ساری دنیا کے لوگوں کو اور خود امریکہ کے لوگوں کو یہ توقع تھی کہ جب اوباما صدر بن جائیں گے تو امریکہ کی خارجہ پالیسی اور عسکری مہم جوئی کی پالیسی میں بڑی تبدیلی آئے گی لیکن وہ اپنے پیشرو کی پالیسیوں میں تبدیلی لانے میں ناکام ہوگئے۔

اس کی ایک بڑی وجہ تو یہ تھی کہ وہ پہلے سیاہ فام صدر ہیں اور نفسیاتی طور پر وہ اپنے گرد موجود سفیدفام پالیسی میکرز اور اہم عہدیداروں کے سامنے کھل کر اور مضبوطی سے پیر نہیں جما سکے، ان کا وزیر دفاع وہی ہے جو ان کے پیشرو صدر کا تھا ان کی وزیر خارجہ ہے تو ڈیموکریٹ، لیکن وہ ان کے سامنے عہدہ صدارت کی امیدوار تھی ۔ اس طرح سے وہ اپنے مخالفین کے درمیان گھرے ہوئے ہیں اور ان کے یہ مخالفین ان کو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
ہمیں یہ بات اچھی طرح یاد ہے کہ جب صدر اوباما ببانگ دہل یہ کہہ رہے تھے کہ وہ 2011ء کے وسط تک عراق اور افغانستان سے فوجیں واپس بلا لیں گے لیکن افغانستان میں ٹاسک مکمل کرنا تو دور کی بات وہ اس کے قریب بھی نہیں پہنچے ہیں اور اب وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی راہ پر چل رہے ہیں ۔ اب ہر طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ افغانستان کا حل مذاکرات میں ہے۔ امریکہ کے جنگی ماہرین بھی اب یہ کہنے لگے ہیں کہ طاقت کا استعمال اور جنگجوانہ پیشرفت اس کا حل نہیں ہے اور اب امریکہ طالبان سے مذاکرات کیلئے ہاتھ پیر مار رہا ہے۔ میں نے 29/ اگست 2001ء میں اپنے ایک کالم میں جس کا عنوان تھا ”نئے امریکی سفیر کی آمد“ دلیل و برہان کے ساتھ یہ بات لکھی کہ ”اسامہ بن لادن کے بارے میں افغانستان اور پاکستان پر دباؤ ڈالنا سودمند نہیں ہوگا اس سے بہتر یہ ہے کہ امریکہ براہ راست اسامہ سے مذاکرات کرے اور تنازعے کی جڑ تک پہنچنے کی کوشش کی جائے تاکہ مسئلے کا حل نکل سکے“۔ اس وقت امریکیوں کے ذہن میں یہ مفروضہ تھا کہ وہ طاقت کے استعمال سے کامیابی حاصل کر لیں گے حالانکہ ان کے سامنے روس کی شکست کا نقشہ تھا۔ میں نے پہلے بھی یہ لکھا کہ افغانستان پر امریکی فوجی یلغار اس صدی کی سب سے بڑی غلطی ہے آج یہ بات صحیح ثابت ہو رہی ہے امریکہ افغانستان سے نکلنے کے لئے کبھی سعودی عرب کی طرف دیکھتا ہے،کبھی پاکستان کی طرف۔ امریکہ جتنی جلدی افغانستان سے نکلنے کا فیصلہ کرلے یہ اس کے لئے اور علاقے کے امن کے لئے بہتر ہے۔ افغانستان میں طالبان کی پوزیشن مضبوط ہے اس کا اندازہ طالبان قیادت کے اس موقف سے ہوتا ہے کہ وہ مذاکرات کیلئے آمادہ نہیں ہیں امریکہ نے وہاں فوجی کمک بھی بھیجی لیکن وہ اب تک قندھار میں جہاں وہ آپریشن کر رہے ہیں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں امریکہ نے سابق صدر کے دور میں بھی افغانستان پر حملے کے منفی پہلوؤں پر غور نہیں کیا اور اب صدر اوباما کے دور میں بھی وہ اسی پرانی غلطی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ افغانستان میں کرزئی حکومت امریکہ کے لئے ایک کمزور حلیف ثابت ہوئی ہے وہ جن لوگوں کے ذریعے مذاکرات کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں وہ کمزور لوگ ہیں ان میں کئی تو پشاور میں تھے اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کرزئی حکومت مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے میں کامیاب نہیں ہوگی۔ افغانستان اور امریکہ دونوں حقانی نیٹ ورک سے خوفزدہ ہیں جو ظاہر میں ملا عمر کے مضبوط حلیف ہیں۔ یہ ایک عام تاثر پایا جاتا ہے کہ پاکستان کی کوششیں امریکہ اور نیٹو فورسز کو افغانستان سے نکلنے کا محفوظ راستہ دلا سکتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان ایک مضبوط پلیٹ فارم سے ان کی مذاکرات کی رہنمائی کرسکتا ہے۔
امریکی فرسٹریشن میں یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ پاکستان شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے ان کا یہ مطالبہ اپنی کمزوریوں اور افغانستان میں اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لئے ہوسکتا ہے۔ امریکہ نے جب افغانستان کی جنگ کو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پہنچانے کی پالیسی اپنائی تو میں نے بروقت سابق صدر پرویز مشرف کو انہی کالموں میں ہوشیار کیا کہ امریکہ پاکستان کے خلاف سازش کر رہا ہے اور وہ پاکستان کو قبائلی علاقوں میں جنگ میں الجھانا چاہتا ہے لیکن اس وقت کی حکومت اس کو روکنے کیلئے کوئی موثر اقدامات نہیں کرسکی۔ امریکہ کی یہ پالیسی پاکستان پر دباؤ ڈالنے کیلئے تھی لیکن پاکستانی فوج نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کی قیادت میں وہاں بہت کم عرصے میں کامیابی حاصل کرلی۔ جس نے امریکیوں کو حیرت زدہ کردیا۔ امریکی فوجی قیادت یہاں کے لوگوں کی نفسیات کو نہیں سمجھتی امریکہ کو شمالی وزیرستان کے معاملے میں پاکستانی فوج کے نقطہ نظر کو سمجھنا چاہئے کہ اس کی قیادت بہتر سمجھتی ہے کہ وہ کس طرح دہشت گردی کو اس علاقے سے ختم کرسکتی ہے۔ امریکہ میں بھی ایک ہلچل کا سماں ہے وہاں مڈٹرم الیکشن ہونے والے ہیں اور یہ الیکشن امریکی صدر کی ناکام پالیسیوں پر ریفرنڈم ثابت ہوں گے۔ اگر صدر اوباما کو ان الیکشن میں ناکامی کا سامنا کرنا ہے تو ان کیلئے دوسرے ٹرم کے لئے صدر منتخب ہونا بھی ممکن نہیں رہے گا۔
جب خارجہ پالیسی ناکام ہو جاتی ہے تو دفاعی حکمت عملی بھی کامیاب نہیں ہوتی۔ صورت حال یہ ہے کہ امریکہ میں صدر اوباما کی پالیسیوں کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں امریکی اور نیٹو افواج کو افغانستان میں ویتنام جیسی صورت حال کا سامنا ہے اگر امریکی عسکری قیادت نے پاکستان کے مشورے کو نہ مانا تو انہیں افغانستان سے بھی راہ فرار اختیار کرنی ہوگی۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ امریکہ نے اچانک ویتنام سے نکلنے کا فیصلہ کیا اور جو حکومت امریکہ کے بل بوتے پر کھڑی ہوئی تھی وہ شمالی ویتنام کی فوجی یلغار کا مقابلہ نہیں کرسکی اور ختم ہوگئی شمالی ویتنام کی فوجوں نے جنوبی ویتنام پر قبضہ کر لیا۔ افغانستان میں بھی وہی کہانی دہرائی جاسکتی ہے کہ امریکہ اور نیٹو کی افواج کے جاتے ہی کابل حکومت اپنا وجود قائم نہ رکھ سکے اور طالبان حکومت پر قبضہ کرلیں۔ امریکہ نے جہاں اور غلطیاں کی ہیں وہاں اس نے یہ غلطی بھی کی کہ القاعدہ کو ختم کرنے کیلئے اس نے منفی روش اختیار کی۔ القاعدہ نے اس THURST سے بچنے کے لئے اپنے نیٹ ورک کو یمن اور سوڈان منتقل کردیا تاکہ امریکی فوجی موجودگی کو پھیلایا جاسکے۔ ان کی یہ نئی حکمت عملی کامیاب رہی ہے اب امریکہ یمن میں بھی پھنس رہا ہے یہی القاعدہ کی حکمت عملی تھی۔

