Categories: اسلام

رضاعت اور عدت کے چند احکام

ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)

ستانے کی نیت سے رجوع نہیں کرنا چاہیے
﴿وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النَّسَاء فَبَلَغْنَ أَجَلَہُن﴾زمانہ جاہلیت میں لوگ جب اپنی بیویوں پر ناراض ہوتے تو طلاق دے دیتے ،پھر عدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کرکے دوبارہ قید نکاح میں لے لیتے، یہ رجوع گھر بسانے کی غرض سے نہیں ہوتا تھا ،بلکہ عورت پر اپنے غصے کی بھڑاس نکالنے او رانتقام کا نشانہ بنانے کے لیے ہوتا تھا ، اسے ازدواجی حقوق سے محروم رکھا جاتا۔ یوں عورت ظلم کی چکی میں پس کر زندگی گزار دیتی ، نہ دوسرا نکاح کرکے خوش وخرم زندگی گزار سکتی اور نہ ہی شوہر حقوق ادا کرنے پر آمادہ ہوتا ۔الله تعالیٰ نے اس آیت میں تنبیہ فرمائی ہے کہ رجوع تب کرنا چاہیے جب طلاق پر واقعی شرمندگی ہو اورگھر بسانے کی مکمل نیت ہو ۔ ستانے کی نیت سے رجوع کرنا احکام الہٰی کے ساتھ مذاق کرنے کے مترادف ہے۔

نکاح میں عورت کی رضا مند ی پیش نظر ہونی چاہیے
﴿فَلاَ تَعْضُلُوہُن…﴾ عدت مکمل ہونے کے بعد عورت کے نکاح میں روک ٹوک نہیں کرنی چاہیے ، نکاح عورت کا شرعی حق ہے، وہ جہاں چاہے کر سکتی ہے، البتہ ”کفو“ کوپیش نظر رکھے۔ اگر پہلے شوہر نے تین طلاقیں نہ دی ہوں تو اس کے ساتھ بھی نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں، عزیز واقارب کو اس میں رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیے، الله تعالیٰ کا ہر حکم بھلائی اور خیر خواہی پر مبنی ہے ، اگر نکاح کے معاملے میں مرد وعورت کی رضا مندی کو پیش نظر نہ رکھا جائے تو ان کے گناہوں میں مبتلا ہو جانے کا قوی خدشہ رہتا ہے، جس سے معاشرتی برائیاں جنم لیتی ہیں ۔ اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ حضرت معقل بن یساررضي الله عنه نے اپنی بہن کانکاح ایک شخص سے کرایا، اس نے کچھ عرصے بعد اسے طلاق دے دی ، حضرت معقل رضي الله عنه نے رجوع کی التجا کی، لیکن وہ نہ مانا، عدت گزرنے کے بعد اس نے نکاح کی خواہش ظاہر کی، حضرت معقل رضي الله عنه کی بہن بھی راضی تھیں،لیکن حضرت معقل رضي الله عنه آڑے آگئے اور اپنی ہمشیرہ کا نکاح اس شخص سے کرانے سے انکار کر دیا ،کیوں کہ یہ پہلے حضرت معقل رضي الله عنه کی فرمائش کو بے مروتی سے رد کر چکا تھا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی، جب دونوں راضی ہیں تو رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔

