طرز ہاے حکومت کا مطالعہ کریںتو ہمیں بہت سے نظامِ حکومت نظر آئیں گے۔ دنیا میں اشرافیہ حکومت بھی رہی ہے،خلافت کا زمانہ بھی اہلِ دنیا دیکھ چکے ہیں۔

بادشاہت اور آمریت کا دور بھی گزر چکا ہے۔ اگرچہ اب بھی بعض ممالک میں آخر الذکر دو نظام کسی نہ کسی صورت میں رائج ہیں تاہم موجودہ دور میں جمہوری نظامِ حکومت مقبولیت پا چکا ہے۔ تقریبا سبھی ممالک میں جمہوریت رائج ہے۔
جمہوریت کے بل بوتے پر قائم ہونے والی حکومت کو عرفِ عام میں عوامی حکومت تصور کیا جاتا ہے۔لیکن دوسری طرف یونان کے مشہور سیاسی مفکر ارسطو جمہوریت کا شمار بری حکومتوں کی فہرست میں کرتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جمہوریت ”ہجوم کی حکمرانی“ کا نام ہے۔

جمہوری نظامِ حکومت کی خوبیاں اور خامیاں روزِ اول سے موضوع بحث بنی ہوئی ہیں۔ لیکن حال ہی میں برٹش کونسل کی طرف سے کیے جانے والے ایک سروے نے پاکستانی نوجوان نسل کی سوچ کا دھارا سب پر واضح کردیا ہے۔ معروف برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے برٹش کونسل کی سروے رپورٹ کو نشر کیا ہے۔ جس کا کہنا ہے کہ پاکستانی نوجوانوں کی اکثریت نے موجودہ جمہوریت کو اپنے ملک کے لیے درست نظامِ حکومت تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ سروے کے دوران اٹھارہ سے انتیس سال کی عمر والے افراد سے معلومات حاصل کی گئیں تو 94 فیصد نوجوانوں کا کہنا تھا کہ ملک غلط سمت میںجا رہا ہے۔

تعجب کی بات یہ ہے کہ اگلے ماہ ملک میں عام انتخابات منعقد ہوں گے، جس میں نوجوان نسل کو تبدیلی کے لیے کلیدی کردار کا حامل تصور کیا جا رہا ہے۔ ملک میں رجسٹرڈ کیے جانے والے ووٹوں کی ایک تہائی تعداد نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ لیکن جمہوریت کے حق میں رائے دینے والے صرف تیرہ فیصد نوجوان تھے، اکثریت نے اسلامی نظامِ حکومت کو بہترین سیاسی نظام قرار دیا ہے۔ بی بی سی نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ سروے ایک قنوطی (مایوس) نسل کی تصویر کشی کرتا ہے جو گزشتہ پانچ سالہ جمہوری دور سے ذرا بھی خوش اور مطمئن نہیں ہے۔ 2007 ءکے سروے میں ایسے نوجوانوں کی تعداد پچاس فیصد تھی جو موجودہ نظام سے بے زار تھے لیکن اب وہ بڑھ کر 94 فیصد ہو چکی ہے۔

اس سروے کے تناظر میں یہ کہنا مشکل ہے کہ جمہوریت کے بل بوتے پر قائم ہونے والی حکومت عوام کی نمائندہ حکومت ہے۔ اگر گذشتہ انتخابات کو دیکھا جائے تو یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان گزشتہ پانچ سال تک اقلیت کی حکمرانی میں رہا ہے۔ الیکشن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق 2008 ءکے عام انتخابات میں 55.89 فیصد ووٹروں نے اپنا حق رائے دہی استعمال ہی نہیں کیا تھا۔ قومی اسمبلی کے ممبران صرف 44.11 فیصد ووٹوں پر منتخب ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ اس بار بیلٹ پیپر میں خالی خانہ بھی رکھا جائے تاکہ ووٹر تمام امیدواروں کو مسترد بھی کرسکے۔ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ماضی کے انتخابات میں ایسا بھی ہوا ہے کہ دس اور پندرہ فیصد ووٹ حاصل کرنے والے بھی کامیاب ہوکر اکثریت کی نمائندگی کا اختیار حاصل کرتے رہے ہیں۔ اس لیے ”NO “ کا خانہ شامل کرنا ضروری ہے تاکہ عوام کے نقطہ نظر کو باآسانی جانچہ جاسکے۔ لیکن سیاست دانوں کی مخالفت کے باعث بیلٹ پیپر میں ”NO “ کا خانہ شامل نہیں کیا جاسکا۔