سلیم یزدانی
(بہ شکریہ اداریہ جنگ نیوز)

modiryat urdu

Recent Posts

دارالعلوم مکی زاہدان کے استاد کو رہا کر دیا گیا

مولوی عبدالحکیم شہ بخش، دارالعلوم زاہدان کے استاد اور "سنی آن لائن" ویب سائٹ کے…

5 months ago

زاہدان میں دو دینی مدارس پر سیکورٹی حملے کے ردعمل میں دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ کا بیان

دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ نے زاہدان میں دو دینی مدارس پر سکیورٹی اور فوجی دستوں…

5 months ago

زاہدان میں دو دینی مدارس پر سکیورٹی فورسز کے حملے میں درجنوں سنی طلبہ گرفتار

سنی‌آنلاین| سیکورٹی فورسز نے آج پیر کی صبح (11 دسمبر 2023ء) زاہدان میں دو سنی…

5 months ago

امریکہ کی جانب سے غزہ جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کرنا ایک “انسانیت سے دشمنی” ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکہ کی طرف سے…

5 months ago

حالیہ غبن ’’حیران کن‘‘ اور ’’مایوس کن‘‘ ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے آج (8 دسمبر 2023ء) کو زاہدان میں نماز جمعہ کی…

5 months ago

دنیا کی موجودہ صورت حال ایک “نئی جہاں بینی” کی متقاضی ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے ایک دسمبر 2023ء کو زاہدان میں نماز جمعہ کی تقریب…

5 months ago