﴿وَالْوَالِدَاتُ یُرْضِعْنَ أَوْلاَدَہُنَّ حَوْلَیْْنِ کَامِلَیْْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَن یُتِمَّ الرَّضَاعَةَ وَعلَی الْمَوْلُودِ لَہُ رِزْقُہُنَّ وَکِسْوَتُہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ لاَ تُکَلَّفُ نَفْسٌ إِلاَّ وُسْعَہَا لاَ تُضَآرَّ وَالِدَةٌ بِوَلَدِہَا وَلاَ مَوْلُودٌ لَّہُ بِوَلَدِہِ وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِکَ فَإِنْ أَرَادَا فِصَالاً عَن تَرَاضٍ مِّنْہُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْْہِمَا وَإِنْ أَرَدتُّمْ أَن تَسْتَرْضِعُواْ أَوْلاَدَکُمْ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْْکُمْ إِذَا سَلَّمْتُم مَّا آتَیْْتُم بِالْمَعْرُوفِ وَاتَّقُواْ اللّہَ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّہَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیْرٌ﴾․(سورہ بقرہ، آیت:233)
اور بچے والی عورتیں دودھ پلاویں اپنے بچوں کو دو برس پورے جو کوئی چاہے کہ پوری کرے دودھ کی مدت اور لڑکے والے یعنی باپ پر ہے کھانا او رکپڑا ان عورتوں کا موافق دستور کے، تکلیف نہیں دی جاتی کسی کو مگر اس کی گنجائش کے موافق، نہ نقصان دیا جاوے ماں کو اس کے بچے کی وجہ سے او رنہ اس کو کہ جس کا وہ بچہ ہے یعنی باپ کو اس کے بچہ کی وجہ سے اور وارثوں پر بھی یہی لازم ہے ۔ پھر اگر ماں باپ چاہیں کہ دودھ چھڑالیں، یعنی دو برس کے اندر ہی اپنی رضا اور مشورہ سے تو ان پر کچھ گناہ نہیں او راگر تم لوگ چاہو کہ دودھ پلواؤ کسی دایہ سے اپنی اولاد کوتو بھی تم پر کچھ گناہ نہیں، جب کہ حوالہ کردو جو تم نے دینا ٹھہرایا تھا موافق دستور کے اور ڈرو الله سے اور جان رکھو کہ الله تمہارے سب کاموں کو خوب دیکھتا ہے

تفسیر: بچوں کے دودھ پلانے کی مدّت
ان آیات میں چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال، ان کے دودھ پلانے کی مدت او راس کے متعلقہ احکام کی تفصیل بیان کی جارہی ہے ، بچوں کو دودھ پلانے کی ذمے داری ماں پر عائد ہوتی ہے، جب بچے کی عمر دو سال کی ہو جائے تو پھر ماں کا دودھ چھڑا دیا جائے ، عورت کو دودھ پلانے پر کسی اجرت کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے، البتہ شوہر کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اپنی بیوی کے نان ونفقہ کا مکمل انتظام کرے، ماں اور باپ دونوں اپنی طاقت ووسعت کے مطابق اپنی اپنی ذمے داری کا مظاہرہ کریں ۔ ہر ماں کو اپنے بچے کے ساتھ ایک جذبانی لگاؤ ہوتا ہے، مر دکو اس سے غلط فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے ، دودھ تو پلوالے، لیکن عورت کو کھانے پینے کی سہولیات سے محروم رکھے۔ یہ مناسب نہیں۔ اسی طرح عورت کو بھی چاہیے کہ بے جا مطالبے کرکے مرد کو مشقت میں نہ ڈالے۔

﴿ فَإِنْ أَرَادَا فِصَالاًً…﴾ اگر ماں باپ باہمی رضا مندی سے ، بچے کی صحت یا کسی عذر کے پیش نظر بچے کا دودھ قبل از وقت چھڑانا چاہیں تو کوئی حرج نہیں، لیکن بچے کے حق میں یہ فیصلہ مضر اور نقصان دہ نہ ہو، بچے کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے آیا اجرت پر رکھ لینے میں بھی کوئی حرج نہیں ۔ یہ سارے معاملات صحیح طور پر اس وقت تک بجا آور نہیں ہو سکتے جب تک دلوں میں تقوی کی شمع روشن نہ ہو، اس لیے تاکید کی جاری ہے وَاتَّقُواْ اللّہ ”الله سے ڈرو“ اسے تمہارے سب کاموں کی خبر ہے کہ کون سا کام کس غرض اور کس نیت سے کیا جارہاہے ۔

