روزنامہ دنیا کے فاضل کالم نگار جناب خورشید ندیم نے اپنے کالم میں ’’جین ایڈیٹنگ‘‘ کو موضوع بنایا اور بتایا کہ جنیٹک انجینئرنگ کے ذریعے حیوانات کی بعض خصوصیات پر مشتمل نئی نسلیں تیار کی جارہی ہیں جن میں بغیر سینگ کے بیل، ایک خاص قسم کی مچھلی اور Malaria free مچھر بھی پیدا کیا گیا ہے۔ الغرض اجناس اور حیوانات کی نسلوں میں تنوع پر تجربات ہورہے ہیں اور کسی حد تک اس کی اصل تابیر یا تلقیح ہے۔ اسے درختوں میں قلمیں لگانے اور جانوروں میں مخلوط نسل سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ جانوروں کی مخلوط نسلوں کے حوالے سے ہمارے فقہی سرمایے میں پہلے سے اس کا حل موجود ہے۔ ذیل میں سوال و جواب کی صورت میں ایک مسئلہ درج کیا جاتا ہے جو ہم نے عیدالاضحی کے موقع پر آسٹریلوی گائے کی قربانی کے حوالے سے لکھا تھا:
’’سوال: کیا آسٹریلوی گائے کی قربانی جائز ہے؟ اس کے بارے میں یہ افواہ بھی ہے کہ اسے حرام جانور کے مادہ منویہ سے حاملہ کرایا جاتا ہے تا کہ اس سے دودھ کی زیادہ مقدار حاصل ہو۔ ایسی گایوں کا شرعی حکم کیا ہے؟
جواب: آسٹریلوی گائے کی قربانی جائز ہے۔ فقہی رائے کا مدار افواہوں یا سنی سنائی باتوں پر نہیں ہوتا، صرف ان باتوں پر ہوتا ہے جو قطعی ثبوت یا مشاہدے سے ثابت ہوں۔ اسی لیے مسلمہ اصول ہے کہ ’’یقین شک سے زائل نہیں ہوتا‘‘۔ تاہم اگر یہ بات درست بھی ہو، تب بھی یہ گائیں حلال ہیں، ان کا گوشت کھانا اور دودھ پینا جائز ہے۔ اس لیے کہ جانوری کی نسل کا مدار ماں(یعنی مادہ جانور) پر ہوتا ہے۔ علامہ برہان الدین لکھتے ہیں: ترجمہ ’’اور جو بچہ پالتو جانور اور وحشی جانور کے ملاپ سے پیدا ہو، وہ (بچہ) ماں کے تابع ہوتا ہے، کیونکہ بچے کے تابع ہونے میں ماں ہی اصل ہے، یہاں تک کہ اگر بھیڑیے نے بکری پر جفتی کی تو اس ملاپ سے جو بچہ پیدا ہوگا، اس کی قربانی جائز ہے۔‘‘ اس کی شرح میں علامہ محمد بن محمود ’’عنایہ‘‘ شرح ہدایہ میں لکھتے ہیں: ترجمہ (کیونکہ بچہ ماں کا جزء ہوتا ہے اور اسی لیے آزاد یا غلام ہونے میں ماں کے تابع ہوتا ہے۔ (یہ اس دور کی بات ہے جب غلامی کا رواج تھا)۔ یہ اس لیے کہ نر کے وجود سے نطفہ جدا ہوتا ہے اور وہ قربانی کا محل نہیں ہے اور ماں کے وجود سے حیوان جدا ہوتا ہے اور وہ قربانی کا محل ہے، پس اسی کا اعتبار کیا گیا ہے۔‘‘ (فتح القدیر جلد ۹ ص۵۳۲)‘‘
اور آج کل تو مغرب میں انسانوں کو اسی حیوانی درجے میں پہنچادیا گیا ہے، اسی لیے باپ کے بجائے ماں کا نام پوچھا جاتا ہے، کیونکہ بہت سے لوگوں کو اپنے باپ کا پتہ ہی نہیں ہوتا، جبکہ اسلامی تعلیمات کی رو سے انسانوں میں نسب باپ کی طرف سے چلتا ہے۔ پس بیل کا بغیر سینگ کے ہونا جبکہ گائے نے اسے جنم دیا ہو، مذہب کی روسے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مچھلی کی مثال جناب خورشید ندیم نے دی ہے، جبکہ برائلر مرغی سے مسلمانوں سمیت پوری انسانیت ایک مدت سے استفادہ کررہی ہے۔
اسلام میں جمود نہیں ہے، توسیع ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی مفاد میں تجربات کے لیے راستہ کھلا چھوڑا ہے۔ حدیث پاک میں ہے، رافع بن خدیج بیان کرتے ہیں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم (ہجرت کرکے) مدینے تشریف لائے تو لوگ وہاں کھجوروں میں پیوندکاری کرتے تھے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، یہ تم کیا کرتے ہو؟ انھوں عرض کیا، ہم یہ کام (قلمیں لگانا) کیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر تم یہ نہ کرتے تو بہتر ہوتا۔ سو انھوں نے (قلمیں لگانا) چھوڑ دیا تو درخت چھڑ گئے یا پیداوار کم ہوگئی۔ راوی بیان کرتے ہیں، صحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا، میں صرف بشر ہوں۔ جب میں دین کے بارے میں (جو وحی ربانی مشتمل ہوتا ہے) تھمیں کسی بات کا حکم دوں تو اسے قبول کرلو اور اگر میں اپنی رائے سے کسی بات کا حکم دوں تو میں بشر ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم، ۲۳۶۲) دوسری حدیث میں فرمایا ’’اگر (پیوندکاری) ان کے لیے مفید ہے تو وہ اسے اختیار کریں۔ میں نے ظن ہر مبنی بات کی تھی اور ظنی (یا قیاسی) بات پر عمل کرنا ضروری نہیں ہے، لیکن جب میں اللہ تعالی کی ذات کی طرف منسوب کرکے کوئی بات کہوں تو اسے لازم پکڑو۔‘‘ (صحیح مسلم ۲۳۶۱)
