Categories: اسلام

سیدنا عمر فاروق ؓکی زندگی اک نظرمیں

دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی آئے جنہوں نے اپنی دانشمندی،عمل پیہم،جرات وبہادری اورلازوال قربانیوں سے ایسی تاریخ رقم کر گئے کہ قیامت تک ان کے کارنامے لکھے اورپڑھے جاتے رہیں،ان ہی میں سے ایک شخصیت جن کے بارے میں دوجہاں کے شہنشاہ حضرت محمد صلى الله عليہ وسلم نے فرمایا تھا کہ”اگرمیرے بعد کوئے نبی ہوتا تو عمر فاروق ہوتے”۔

آپ کے دور خلافت میں اسلامی سلطنت کی حدود 22لاکھ مربع میل تک پھیلی ہوئی تھیں،اس کے انداز حکمرانی کو دیکھتے ہوئے ایک غیرمسلم یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ”اگرعمرکو10 سال اور ملتے تو دنیا سے کفر کا بالکل نام ونشان تک نہ ملتا”۔
ان کا نام مبارک عمر، لقب فاروق،کنیت ابو حفض، جو کہ دونوں رسول خداکے عطیے ہیں۔آپ کا نسب نویں پشت میں جاکر رسول اکرم صلى الله عليہ وسلم سے ملتا ہے۔
ولادت سراپا بشارت آپؓ کی واقعہ فیل کے 13برس بعدہوئی، نبوت کے چھٹے سال27برس کی عمرمیںاسلام قبول کیا،ان سے پہلے گیارہ عورتیں اورچالیس مردمشرف بااسلام ہوچکے تھے ، قریش کے شریف ترین لوگوں میں شمار کیے جاتے تھے ،زمانہ جاہلیت میں سفارت کا کام انہی کے متعلق تھا ،جب قریش کو کسی لڑائی میںےا کسی اور ایسے موقع پرکسی سفیرکے بھیجنے کی ضروت ہوتی تو یہی سفیر بنائے جاتے،عرب میںاس وقت صرف17 فراد پڑھے لکھے تھے انہی میں ایک آپ بھی تھے۔
جب آپ مسلمان ہونے کے لیے حاضرہوئے تورسول اللہ نے چند قدم اپنی جگہ سے چل کر معانقہ کیا اور ان کے سینے پرتین مرتبہ ہاتھ پھیر کر دعا دی کہ”ًًًً اے اللہ ان کے سینے سے کینہ اور عداوت کو نکال دے اورایمان سے بھر دے ”آپؓ کے اسلام لانے پر جبرائیل ؑامین مبارکباد دینے کے لیے آئے اور رسول اللہ سے کہا کہ” ےارسول اللہ اس وقت آسمان وا لے ایک دوسرے کو جناب عمرؓ کے اسلام لانے کی خوشخبری سنا رہے ہیں”۔
آپ کے اسلام لانے پر مسلمانوں کی قوت میں اضافہ ہوا اور مسلمانوں نے اعلان کے ساتھ خانہ کعبہ میں نماز پڑھنی شروع کر دی،آپ نے حضرت بلالؓ کو کعبہ کی چھت پر کھڑا کر کے اذان دلوائی اور جب ہجرت کرنے کا وقت آیا تو بڑی شان کے ساتھ ہجرت کی آپ ؓ کے علاوہ کسی نے بھی اس طرح ہجرت نہیں کی آپ نے کفار کو للکارا اور کعبہ کا طواف کرنے کے بعد مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے فرماےا تھاکہ” حضرت عمر ؓ کا مسلمان ہو جانا فتح اسلام تھا اور ان کی ہجرت نصرت الٰہی تھی اور ان کی خلافت اللہ کی رحمت تھی”۔شجاعت وبہادری میں اپنی مثال آپؓ تھے ،غزوہ بدر میں اپنے حقیقی ماموں عاص بن ہشام کو میدان جنگ میں اپنے ہاتھ سے قتل کیا،غزوہ بنی مطلق میں مقدمہ لشکرآپ کی ما تحتی میں تھا،اس غزوہ میںآپ نے دشمن کے ایک جاسوس کو گرفتار کر کے دشمن کی تمام چالیں معلوم کر لیں،غزوہ خیبر میں میمنہ لشکر کے افسر آپ ہی تھے اس غزوہ میں ہر رات ایک صحابی پہرہ دیتا تھا، جس رات آپ کی باری تھی آپ نے ایک یہودی کو گرفتار کیا اور تمام حالات اس سے معلوم کر لیے ان پر عمل کر کے خیبر کوفتح کیاگیا۔غزوہ حنین میں جماعت مہاجرین کا ایک جھنڈا آپ کے سپرد تھا،رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کا جنازہ نہ پڑھانے کا مشورہ آپؓ نے رسول اللہ کو دیا تھا،اکثر وحی آپؓ کی تائید میں نازل ہوتی،مزاج مبارک میں حضرت موسیٰ ؑجیسی کیفیت تھی ساری زندگی غصہ اپنی ذات کے لیے کبھی نہ کیا،اگر غصے کے دوران میں کوئی شخص اللہ کا نام ےا قرآن مجید کی کوئی آیت پڑھ دیتا تو آپ فوراغصہ ختم کر دیتے تھے ایسے جیسے غصہ آےا ہی نہ تھا۔
تمام زمانہ خلافت میں کبھی خیمہ آپ کے پاس نہ رہا ،سفر میں منزل پر پہنچ کردھوپ ےابارش سے بچنے کے لیے کسی درخت پر کپڑاتان کرگزارہ کر لیتے تھے۔عمرے اپنی خلافت میں3 کیے۔اپنی مملکت میں ہرایک کا خیال رکھتے تھے حتیٰ کہ جن عورتوں کے خاوندجہاد کے لیے گئے ہوتے تو ان کے دروازوں پرجاکر سلام پیش کرتے،ان کے لیے سودا سلف خرید کر لاتے اورجن کے پاس پیسہ نہ ہوتا اپنے پاس سے لے کر دیتے،جب فوجی لوگوں کے خط آتے تو خودگھروں میںجا کر دیتے ،اگر گھر میںپڑھنے والا کوئی نہ ہوتا تو دروازے کے پیچھے کھڑے ہوکرخودسناتے اور ان سے کہہ آتے کہ ڈاک فلاں دن جائے گی آپ خط لکھ رکھنامیںآکرلے جاﺅںگا،خودکاغذ قلم اور دوات لے کرہرگھر میں جاتے جس نے لکھواےا ہوتا لے لیتے اوراگر نہ لکھواےا ہوتا پوچھ کر خود لکھ دیتے۔