اگر والد فوت ہو چکا ہو تو پھر عورت کے نان ونفقہ کی تمام ذمے داریاں ورثا پر عائد ہوں گی ، اگر آیا رکھی گئی تو اس کی اجرت بھی ورثا کے ذمے ہو گی ، یہ سب اس وقت ہے جب بچے کے حصے میں وراثت وغیرہ سے مال نہ ہو، اگر بچے کے حصے میں مال موجود ہے تو اسی مال سے یہ خرچ ادا کیا جائے گا۔

دودھ پلانے سے متعلقہ مسائل
٭…ماں کے دودھ پلانے کی اکثر مدت دو سال ہے ۔ ( البحر الرائق:3/223)
٭…عورت جب تک خاوند کے نکاح میں ہو یا طلاق ہو جانے کے بعد عدت میں ہو تو دودھ پلانے پر اجرت کا مطالبہ نہیں کر سکتی۔ (احکام القرآن للجصاص، البقرہ تحت آیة رقم:233)
٭…اگر ماں کمزور ہے یا کسی عذر کی بنا پر دودھ نہیں پلاسکتی تو اس پر جبر نہیں کیا جاسکتا ۔ (رد المحتار:3/619)
٭…عدت گزرنے کے بعد باپ کو چاہیے اجرت دے کر بچے کو حقیقی ماں کا دودھ پلوائے ،اگر وہ آیا سے زیادہ اجرت کا مطالبہ کرتی ہے تو آیا سے پلوائے۔ ( الفقہ الاسلامی وادلتہ:10/7279)
٭…اگر بچے کا باپ انتقال کر جائے تو بچے کو پرورش اور دودھ پلوانے کی ساری ذمے داری ورثا پر عائد ہوتی ہے ۔ (احکام القرآن للجصاص، البقرة،تحت آیة رقم:233)
٭…اگر بچہ ماں کے علاوہ کسی کا دودھ نہیں پیتا او رباپ مالی کمزوری کی بنا پرآیا نہیں رکھ سکتا تو ماں ہی کو دودھ پلانے پر مجبور کیا جائے گا۔ (ردّالمحتار:2/111)
٭…اگر والدین باہمی رضا مندی سے بچے کا دودھ دو سال مکمل ہونے سے پہلی ہی چھڑالیں تو کوئی حرج نہیں۔ ( البحرالرائق:2/223)

﴿وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنکُمْ وَیَذَرُونَ أَزْوَاجاً یَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِہِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْہُرٍ وَعَشْراً فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَہُنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْْکُمْ فِیْمَا فَعَلْنَ فِیْ أَنفُسِہِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَاللّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیْر، وَلاَ جُنَاحَ عَلَیْْکُمْ فِیْمَا عَرَّضْتُم بِہِ مِنْ خِطْبَةِ النِّسَاء أَوْ أَکْنَنتُمْ فِیْ أَنفُسِکُمْ عَلِمَ اللّہُ أَنَّکُمْ سَتَذْکُرُونَہُنَّ وَلَکِن لاَّ تُوَاعِدُوہُنَّ سِرّاً إِلاَّ أَن تَقُولُواْ قَوْلاً مَّعْرُوفاً وَلاَ تَعْزِمُواْ عُقْدَةَ النِّکَاحِ حَتَّیَ یَبْلُغَ الْکِتَابُ أَجَلَہُ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّہَ یَعْلَمُ مَا فِیْ أَنفُسِکُمْ فَاحْذَرُوہُ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّہَ غَفُورٌ حَلِیْمٌ﴾․(سورہ بقرہ، آیت:235-234)
اور جو لوگ تم میں سے مر جاویں اور چھوڑ جاویں اپنی عورتیں تو چاہیے کہ وہ عورتیں انتظار میں رکھیں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن، پھر جب پورا کر چکیں اپنی عدت کو تو تم پر کچھ گناہ نہیں اس بات میں کہ کریں وہ اپنے حق میں قاعدہ کے موافق اور الله کو تمہارے تمام کاموں کی خبر ہے او رکچھ گناہ نہیں تم پر اس میں کہ اشارہ میں کہو پیغام نکاح ان عورتوں کا،یا پوشیدہ رکھو اپنے دل میں، الله کو معلوم ہے کہ تم البتہ ان عورتوں کا ذکر کر وگے لیکن ان سے نکاح کا وعدہ نہ کر رکھو چھپ کر، مگر یہی کہ کہہ دو کوئی بات رواج شریعت کے موافق اور نہ ارادہ کرو نکاح کا یہاں تک کہ پہنچ جاوے عدّت مقررہ اپنی انتہاکو اور جان رکھو الله کو معلوم ہے جو کچھ تمہارے دل میں ہے، سو اس سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ الله بخشنے والا اور تحمل کرنے والا ہے

