پاک افواج وزیرستان میں جنگ لڑ رہی ہیں۔ یہ جنگ امریکہ اور ہمارے بقول دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے جنوبی وزیرستان کے بعد شمالی وزیرستان میں کارروائی کی خبریں روز اخباروں میں آتی ہیں لیکن نہ امریکہ کا کوئی تھنک ٹینک ہمیں بتاتا ہے اور نہ ہمارے پیارے لیڈر ہمیں بتاتے ہیں کہ اصل جنگ تو اسلام آباد، بلکہ لاہور، کراچی، پشاور اور کوئٹہ میں ہو رہی ہے اور یہ تمام شہر وزیرستان بن گئے ہیں۔ یہ شہر حکومتوں کے مرکز ہیں اور حکومتوں میں وزیر ہی وزیر ہیں اور اتنے وزیر ہیں کہ یہ شہر وزیرستان بن گئے ہیں اور یہاں پاکستان کی معیشت کے خلاف خون ریز لڑائی جاری ہے۔ پاکستان کی معیشت کو لہو لہان کیا جا رہا ہے اور ہم بے خبر ہیں۔ اسلام میں آباد 70 سے زائد وزیر و مشیر ہیں اور معیشت کے ماہرین بتاتے ہیں کہ ایک ایک وزیر پر تنخواہ اور مراعات کے علاوہ ایک لاکھ روپے روزانہ کا خرچہ الگ ہوتا ہے یعنی 30 لاکھ روپے ماہانہ یعنی 3 کروڑ 60 لاکھ روپے سالانہ صرف ایک وزیر کی خرچی ہے صوبوں کے وزیروں کی تعداد دیکھ کر حساب لگایا جائے تو روح تک لرز اٹھتی ہے۔