برٹش کونسل کے سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ نوجوانوں میں اب ”تیسرا بلاک“ مقبول ہوتا جارہا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد گزشتہ صدی کے نصفِ آخر میں جب دنیا امریکی اور روسی بلاک میں تقسیم ہوئی تو مسلمان تیسرے بلاک کی حیثیت سے نمودار ہوئے۔ لیکن انہیں مسلسل نظر انداز کیا جاتا رہا۔ جب سوویت یونین طاقتور بلاک کی حیثیت سے دنیا کے افق پر چھایا ہوا تھا تو ہر طرف اشتمالیت (Communism) کے نعرے لگ رہے تھے۔ لیکن 1991ءمیں سوویت یونین کے پندرہ ٹکڑوں میں تقسیم ہونے کے ساتھ ہی کمیونزم کا نظریہ بھی پارہ پارہ ہوگیا۔ اب امریکہ ”واحد سپر پاور“ کی حیثیت سے دنیا پر ”نیو ورلڈ آرڈر“ چلانے لگا۔ امریکن بلاک نے کمیونزم کے مقابلے میں سرمایہ دارانہ نظام (Capitalism ) کے نظریے کو پروان چڑھایا۔ اہلِ دنیا بھی چڑھتے سورج کے پجاری ہیں۔ انہوں نے سیاست و معیشت سے لے کر تہذیب و تمدن تک ہر موڑ پر ”سپر پاور“ کے نقشِ قدم پر چلنے کو پسند کیا۔ بالآخر دہشت گردی کے خلاف جاری نام نہاد جنگ کی طوالت اور وسعت نے امریکی نیو ورلڈ آرڈر کا ستیاناس کرکے سرمایہ داریت کا سفینہ بھی ڈبو دیا۔

لامحالہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کا انتخاب اب اسلامی نظامِ حکومت ہوگا۔ کیونکہ یہی وہ نظام ہے جو دنیا کو راحت و سکون دے سکتا ہے۔ دیگر سیاسی نظام جو ناکام ہو چکے ہیں وہ انسانی سوچ کی پیداوار تھے۔ لہٰذا ان نظاموں کا ناکام ہونا یقینی تھا۔ پاکستان کی نوجوان نسل فیصلہ دے چکی ہے کہ ”ہجوم کی حکمرانی“ کے باعث ملک غلط سمت میں جا رہا ہے۔ ہمیں اسلام کا سیاسی نظام اختیار کرنا چاہئے۔ اب دیکھنا یہ ہے اربابِ اختیار اس نتیجے پر کب پہنچتے ہیں…… ؟

فاروق اعظم

بشکریہ “کراچی اپڈیٹس”

 

modiryat urdu

Recent Posts

دارالعلوم مکی زاہدان کے استاد کو رہا کر دیا گیا

مولوی عبدالحکیم شہ بخش، دارالعلوم زاہدان کے استاد اور "سنی آن لائن" ویب سائٹ کے…

5 months ago

زاہدان میں دو دینی مدارس پر سیکورٹی حملے کے ردعمل میں دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ کا بیان

دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ نے زاہدان میں دو دینی مدارس پر سکیورٹی اور فوجی دستوں…

5 months ago

زاہدان میں دو دینی مدارس پر سکیورٹی فورسز کے حملے میں درجنوں سنی طلبہ گرفتار

سنی‌آنلاین| سیکورٹی فورسز نے آج پیر کی صبح (11 دسمبر 2023ء) زاہدان میں دو سنی…

5 months ago

امریکہ کی جانب سے غزہ جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کرنا ایک “انسانیت سے دشمنی” ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکہ کی طرف سے…

5 months ago

حالیہ غبن ’’حیران کن‘‘ اور ’’مایوس کن‘‘ ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے آج (8 دسمبر 2023ء) کو زاہدان میں نماز جمعہ کی…

5 months ago

دنیا کی موجودہ صورت حال ایک “نئی جہاں بینی” کی متقاضی ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے ایک دسمبر 2023ء کو زاہدان میں نماز جمعہ کی تقریب…

5 months ago