹ء، ص۴۰۵،۴۰۶۔
* ارشاد طلاب الحقائق الی معرفۃ سنن خیر الخلائق للنووی رحمہ اللہ، المدینہ المنورۃ، مکتبۃ الایمان ۱۴۰۸ھ، ج۲، ص۵۹۷۔
۷: الأحکام، القاہرۃ، ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ، ۱۳۴۷ھ، ج۵، ص۹۲۔
۸: الأحکام، ج۵، ص:۹۲۔۹۳، (ولہ) الرسالۃ الثالثۃ، أصحاب الفتیا من الصحابۃ و من بعدھم علی مراتبھم فی کثرۃ الفتیا، ص۳۱۹۔ اس رسالے میں ابن حزم رحمہ اللہ نے ارباب فتوی کی مجموعی تعداد ایک سو باسٹھ بیان کی ہے، ان میں ۱۴۲ مرد اور ۲۰ خواتین ہیں۔ مکثرین سات، اور متوسطین ۱۳ بیان کیے ہیں، باقی سب مقلین ہیں۔ یہ رسالہ سید کروی حسن کی تحقیق سے دارالکتب العلمیہ نے ۱۳۵۱ھ میں بیروت سے شائع کیا ہے۔
۹: شرح فتح القدیر، ج۳، ص۳۳۰۔
۱۰: ایضاً، اصحاب الفتیا۔
۱۱: سنن ابی داؤد، ج۱، ص۲۸۸، کراچی، سعید اینڈ کمپنی۔
۱۲: النساء: ۱۲۷، ۱۷۶۔
۱۳: السیوطی رحمہ اللہ، الحاوی للفتاوی، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۰۲ھ، ۱۹۸۲، ج۱، ص۱۶۱۔
۱۴: الطبقات الکبری، بیروت، دار صادر۔ ج۲، ص۳۵۱۔
۱۵: الحاوی للفتاوی، ج۱، ص۱۶۲، (لہ) الکثر المدفون فی الفلک المشحون، ص:۲۵۲۔
۱۶: المدہشی، بیروت، عباس احمد الباز، ص۵۱۔

(جاری ہے)

دوسری قسط [1]

مولانا ڈاکٹر محمد عبدالحلیم چشتی
بشکریہ ماہنامہ بینات، رمضان و شوال ۱۴۳۵ھ