آئینی پیکیج کے باب میں جو مبارک اور سلامت کا شور مچا ہے اس میں سب سے بڑی آوازیں وزیروں ہی کی ہیں۔ اس آئینی پیکیج میں اسلام آباد کے وزیر ستان کو تحفظ دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ قومی پارلیمنٹ کے 11 فیصد حصے کو وزیر بننے کا حق حاصل ہو گا۔ گویا پاکستان کی وفاقی کابینہ 49 وزیروں پر مشتمل ہو گی۔ یہ ظالمانہ تجویز لکھتے وقت آئینی اصلاحات کمیٹی کے رکن لرز نہیں گئے۔
جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تھا تو پورے پاکستان کی کابینہ میں دس وزیر تھے بعد میں جو بھی حکومتیں قائم ہوئی ان میں وزراء کی تعداد 12 سے نہ بڑھی۔ پاکستان کے پہلے آمر ایوب خان نے کابینہ 10 سے شروع کر کے 16 تک پہنچائی۔ جب تک ملک میں 1958 کا مارشل لاء نہ لگا تھا اس وقت تک پاکستان نے کسی ادارے یا ملک سے ایک پیسہ بھی قرض نہ لیا تھا۔ پاکستان پہلی بار قرضے کے جال میں بڑی کابینہ کے طفیل 1960 میں جکڑا گیا۔ کابینہ کا حجم بڑا کرنے کا رجحان آمروں نے پیدا کیا۔ وہ اپنی ذاتی حکومت کے قیام کے لئے زیادہ سے زیادہ اسمبلی ممبروں کو وزارت کا عہدہ بطور رشوت دیتے اور پاکستان کی معیشت کا بیڑا غرق کرتے تھے۔
ہم نے آئینی پیکیج کے حوالے سے اب تک یہی دعوے کئے ہیں کہ اس کے ذریعے آمروں کی لائی ہوئی آئینی ترامیم ختم کی جا رہی ہیں لیکن کیا یہ بھی حقیقت نہیں ہے کہ اسی آئینی پیکیج کے ذریعے آمریت کی روایات کو تحفظ دیا جا رہا ہے بڑی کابینہ اور وزیروں کی فوج بنانا تو آمروں کی روش تھی اس کو جمہوری دور میں کیوں آئینی تحفظ دیا جا رہا ہے؟ کیا کابینہ کے حجم کے باب میں قائد اعظم اور قائد ملت لیاقت علی خان کی کابینہ کو معیار نہیں بنایا جا سکتا ہے؟
ججوں کی تقرری کا معاملہ ہو تو ہم دنیا کی واحد مثال امریکہ کی پیش کرتے ہیں لیکن کبھی ہم یہ بھی سوچتے ہیں کہ امریکہ جس کی آبادی ہم سے سو فیصد اور جس کے مسائل ہم سے ہزار گنا زیادہ ہیں اس کی کابینہ کے ممبروں کی تعداد کتنی ہے جب امریکہ 50 ریاستوں کے ساتھ 12 رکنی کابینہ کے ذریعے حکمرانی کر سکتا ہے تو ہم اس مثال کو اپنے اوپر کیوں لاگو نہیں کرتے؟ برطانیہ، جرمنی اور دوسرے ترقی یافتہ ملکوں کی مثال کو کیوں نہیں اپناتے؟
جمہوری حکومتیں عوام کے ووٹ کی طاقت سے قائم ہوتی ہیں ان کے ممبروں کے بارے میں باور یہ کیا جاتا ہے کہ یہ سب عوام کی خدمت اور ملک کی ترقی کے جذبے کے ساتھ اسمبلی میں آتے ہیں۔ پھر اگر ان کے دلوں میں بھی وزارت کے عہدے کا لالچ اُگا دیا جائے یا ایسا گمان ہونے لگے کہ اگر کسی ممبر کو وزارت مشاورت یا کوئی منفعت بخش عہدہ نہ دیا گیا تو وہ پارٹی سے نکل سکتا ہے تو پھر ہم اس بات کو برسر اقتدار پارٹی کی ناکامی کہیں گے۔ پاکستان کی ہر حکومت کو یہ احساس ہونا چاہیئے کہ بڑی کابینہ ہمیشہ معیشت اور حکومت کی اہلیت اور کارکردگی پر منفی اثرات مرتب کرتی رہے گی۔
آمروں کے دور میں جب بڑی بڑی کابینہ کا سوال کسی وزیر سے کیا جاتا تھا تو وہ کہتے تھے کہ دنیا کے ملکوں کے مسائل اور ہیں پاکستان کے اپنے مسائل ہیں اس لئے ہمیں بڑی کابینہ رکھنا پڑتی ہے۔ اسی دلیل پرایک مرتبہ عرض کیا گیا کہ پاکستان کے مسائل تو کرکٹ اور ہاکی کے کھیل میں بھی ہیں تو ہم ورلڈ کپ میں 11 کھلاڑیوں کی ٹیم ہی سے کیوں مقابلہ کرتے ہیں آپ کہیں کہ ہم 50 کھلاڑیوں کی کرکٹ ٹیم کھلائیں گے۔ کیونکہ ہمارے اپنے مسائل ہیں ہمارے کھلاڑی باؤنڈری کی طرف جاتی ہوئی گیند کو روکنے کے لئے بھاگ نہیں سکتے۔ ہمارے کھلاڑی کیچ گراتے ہیں، ہمارے اسٹار فاسٹ بولر سے ایک اوور سے زیادہ بولنگ نہیں ہوتی۔ ہمارے اکثر اسٹار بیٹسیمن صفر یا 3 چار رنز پر آؤٹ ہو جاتے ہیں، ہمارے زیادہ کھلاڑی رن آؤٹ ہوتے ہیں۔ اس لئے ہم تو 50 کھلاڑیوں کی ٹیم کھلائیں گے، کیا ایسا ہو سکتا ہے ؟ کامیابی تو اسی میں ہے کہ آپ گیارہ کھلاڑیوں کے ساتھ ہی کپ لے کر آئیں۔ اسی طرح کامیاب حکومت وہ ہے جو گیارہ وزیروں کے ساتھ حکومت چلائے۔ وہی حکومت صحیح معنوں میں کامیاب ہوگی۔ اس کو پہلی کامیابی قومی خزانے پر سے اربوں کا بوجھ کم کرنے سے مل جائے گی۔ ہم نے وزارتوں کو کھیل سمجھ لیا ہے دنیا میں کہیں وفاقی وزیر کھیل بھی ہوا ہے۔
زیادہ وزارتوں کا قیام پاکستان کے غریب عوام کے ساتھ ظلم اور ملک کے خلاف میعشت گردی ہے پاکستان کے معاشی حالات جس نہج پر پہونچ چکے ہیں۔ اس کا تقاضا تو یہ ہے کہ وزارتیں کم سے کم ہوں اور برسر اقتدار حکومت کے ارکان اعزازی طور پر ملک کی خدمت انجام دیں موٹر کاروں کے بیڑے، اسٹاف کی فوج، بلٹ پروف گاڑیاں، ملکی اور غیر ملکی دورے، وی آئی پی سیکورٹی، پھر اللے اوراس کے اوپر تللے۔ یہ غریب ملک اور غریب عوام سے دوستی نہیں دشمنی ہے آخیر میں ایک نظم پیش ہے جو SMS پر گھوم رہی ہے اور وزیرستان پر تبصرہ کرتی ہے۔
وزیر ہی وزیر ہیں
مشیر ہی مشیر ہیں
حلف سے سب حلیف ہیں
ضمیر ہی ضمیر ہیں
ڈبل ڈبل ہیں روٹیاں
خمیر ہی خمیر ہیں
بچک گئی اکانومی
پتیر ہی پتیر ہے
ادائے آمری کے سب
اسیر ہی اسیر ہیں
لکیر کے فقیر ہیں
فقیر ہی فقیر ہیں
شریف سے مقابلے
شریر ہی شریر ہیں
وزیر ملک مفلساں
امیر ہی امیر ہیں
آئینی پیکیج قومی اسمبلی میں پیش کردیا گیا ہے کیا یہ من و عن منظور ہو جائے گا یا اس پر بحث ہو گی اب دیکھنا یہ ہے کہ 342 کی اسمبلی میں کیا کوئی ایک شخص یہ آواز بلند کرتا ہے کہ کابینہ کا حجم 11 فیصد کی بجائے 2 فیصد کیا جائے اور اسلام آباد کو وزیرستان نہ بنایا جائے۔