تفسیر:جس عورت کا شوہر فوت ہو جائے اس کی عدت کا شرعی حکم
قرآن کریم کی اس آیت کریمہ میں اس عورت کی عدت بیان کی گئی ہے جس کا شوہر فوت ہو چکا ہو، زمانہ جاہلیت میں لوگ ایسی عورت کو منحوس سمجھ کر ایک سال کے لیے الگ تھلگ کر دیتے ، اسلام نے ان زیادتیوں سے نجات دلا کر ایسی عورت کی عدّت چار مہینے دس دن مقرر کی ہے ۔ عورت کے لیے یہ سوگ کے ایام ہیں، اس لیے ان دنوں میں زیب وزینت اختیار کرنا، دوسرا نکاح کرنا جائز نہیں ہے، اسی طرح کسی کے لیے ایسی عورتوں کو پیام نکاح بھیجنا بھی جائز نہیں ،البتہ اشاروں اشاروں میں نکاح کا پیغام دینے میں کوئی حرج نہیں۔ عدت مکمل ہو جانے کے بعد عورت جہاں چاہے نکاح کر سکتی ہے۔

عدّت وفات سے متعلقہ چندفقہی مسائل
٭…جس عورت کا شوہر فوت ہو جائے اس کی عدّت چار مہینے دس دن ہے ، اگر عورت حاملہ ہو تو عدت وضع حمل ہے۔
٭…عدت وفات میں عورت کو بناؤ سنگھار کرنا، عمدہ لباس پہننا، خوش بو لگانا، بلا ضرورت شدیدہ گھر سے باہر نکلنا جائز نہیں۔(الدرالمختار، فصل فی الحداد:2/853)
٭…بیوہ جب تک عدت وفات میں ہو اسے صاف لفظوں میں نکاح کا پیغام دینا، نکاح کا وعدہ کرنا حرام ہے۔

﴿لاَّ جُنَاحَ عَلَیْْکُمْ إِن طَلَّقْتُمُ النِّسَاء مَا لَمْ تَمَسُّوہُنُّ أَوْ تَفْرِضُواْ لَہُنَّ فَرِیْضَةً وَمَتِّعُوہُنَّ عَلَی الْمُوسِعِ قَدَرُہُ وَعَلَی الْمُقْتِرِ قَدْرُہُ مَتَاعاً بِالْمَعْرُوفِ حَقّاً عَلَی الْمُحْسِنِیْنَ ، وَإِن طَلَّقْتُمُوہُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوہُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَہُنَّ فَرِیْضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ إَلاَّ أَن یَعْفُونَ أَوْ یَعْفُوَ الَّذِیْ بِیَدِہِ عُقْدَةُ النِّکَاحِ وَأَن تَعْفُواْ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَی وَلاَ تَنسَوُاْ الْفَضْلَ بَیْْنَکُمْ إِنَّ اللّہَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیْرٌ﴾․(سورہ بقرہ، آیت:237-236)
کچھ گناہ نہیں تم پر اگر طلاق دو تم عورتوں کو اس وقت کہ ان کو ہاتھ بھی نہ لگایا ہو اور نہ مقرر کیا ہو ان کے لیے کچھ مہراو ران کو کچھ خرچ دو،مقدور والے پر اس کے موافق ہے او رتنگی والے پر اس کے موافق جو خرچ کہ قاعدہ کے موافق ہے ،لازم ہے نیکی کرنے والوں پراو راگر طلاق دو ان کو ہاتھ لگانے سے پہلے اور ٹھہرا چکے تھے تم ان کے لیے مہر تو لازم ہوا آدھا اس کا کہ تم مقرر کرچکے تھے، مگر یہ کہ درگزر کریں عورتیں یا د رگزر کرے وہ شخص کہ جس کے اختیار میں ہے گرہ نکاح کی یعنی خاوند او رتم مرد درگزر کرو تو قریب ہے پرہیز گاری سے اور نہ بھلا دو احسان کرنا آپس میں، بے شک الله جو کچھ تم کرتے ہو خوب دیکھتا ہے

