مولانا عبدالحمید:

موجودہ پھانسی کی سزائیں اسلام اور بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہیں؛ انہیں بند کریں

موجودہ پھانسی کی سزائیں اسلام اور بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہیں؛ انہیں بند کریں

ممتاز عالم دین نے پانچ مئی دوہزار تئیس کے خطبہ جمعہ میں ایک ہی ہفتے میں کم از کم بائیس بلوچ قیدیوں کی پھانسی کی سزا پر عملدرآمد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ایسی پھانسیوں کو اسلام اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی یاد کی۔ انہوں نے ایسی سزاؤں کو بند کرنے کا مطالبہ پیش کرتے ہوئے کہا: لوگوں کو مارنے، قتل کروانے اور جیل بھیجنے سے تمہارا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوجائے گا۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے زاہدان میں ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے کہا: گزشتہ دنوں سیستان بلوچستان سے تعلق رکھنے والے بیس سے زائد افراد کو منشیات کے کاروبار کے الزام میں پھانسی دی گئی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ مختلف شہروں میں بیک وقت اتنے افراد کو جن کے بال بچے ہیں پھانسی دی گئی ہے۔ ان کے بچوں کو کون سرپرستی کرے گا؟ کیا حکومتوں کی یتیموں اور بیواؤں کے بارے میں کوئی ذمہ داری نہیں ہے؟ پھانسی پر چڑھائے گئے افراد کے ماں باپ اور گھروالے ہیں؛ ان کی موت سے ان کیا حال ہوگا! کتنی نفرت پھیلے گی اور مخالف پید اہوجائیں گے، اس کا اندازہ لگائیں۔
انہوں نے مزید کہا: نبی کریمﷺ کی سیرت میں ایک اسیر کے قتل کی بھی روایت نہیں ہے۔ آپﷺ کی پوری زندگی میں پھانسی کی سزاؤں کی تعداد ایک ہاتھ کی انگلیوں کی تعداد سے بھی کم ہے وہ بھی قصاص اور بعض دیگر معمولی مسائل کی وجہ سے۔نہروان، جمل اور صفین کی لڑائیوں میں جہاں دونوں جانب سے متعدد افراد مارے گئے، لیکن حضرت علیؓ نے ایک اسیر کو بھی قتل نہیں کروایا۔ حضرت علیؓ کے قاتل نے انہیں ایسا مارا کہ زندہ بچنے کی امید نہ تھی۔ جب قاتل گرفتار ہوا اور اسے قتل کرنے کا ارادہ کیا گیا، حضرت علی نے منع کیا اور فرمایا میں ابھی تک زندہ ہوں۔ اگر میری موت واقع ہوئی تب میرے وارثوں کا اختیار ہے۔ چنانچہ آپؓ کی شہادت کے بعد وارثوں نے قاتل کا قصاص کیا۔

کیا تم نے صوبے کے لوگوں کے لیے روزگار فراہم کیا ہے کہ اب انہیں پھانسی دیتے ہو؟
خطیب اہل سنت زاہدان نے صوبہ سیستان بلوچستان میں بے روزگاری کے مسئلے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہم بلوچستان میں رہتے ہیں جو انتہائی پسماندہ علاقہ ہے۔ یہاں کوئی روزگار نہیں ہے، کاشت کاری کے لیے پانی نہیں ہے، کارخانے اور فیکٹری بہت کم ہیں، کانوں پر کام نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کیا حکومت نے عوام کے روزگار کے لیے کوئی مناسب منصوبہ بندی کی ہے؟ سمندر اور سرحدوں کے مواقع سے فائدہ اٹھایاہے؟ حکومت نے کہاں روزگار پیدا کیا ہے کہ اب لوگوں کو دھڑادھڑپھانسی پر چڑھاتی ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا: کیا تمہیں معلوم ہے ان لوگوں کی اکثریت بھوک اور بے روزگاری کی وجہ سے منشیات کے کاروبار کا انتخاب کیا ہے؟ ہمارے پاس معلومات ہیں کہ کچھ لوگ صرف دوسو ڈالر کی خاطر اپنی جان سے محروم ہوئے ہیں۔ صوبہ سیستان بلوچستان میں آبادی کی اکثریت نوجوان ہے اور سب سے زیادہ بے روزگاری اسی صوبے میں ہے۔ ان کے پاس تعلیم بھی نہیں۔ کیا تم نے تعلیم اور فن سکھانے کے سلسلے میں جیسا کہ ہونا چاہیے اسباب فراہم کیا ہے؟
مولانا عبدالحمید نے کہا: تمہیں پھانسی دلوانے کے سوا کچھ نہیں آتا۔ یہ کوئی ہنر نہیں۔ ملک میں پھانسی کی سزائیں اور بہت سارے دیگر فوجداری قوانین اسلامی فقہ، شریعت اور بین الاقوامی قوانین سے متصادم ہیں۔ یہاں کوئی قانون اگر منظور ہوتاہے پھر دوبارہ اسے ہاتھ نہیں لگایاجاتاہے۔ اسی آئین میں ایسی شقیں ہیں جن کی وجہ سے ملک بند گلی میں جاچکاہے۔ پوری دنیا میں یہ عام سی بات ہے کہ قوانین کو مطالعہ کرتے ہیں کیا وہ مفید رہے ہیں یا نقصان دہ۔ یہ قوانین آسمان سے اتری ہوئی وحی نہیں ہیں؛ انسانی عقل کے نتایج ہیں۔ انسان خطا بھی کرسکتاہے۔