بیت المال سے وظائف کی تقسیم کا آپ نے عجیب انتظام فرماےااور اس کے لیے علیحدہ دفتر بناےا ،تمام مسلمانوں کے نام اس میں لکھوائے اورسب سے زیادہ رسول اکرم کی قرابت کا لحاظ کیا،حضرت عباسؓ کا وظیفہ 12 ہزار،ازواج مطہراتؓ10،10 ہزار جبکہ ان میںحضرت عائشہ ؓ کا 12 ہزارمقررکیا،بدری صحابہؓ کا5ہزار،انصار کا4ہزار،مہاجرین کابھی 4ہزار۔حضرت عمرؓ رسول اکرم کے رشتے داروں کا بہت خیال رکھتے تھے اسی لیے اپنے بیٹے عبداللہ بن عمرؓکا وظیفہ 3ہزار اور حسنین کریمینؓ کا 5،5 ہزار،اور اسامہ بن زید کا4 ہزار مقرر فرماےا۔
آپ کے بہت سے اعزازات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ وہ پہلی شخصیت ہیں جنہیں امیرالمومنین کا لقب دیاگیا،17 ہجری میں مسجدنبوی اورمسجدحرام میں توسیع کی اورمسجد نبوی کے لکڑی کے ستون نکال کراینٹ کے ستون لگادیے۔زمین پر موجود انسانوں کے علاوہ بھی اگر آپ نے ہوا کو حکم دیا تو اس نے مانا قبرستان میں مردوں کو مخاطب کیاتوانہوںنے جواب دیا،دریا کو خط لکھا تو اس نے عمل کیا،اگر کہیں سے آگ نکلی جو لوگوں کو نقصان پہنچا رہی تھی تواس کو اپنے ہاتھ سے دھکیلاتو وہ ڈرکرہاتھ باندھتے ہوئے واپس بھاگ گئی اورزلزلے کی وجہ سے زمین ہلی تو اس کو ایک کوڑا رسید کیا تو ابھی تک وہ زمین ایک کوڑے کی شدت کے ڈر سے دوبارہ نہ ہلی اور جب بارش کودعا کے ذریعے بلاےا تو پوری خوشی اور آب وتاب کے ساتھ آپ کی طرف برستی ہوئی آئی۔
حضرت انس ؓفرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ رسول اکرم کے ساتھ تھا کہ اتنے میں حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ دور سے آتے دکھائی دیے،انہیں دیکھ کر حضور اکرم نے دیکھ کر فرماےا!”یہ انبیا ءاوررسولوں کے سواءباقی تمام بڑی عمر والے جنتیوں کے سردار ہیں”۔(مشکوٰة)
حضرت عمرؓ نے ہر صیغہ میں جو نئی اصطلاحات کیں،مؤرخین انہیں اولیات عمر ؓ سے تعبیر کرتے ہیں۔جن میں سے کچھ یہ ہیں۔بیت المال کا قیام ،عدالتیں،اور قاضی مقرر کیے ،تاریخ اورسن کا اجرائ،فوجی دفتر کی ترتیب ،دفتر مال کا قیام ،پیدائش کا اندراجی طریقہ کار،ملازمین کی تنخوائیں ،مردم شماری،نہریں کھدوائیں،شہر آبادکرائے،ممالک میںصوبوں کی تقسیم ،جیل خانہ کا قیام ،پولیس کا محکمہ قائم کیا،راتوں کو گشت شروع کیا،فوجی چھاﺅنیاں تعمیر کیں،پرچہ نویس مقرر کیے،مسافروں کے لیے سرائے اورراہ پڑے ہوئے بچوں کے لیے وظائف جاری کیے،مکاتب قائم کیے،شراب کی حد اسی کوڑے جاری کی،وقف کا طریقہ ایجاد کیا،مساجد میں وعظ کاطریقہ جاری کیا،اماموں اورموذنوں کی تنخوائیں مقرر کیں،مسجدوں میں روشنی کا انتظام کیا ۔
حضرت عمرؓ 10برس 6مہینے 5دن خلافت کو زینت بخشی 27ذوالحجہ برز چہار شنبہ کی صبح کومسجد تشریف لائے اورصفوں کو درست کرنے کے بعد نماز کی امامت شروع کی تو آپؓ پر ابو لو ءلوءفیروز نامی یہودی نے حملہ کیاآپؓ کے گرنے کے بعد حضرت عباسؓ نے عبدالرحمن ؓ بن عوف کو ہاتھ سے پکڑکر آگے کر دیا تو انہوں نے نماز مکمل کرائی۔یہودی ابولولو فیروزنے حضرت عمرفاروقؓ پر حملہ کرنے کے بعد دائیں بائیں نماز میں کھڑے لوگوں پر وار کیا جس سے 13افراد زخمی ہوئے ،جن میںسے 9بعد میں شہید ہو گئے۔
یکم محرم کو اتوار والے دن آپؓ کو حضرت عائشہ ؓ کے حجرہ مبارک میں رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم اور حضرت ابو بکرؓکے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔آپؓ کی نمازجنازہ حضرت صہیبؓ نے پڑھائی جبکہ حضرت عثمان غنیؓ، حضرت علیؓ،حضرت زبیرؓ،حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ،حضرت سعدؓ اور عبداللہ ؓبن عمرنے قبر مبارک میں اتارا ۔
جب آپ کا جنازہ لایا گیا توحضرت علیؓ نے فرمایا کہ”مجھے پہلے سے ہی خیال تھا کہ آپ دونوں کا مدفن بھی رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم کے ساتھ ہوگا،کیونکہ میں سنا کرتا تھا کہ آنحضرت صلى الله عليہ وسلم ہربات میں اپنے ذکر کے ساتھ آپ دونوں کا ذکر کیا کرتے تھے،اورمیںاللہ سے دعا مانگا کرتاتھا کہ یااللہ جیسا نامہ اعمال عمر بن خطابؓ کا ہے میرا نامہ اعمال بھی ایسا ہو۔