تفسیر:صحبت اور خلوت صحیحہ سے قبل طلاق دینے کی صورت میں حق مہر کا حکم
ان آیات میں اس عورت کے احکام بیان کیے گئے ہیں جسے صحبت اور خلوتِ صحیحہ سے قبل ہی طلاق دے دی گئی ہو، اس صورت میں مرد وعورت کے باہمی حقوق اور کیا ذمے داریاں ہیں؟ اس کے متعلق تفصیل بیان کی جارہی ہے۔

ایک صورت تو یہ ہے کہ بوقت نکاح عورت کا مہر ہی مقرر نہ کیا گیا ہو اور صحبت یا خلوت صحیحہ سے قبل طلاق ہو گئی ہو ،اس صورت میں عورت پر کوئی عدّت نہیں او رمرد پر حق مہر نہیں، البتہ مرد اپنی حیثیت کے موافق ایک جوڑا عورت کو ہدیہ میں پیش کر دے، تاکہ حادثہ طلاق سے پیدا ہونے والی تلخی کا مداویٰ ہو سکے۔

﴿وَإِن طَلَّقْتُمُوہُنّ﴾… سے دوسری صورت بیان کی جارہی ہے اگر مہر مقرر ہو او رصحبت یا خلوت صحیحہ سے قبل طلاق ہو گئی ہو تو اس صورت میں شوہر پر نصف مہر کی ادائیگی واجب ہے، اگر دونوں عفو اور درگزر سے کام لیں تو یہ تقوی کے زیادہ قریب ہے ، عورت کا فضل واحسان یہ ہے کہ وہ اپنا مہر ہی معاف کر دے او رمرد کا فضل واحسان یہ ہے کہ وہ پورا مہر دے دے، یہ مرد کے لیے زیادہ فضیلت کا باعث ہے، مرد عورت پر یک گونہ فضیلت رکھتا ہے، اس لیے اسے فضل واحسان کی طرف پیش قدمی کرنی چاہیے ،تاہم اگر شوہر مفلس ہے تو نصف مہر ہی ادا کر دے، اس پر کچھ گناہ نہیں۔

طلاق او رحق مہر سے متعلق فقہی مسائل
٭…”بِیَدِہِ عُقْدَةُ النِّکَاحِ“ ( اس کے اختیار میں ہے گرہ نکاح کی) اس آیت سے معلوم ہوا کہ طلاق دینے کا اختیار مرد کے پاس ہے ۔ (تفسیر ابن کثیر، البقرة تحت آیة رقم:236)
٭…بغیر مہر مقرر کیے بھی نکاح ہو جاتا ہے۔ ( الھدایہ:1/303)
٭…اگر ایسی عورت کو صحبت یا خلوت صحیحہ سے قبل طلا ق ہو جائے تو صرف ایک جوڑا دینا واجب ہے، یہی مہر کے قائم مقام ہے۔ (فتاوی عالمگیری:2/314)
٭…جوڑا عمدہ ہو یامتوسط؟ اس میں شوہر کی مالی حیثیت کا اعتبار ہے۔ (ردّ المحتار:2/336)
٭…بوقت نکاح مہر مقرر ہو چکا تھا پھر صحبت یا خلوت صحیحہ سے قبل طلاق ہو گئی تو مقرر شدہ مہر کا نصف مرد کے ذمے واجب الادا ہے۔(فتاوی عالمگیری:2/313)
٭…مہر مقرر ہو چکا تھا، صحبت یا خلوت صحیحہ کے بعد طلاق ہوئی تو پورا مہر مرد کے ذمے واجب الادا ہے۔ (فتاوی عالمگیری:2/313)
٭…مہر مقرر نہیں ہوا تھا، پھر صحبت یا خلوت صحیحہ کے بعد طلاق ہوئی تو عورت کو پورا مہر مثل دیا جائے گا۔ (فتاوی عالم گیری:2/314)