عظیم سرور
(بشكريہ روزنامہ جنگ)
modiryat urdu

Recent Posts

دارالعلوم مکی زاہدان کے استاد کو رہا کر دیا گیا

مولوی عبدالحکیم شہ بخش، دارالعلوم زاہدان کے استاد اور "سنی آن لائن" ویب سائٹ کے…

5 months ago

زاہدان میں دو دینی مدارس پر سیکورٹی حملے کے ردعمل میں دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ کا بیان

دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ نے زاہدان میں دو دینی مدارس پر سکیورٹی اور فوجی دستوں…

5 months ago

زاہدان میں دو دینی مدارس پر سکیورٹی فورسز کے حملے میں درجنوں سنی طلبہ گرفتار

سنی‌آنلاین| سیکورٹی فورسز نے آج پیر کی صبح (11 دسمبر 2023ء) زاہدان میں دو سنی…

5 months ago

امریکہ کی جانب سے غزہ جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کرنا ایک “انسانیت سے دشمنی” ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکہ کی طرف سے…

5 months ago

حالیہ غبن ’’حیران کن‘‘ اور ’’مایوس کن‘‘ ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے آج (8 دسمبر 2023ء) کو زاہدان میں نماز جمعہ کی…

5 months ago

دنیا کی موجودہ صورت حال ایک “نئی جہاں بینی” کی متقاضی ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے ایک دسمبر 2023ء کو زاہدان میں نماز جمعہ کی تقریب…

5 months ago