Categories: مشرق وسطی

شامی صدر کا عبوری حکومت میں کوئی کردار نہیں ہو گا: الاخضر الابراہیمی

اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے شام کے لیے مشترکہ امن ایلچی الاخضر الابراہیمی نے کہا ہے کہ شامی صدر بشار الاسد کا ملک کی عبوری حکومت میں کوئی کردار نہیں ہو گا۔
انھوں نے یہ بات قاہرہ میں برطانوی خبر رساں ادارے رائیٹرز کے ساتھ بدھ کو ایک انٹرویو میں کہی ہے۔انھوں نے اپنی بات کو دُہراتے ہوئے کہا کہ ”بشار الاسد یقینی طور پر عبوری دور کے لیے حکومت میں شامل نہیں ہوں گے”۔

انھوں نے اپنے اس موقف کا اعادہ کیا کہ گذشتہ سال جنیوا میں عالمی طاقتوں نے شامی بحران کے حل کے لیے جس منصوبے پر اتفاق کیا تھا، اس کی بنیاد پر اب بھی اس تنازعے کو طے کیا جا سکتا ہے۔

عالمی ایلچی نے کہا کہ شامی بحران کا کوئی فوجی حل نہیں ہے اور اس کے حل کے لیے سال 2014ء تک انتظار نہیں کیا جانا چاہیے بلکہ یہ تنازعہ 2013ء ہی میں طے ہونا چاہیے۔ انھوں نے شامی صدر کے گذشتہ اتوار کو پیش کردہ امن منصوبے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ”اس مرتبہ انھوں نے جو کچھ کہا ہے، وہ کوئی مختلف یا نئی بات نہیں اور یہ بہت زیادہ فرقہ وارانہ اور یک طرفہ ہے”۔

قبل ازیں الاخضر الابراہیمی نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اب شامیوں کے درمیان بہت سے پیچیدہ مسائل پیدا ہو چکے ہیں اور انھیں اب ایک دوسرے سے ہی تنازعے کے حل کے لیے بات چیت کرنی چاہیے۔ ان کے بہ قول اب شام میں لوگ یہ باتیں بھی کررہے ہیں کہ ملک میں گذشتہ چالیس سال سے ایک ہی خاندان کی حکومت چلی آ رہی ہے۔

شامی حزب اختلاف نے عالمی ایلچی کے صدر بشارالاسد کے بارے میں اس موقف کا خیرمقدم کیا ہے کیونکہ انھوں نے واضح لفظوں میں بشار الاسد سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کیا ہے۔ برطانیہ میں شامی حزب اختلاف کے قومی اتحاد کے نمائندے ولید صفور نے کہا کہ الاخضر الابراہیمی کے اس طرح کے بیان کا ایک طویل عرصے سے انتظار کیا جا رہا تھا۔

اقوام متحدہ اورعرب لیگ کے مشترکہ ایلچی نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ”شام میں حالات روز بروز بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں،ابتری کی رفتار بہت تیز ہے لیکن جون میں جنیوا میں طے پائے امن منصوبے کے تحت شامی بحران کا حل اب بھی ممکن ہے”۔انھوں نے کہا کہ ”اگر بحران کا جلد کوئی حل تلاش نہ کیا گیا تو شامی ریاست ختم ہوجائے گی، ملک جہنم زارمیں تبدیل ہو کر ایک نیا صومالیہ بن جائے گا۔اس لیے نئے سال 2013ء میں شامی بحران کی دوسری برسی سے قبل اس کا حل تلاش کیا جانا چاہیے”۔

واضح رہے کہ جنیوا منصوبے میں جنگ بندی کے بعد نئی حکومت کی تشکیل تجویز پیش کی گئی تھی اور اس کے بعد یہ حکومت نئے صدر یا پارلیمان کے انتخاب کے لیے اقدامات کرے گی لیکن اس میں صدر بشار الاسد کے مستقبل کے حوالے سے کچھ نہیں کہا گیا تھا۔ عالمی امن ایلچی کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کی بنیاد پر شام میں امن عمل شروع کیا جاسکتا ہے۔

قاہرہ
العربیہ ڈاٹ نیٹ، ایجنسیاں

modiryat urdu

Recent Posts

دارالعلوم مکی زاہدان کے استاد کو رہا کر دیا گیا

مولوی عبدالحکیم شہ بخش، دارالعلوم زاہدان کے استاد اور "سنی آن لائن" ویب سائٹ کے…

5 months ago

زاہدان میں دو دینی مدارس پر سیکورٹی حملے کے ردعمل میں دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ کا بیان

دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ نے زاہدان میں دو دینی مدارس پر سکیورٹی اور فوجی دستوں…

5 months ago

زاہدان میں دو دینی مدارس پر سکیورٹی فورسز کے حملے میں درجنوں سنی طلبہ گرفتار

سنی‌آنلاین| سیکورٹی فورسز نے آج پیر کی صبح (11 دسمبر 2023ء) زاہدان میں دو سنی…

5 months ago

امریکہ کی جانب سے غزہ جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کرنا ایک “انسانیت سے دشمنی” ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکہ کی طرف سے…

5 months ago

حالیہ غبن ’’حیران کن‘‘ اور ’’مایوس کن‘‘ ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے آج (8 دسمبر 2023ء) کو زاہدان میں نماز جمعہ کی…

5 months ago

دنیا کی موجودہ صورت حال ایک “نئی جہاں بینی” کی متقاضی ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے ایک دسمبر 2023ء کو زاہدان میں نماز جمعہ کی تقریب…

6 months ago