حَافِظُواْ عَلَی الصَّلَوَاتِ والصَّلاَةِ الْوُسْطَی وَقُومُواْ لِلّہِ قَانِتِیْنَ، فَإنْ خِفْتُمْ فَرِجَالاً أَوْ رُکْبَاناً فَإِذَا أَمِنتُمْ فَاذْکُرُواْ اللّہَ کَمَا عَلَّمَکُم مَّا لَمْ تَکُونُواْ تَعْلَمُونَ﴾(سورہ بقرہ، آیت:239-238)
خبردا ر رہو سب نمازوں سے اور بیج والی نماز سے او رکھڑ ے رہو الله کے آگے ادب سے پھر اگر تم کو ڈر ہو کسی کا تو پیادہ پڑھ لو یا سوار، پھر جس وقت تم امن پاؤ تو یاد کرو الله کو، جس طرح کہ تم کو سکھایا ہے، جس کو تم نہ جانتے تھے

ربط آیات:طلاق وعدت کے احکامات کے درمیان نماز کا تذکرہ آگیا، جس سے اس حقیقت پر روشنی پڑتی ہے کہ اسلام معاشرت اور عبادت میں کوئی فرق روا نہیں رکھتا، دونوں اطاعت الہیٰ کا مصداق ہیں، البتہ معاشرت اورمعاملات میں اتنا انہماک نہ ہو کہ عبادات، جو مقصود زندگی ہیں، ان میں خلل آنے لگے۔

تفسیر:درمیانی نماز کے اہتمام کا حکم
ان آیات میں الله تعالیٰ نے تمام نمازوں کی بالعموم اور صلاة وسطی (درمیانی نماز) کی بالخصوص حفاظت کی تاکید فرمائی ہے، حفاظت صلوة کے تین درجے ہیں۔ ادنی یہ کہ نماز وقت پرپڑھی جائے اور فرائض وواجبات ترک نہ ہوں۔ اوسط یہ کہ جسم صاف ستھرا ہو، دل میں خشوع وخضوع ہو، سنن ومستحبات کی پوری رعایت ہو ۔ اعلی یہ کہ نماز میں بارگاہ الہٰی میں حاضری کا ایسا استحضار ہو کہ گویا نماز بار ی تعالیٰ کے مواجہ میں ادا ہو رہی ہے۔”وَقُومُواْ“ حضرت زید بن ارقم رضي الله عنه فرماتے ہیں ابتدائے اسلام میں بحالت نماز بقدر ضرورت گفتگو کی اجازت تھی، یہاں تک کہ اس آیت سے یہ اجازت ختم کر دی گئی۔(مسند احمد بن حنبل:4/368)