اسی طرح ماضی قریب میں ایک بھیڑ کے خلیے (Cell) سے دوسری بھیڑ ڈولی کو تخلیق کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ اگر یہ دعویٰ صحیح ہے تو سوال یہ ہے کہ اس سلسلے کو آگے جاری کیوں نہ رکھا گیا، اس کا سبب معلوم نہیں ہے۔ تا ہم اللہ تعالی کی تخلیق میں یہ سارے نظائر (Precedents) موجود ہیں۔ عام سنت الہیہ یہ ہے کہ توالد و تناسل یعنی افزائش نسل حیوانات میں نر و مادہ اور انسانوں میں مرد اور عورت کے اشتراک سے وجود میں آتی ہے، لیکن اللہ تعالی نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مرد کے واسطے کے بغیر، حضرت حوا کو عورت کے واسطے بغیر اور حضرت آدم علیہ السلام کو دونوں کے واسطے کے بغیر پیدا کر کے یہ بتادیا کہ اسباب قدرتِ باری تعالی تابع ہیں اور اس کی قدرت ان اسباب کی محتاج نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے ’’بے شک عیسی کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی مانند ہے۔ انھیں مٹی سے پیدا کیا، پھر اسے فرمایا: ہوجا، سو وہ ہوگیا۔‘‘ (آل عمران:۵۹) اسی طرح فرمایا: ’’اے لوگو! اپنے اس پروردگار سے ڈرتے رہا کرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا ہے اور اسی سے اس کی زوج (حوا) کو پیدا کیا اور دونوں سے کثیر تعداد میں مردوں اور عورتوں کو پھیلا دیا۔‘‘ (النساء:۱) اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے اپنی قدرت سے حضرت حوا کو آدم علیہ السلام کے وجود سے پیدا کیا اور اپنی حکومت سے اس تخلیق کی عملی صورت کو بیان نہیں فرمایا۔ قرآن مجید اصول اور کلیات بیان کرتا ہے، اس کی صورت و ہیئت کی تحدید نہیں فرماتا تا کہ آنے والے زمانے میں انسانی علم کے ارتقاء کے سبب جو بھی صورت اختیار کی جائے، اس پر اصول کی تطبیق (Application) میں دشواری پیش نہ آئے۔
جناب خورشید ندیم نے لکھا ہے کہ نئے علم الکلام کی ضرورت ہے۔ یہ بات درست ہے، اس لیے کہ انسان کے علمی، عقلی اور فکری ارتقا کا سفر جاری و ساری ہے۔فلسفہ یونان تو اب از کار رفتہ ہوچکا۔ نئے فلسفے اور مابعد الطبیعیاتی (Metaphysical) نظریے وجود میں آئے رہیں گے۔ آج اباحت کلی (Total Permissibility) کا فلسفہ کار فرما ہے۔ انسان کے لیے کیا مفید ہے اور کیا نقصان دہ؟ اس بارے میں مغرب کا فیصلہ یہ ہے کہ ان کی اجتماعی دانش ہی حاکم ہے۔ اللہ تعالی کی حاکمیت اعلیٰ کو انھوں نے دیس نکالا دے دیا ہے۔ آج ہم جنس پرستی (Homosexuality)، مردوں کے باہم جنسی تلذذ (Gay)، عورتوں کے باہم جنسی تلذذ (Lesbians) اور ہیجڑوں کے باہم جنسی تلذذ (Transgender) کو قانونی حیثیت دے گئی ہے۔ قانون الہی میں اس کا تصور بھی کیا جاسکتا۔
علم الکلام سے مراد یہ ہے کہ اسلامی عقائد پر وارد ہونے والے عقلی اور فکری اعتراضات کا ایسا مدلل اور مفصل جواب دیا جائے جو ایک سلیم الفطرت اور عقل سلیم رکھنے والے انسان کو مطمئن کرسکے۔ جہاں تک ہٹ دھرم لوگوں کا تعلق ہے، وہ ہمیشہ قاطع حجتوں کو بھی رد کرتے رہے ہیں، عصبیت جاہلیہ سے کام لیتے ہوئے دین آبا سے جڑے رہے ہیں۔ ایسے کٹ حجت اور ہٹ دھرم لوگ تاریخ کے ہر دور میں موجود رہے ہیں اور رہیں گے۔ اسلام کے حاملین کو عقلی اور فکری جمود کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ اہل دین کو اپنے عہد کے عقلی اور فکری فتنوں اور ان کی فکری اساس کو سمجھ کر ان کا تشفی بخش جواب دینا چاہیے۔ یہ بھی درست ہے کہ عقلی، فکری اور سائنسی ارتقا کے اس دور میں آیات الہیہ کی نئی تعبیرات آتی رہیں گی۔ ہمارا کام یہ نہیں ہے کہ نصوص قرآنی کو ہر دور میں سائنس کے تابع کریں، بلکہ ہماری ذمے داری یہ ہے کہ یہ ثابت کریں کہ قرآن و سنت اور اصول دین کا سائنس سے کوئی تصادم نہیں ہے۔ اگر ہم آج کی کسی تعبیر کو حرفِ آخر قرار دے دیں توکل اس کے برعکس بھی کوئی صورت سامنے آسکتی ہے۔ اللہ تعالی کی تخلیقات اور اس میں سربستہ رازوں کو دریافت کرنا یا انھیں مختلف شکلیں دینا تو ممکن ہے اور یہ دین کے منافی نہیں ہے۔ خلق اور ایجاد اللہ تعالی کی شان ہے اور روح یا حقیقت حیات، یہ قدرت کا راز ہے اور تا حال یہ انسانی عقل کی رسائی سے ماوَرا ہے۔ علامہ اقبال نے کہا:

یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دمامدم صدائے کن فیکون

اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’اور ہم نے آسمان کو اپنے دست قدرت سے بنایا اور ہم (ہرآن) اسے وسعت دینے والے ہیں۔‘‘ (الذاریات ۴۷)۔
سائنس دان بھی کہتے ہیں کہ ہمارے کہکشاں (Galaxy) کی طرح کئی ارب کہکشائیں (Galaxies) ایسی ہیں جو ابھی دریافت نہیں ہوئیں۔
(بشکریہ روزنامہ ’’دنیا‘‘)

مولانا مفتی منیب الرحمن
ماہنامہ الشریعۃ، جنوری 2016

baloch

Recent Posts

دارالعلوم مکی زاہدان کے استاد کو رہا کر دیا گیا

مولوی عبدالحکیم شہ بخش، دارالعلوم زاہدان کے استاد اور "سنی آن لائن" ویب سائٹ کے…

5 months ago

زاہدان میں دو دینی مدارس پر سیکورٹی حملے کے ردعمل میں دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ کا بیان

دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ نے زاہدان میں دو دینی مدارس پر سکیورٹی اور فوجی دستوں…

5 months ago

زاہدان میں دو دینی مدارس پر سکیورٹی فورسز کے حملے میں درجنوں سنی طلبہ گرفتار

سنی‌آنلاین| سیکورٹی فورسز نے آج پیر کی صبح (11 دسمبر 2023ء) زاہدان میں دو سنی…

5 months ago

امریکہ کی جانب سے غزہ جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کرنا ایک “انسانیت سے دشمنی” ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکہ کی طرف سے…

5 months ago

حالیہ غبن ’’حیران کن‘‘ اور ’’مایوس کن‘‘ ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے آج (8 دسمبر 2023ء) کو زاہدان میں نماز جمعہ کی…

5 months ago

دنیا کی موجودہ صورت حال ایک “نئی جہاں بینی” کی متقاضی ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے ایک دسمبر 2023ء کو زاہدان میں نماز جمعہ کی تقریب…

6 months ago