شاہد اقبال شامی
(بہ شکریہ اداریہ اردوپاور)

modiryat urdu

View Comments

Recent Posts

دارالعلوم مکی زاہدان کے استاد کو رہا کر دیا گیا

مولوی عبدالحکیم شہ بخش، دارالعلوم زاہدان کے استاد اور "سنی آن لائن" ویب سائٹ کے…

5 months ago

زاہدان میں دو دینی مدارس پر سیکورٹی حملے کے ردعمل میں دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ کا بیان

دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ نے زاہدان میں دو دینی مدارس پر سکیورٹی اور فوجی دستوں…

5 months ago

زاہدان میں دو دینی مدارس پر سکیورٹی فورسز کے حملے میں درجنوں سنی طلبہ گرفتار

سنی‌آنلاین| سیکورٹی فورسز نے آج پیر کی صبح (11 دسمبر 2023ء) زاہدان میں دو سنی…

5 months ago

امریکہ کی جانب سے غزہ جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کرنا ایک “انسانیت سے دشمنی” ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکہ کی طرف سے…

5 months ago

حالیہ غبن ’’حیران کن‘‘ اور ’’مایوس کن‘‘ ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے آج (8 دسمبر 2023ء) کو زاہدان میں نماز جمعہ کی…

5 months ago

دنیا کی موجودہ صورت حال ایک “نئی جہاں بینی” کی متقاضی ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے ایک دسمبر 2023ء کو زاہدان میں نماز جمعہ کی تقریب…

6 months ago