صلوٰة وُسْطیٰ کون سی ہے؟
الله تعالیٰ نے تمام نمازوں کو بالعموم اور صلوة وسطی کی بالخصوص حفاظت کی تاکید فرمائی ہے ” صلوة وسطی“ درمیانی نماز کو کہتے ہیں ، درمیانی نماز کون سی ہے؟ اس میں صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مختلف اقوال منقول ہیں، کسی کے ہاں نماز ظہر کسی کے ہاں نماز عصر، کسی کے کہاں نماز مغرب، کسی کے ہاں نماز عشاء صلوة وسطی ہے۔ کسی نے توقف اختیار کیا ،صحابہ کرام رضی الله عنہم کی جماعت مبارکہ میں سے حضرت علی ، حضرت ابن عباس ، حضرت ابن مسعود ، حضرت ابوہریرہ رضي الله عنهم اور تابعین میں سے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ ، امام نخعی رحمہم الله تعالیٰ نے نماز عصر کو صلوة وسطی کا مصداق بتایا ہے۔( تفسیر ابن کثیر، البقرة تحت آیة رقم:238)

کیوں کہ نماز عصر، دن کی دو نمازوں فجر وظہر اور رات کی دو نمازوں مغرب وعشاء کے بیچ میں آتی ہے۔ علامہ ابن کثیر رحمہ الله تعالی نے صلوة وسطی سے صلوة عصر کی مراد پر اہل علم کااجماع نقل کیا ہے ۔ ( تفسیر ابن کثیر، البقرة تحت آیة رقم:238) اس کی حفاظت کی تاکید اس لیے کی گئی کہ یہ وقت سورج ڈھلنے کا ہے، جس میں دن بھر کی تمام سرگرمیاں اپنی اختتامی مراحل میں آکر عروج پر پہنچ جاتی ہیں اور نماز ضائع ہو نے کے مواقع بکثرت پیش آتے ہیں۔

خوف کی حالت میں نماز کی ادائیگی کا حکم
﴿فَإنْ خِفْتُمْ فَرِجَالاً أَوْ رُکْبَاناً﴾… پنج وقتہ نماز فرض کس قدر اہمیت رکھتی ہے؟ اس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ عین حالت جنگ میں بھی نماز ترک کرنے کی اجازت نہیں، جہاں ہر لمحے جان کو خطرہ درپیش رہتا ہے ۔ الله تعالیٰ نے ایسے ماحول میں کچھ آسانیاں اور سہولتیں بھی رکھ دی ہیں ۔ قرآن کریم میں بحالت خوف نماز پڑھنے کا تذکرہ دو بار آیا ہے، سورة نساء کی آیت:102، میں باجماعت نماز کا بیان ہے اور یہاں انفرادی نماز کا تذکرہ ہے، اگر میدان جنگ میں دشمن کی کارروائی کا خطرہ ہو تو نماز زمین اور سواری دونوں پر پڑھی جاسکتی ہے، قبلہ رخ ہونا بھی ضروری نہیں ، رکوع او رسجدہ مشکل ہو جائے تو اشارے سے بھی نماز پڑھی جاسکتی ہے، بس سجدے کا اشارہ رکوع کی بنسبت زیادہ جُھک کر کرے ۔ اگر قیام بھی مشکل ہو جائے تو نماز قضا کرکے بعد میں ادا کی جائے احناف کے ہاں چلتے ہوئے نماز خوف پڑھنا جائز نہیں۔ (احکام القرآن للجصاص، البقرة تحت آیة رقم:239)البتہ امام شافعی رحمہ الله تعالیٰ نے اس کی بھی اجازت مرحمت فرمائی ہے۔ ( تفسیر الامام الشافعی رحمہ الله، البقرة تحت آیة رقم:239)

وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنکُمْ وَیَذَرُونَ أَزْوَاجاً وَصِیَّةً لِّأَزْوَاجِہِم مَّتَاعاً إِلَی الْحَوْلِ غَیْْرَ إِخْرَاجٍ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْْکُمْ فِیْ مَا فَعَلْنَ فِیَ أَنفُسِہِنَّ مِن مَّعْرُوفٍ وَاللّہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ، وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ حَقّاً عَلَی الْمُتَّقِیْنَ،کَذَلِکَ یُبَیِّنُ اللّہُ لَکُمْ آیَاتِہِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ﴾․(سورہ بقرہ ،آیت:241-240)
اور جو لوگ تم میں سے مرجاویں اور چھوڑ جاویں اپنی عورتیں تو وہ وصیت کر دیں اپنی عورتوں کے واسطے خرچ دینا ایک بر س تک، بغیر نکالنے کے گھر سے، پھر اگر وہ عورتیں آپ نکل جاویں تو کچھ گناہ نہیں تم پر اس میں کہ کریں وہ عورتیں اپنے حق میں بھلی بات اور الله زبردست ہے حکمت والا اور طلاق دی ہوئی عورتوں کے واسطے خرچ دینا قاعدہ کے موافق لازم ہے پرہیز گاروں پر اسی طرح بیان فرماتا ہے الله تمہارے واسطے اپنے حکم ،تاکہ تم سمجھ لو

تفسیر:مطلقہ کو جوڑا دینا مستحب ہے
﴿وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْن﴾… ابتدائے اسلام میں بیوہ کا میراث میں کوئی حصہ مقرر نہ تھا، عدت بھی ایک سال تھی ، نان ونفقے کی مکمل ذمے داری شوہر کے ورثا پر عائد تھی، آیت میراث نازل ہونے کے بعد ان کا حصہ بھی مقرر ہوا اور عدت بھی چار مہینے دس دن ٹھہرا دی گئی، تب سے اس آیت کا حکم بھی منسوخ ہو گیا۔ (وللمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌ) اس آیت سے ہدایت دی جارہی ہے کہ مطلقہ عورتوں کے ساتھ حسن سلوک اختیار کیا جائے، ان کے حقوق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ایک جوڑا بھی تحفتاً دے دیا جائے۔ یہ استحباب کا درجہ ہے، البتہ جس عورت کا مہر مقرر نہ ہوا ہو اورصحبت یا خلوت صحیحہ سے قبل طلاق دے دی گئی ہو اسے جوڑا دینا واجب ہے ۔

﴿کَذَلِکَ یُبَیِّنُ اللّہُ﴾… الله تعالیٰ اپنے بندوں پر اپنی رحمت اوراپنے احسان کی طرف متوجہ فرمارہے ہیں کہ نکاح وطلاق اور عدت کے واضح احکام بیان فرمادیے ہیں، جس پر عمل کرکے خدا کی خوش نودی حاصل کی جاسکتی ہے۔ لہٰذا اسے سمجھو اور اس پر عمل کرو۔نکاح وطلاق کے احکام یہاں ختم ہو گئے ہیں۔(جاری)

استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ

الفاروق میگزین، ربیع الاول 1437 مطابق دسمبر 2015ء
جامعہ فاروقیہ کراچی

baloch

Recent Posts

دارالعلوم مکی زاہدان کے استاد کو رہا کر دیا گیا

مولوی عبدالحکیم شہ بخش، دارالعلوم زاہدان کے استاد اور "سنی آن لائن" ویب سائٹ کے…

5 months ago

زاہدان میں دو دینی مدارس پر سیکورٹی حملے کے ردعمل میں دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ کا بیان

دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ نے زاہدان میں دو دینی مدارس پر سکیورٹی اور فوجی دستوں…

5 months ago

زاہدان میں دو دینی مدارس پر سکیورٹی فورسز کے حملے میں درجنوں سنی طلبہ گرفتار

سنی‌آنلاین| سیکورٹی فورسز نے آج پیر کی صبح (11 دسمبر 2023ء) زاہدان میں دو سنی…

5 months ago

امریکہ کی جانب سے غزہ جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کرنا ایک “انسانیت سے دشمنی” ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکہ کی طرف سے…

5 months ago

حالیہ غبن ’’حیران کن‘‘ اور ’’مایوس کن‘‘ ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے آج (8 دسمبر 2023ء) کو زاہدان میں نماز جمعہ کی…

5 months ago

دنیا کی موجودہ صورت حال ایک “نئی جہاں بینی” کی متقاضی ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے ایک دسمبر 2023ء کو زاہدان میں نماز جمعہ کی تقریب…

6 months ago