اگر کوئی اپنی قوم کو قتل کروائے اس پر کیا بھروسہ ہے؟
ایرانی بلوچستان کے مایہ ناز عالم دین نے کہا: رسول اللہﷺ کے دور میں بعض صحابہ نے تجویز دی کہ جو منافقین مسلمانوں کی خبریں دشمن تک پہنچاتے ہیں اور انہیں مسلمانوں کے خلاف اکساتے ہیں، انہیں قتل کیا جائے۔ لیکن نبی کریمو نے فرمایا اگر میں انہیں قتل کرواؤں پھر لوگ کہیں گے کہ محمد (ﷺ) اپنی قوم کو قتل کرتے ہیں۔ جو اپنی قوم کو قتل کرواتاہے اس پر کیا بھروسہ ہے؟وہ منافق جنہوں نے کئی بار آپﷺ کو مارنے کی کوشش کی اور ان پر جادو کیا، آپﷺ ان کے قتل پر رضامند نہ ہوئے؛ یہ ہے عفو اور ترحم۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: میں خیرخواہی سے کہتاہوں ان پھانسیوں کو بند کریں۔ پھانسی ملک اور ایرانی قوم کے لیے نقصان دہ ہے۔ پوری دنیا میں کہا جاتاہے سب سے زیادہ پھانسی ایران میں دی جاتی ہے۔ کون سی حکومت اپنی قوم کو قتل کرواتی ہے۔ یہ تمہاری قوم اور تمہارے لوگ ہیں۔ اگر کوئی پر امن احتجاج کرتاہے، مسلح نہیں ہے، اسے نہ ماریں۔ تنقید کرنے والوں کو جیل نہ بھیجیں۔ لوگوں کو بات کرنے دیں۔

دنیا میں کسی کو سرخ لکیر نہ بنائیں
خطیب اہل سنت زاہدان نے زور دیتے ہوئے کہا: ملک اور قائد اعلیٰ کے حق میں سب سے بڑے ظلم کا ارتکاب ان لوگوں نے کیا ہے جنہوں نے تنقید کا دروازہ بند کیا ہے۔ نبی اکرم ﷺ سے بڑھ کر کوئی شخص نہیں ہے؛ ان سے بھی تنقید ہوئی ہے۔ بعض اوقات صدقات کی تقسیم میں صحابہ تنقید کرتے اور سوال کرتے تھے۔آپﷺ پر کسی یہودی شخص کا قرضہ تھا۔ یہودی نے آپﷺ کی چادر کھینچی جس کا اثر آپﷺ کی گردن پر واقع ہوا۔ صحابہ نے یہودی کی پٹائی کی کوشش کی، لیکن آپﷺ نے منع کرکے ساتھ فرمایا کہ صاحبِ حق کو تنقید کرنے اور بات کرنے کا حق پہنچتاہے۔پھر حکم فرمایا کہ اسے اس کے حق سے زیادہ دیاجائے۔
انہوں نے سپریم لیڈر سے اپنی تنقید اور بعض سکیورٹی حکام کے ردعمل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: دنیا میں کسی بھی شخص کو سرخ لکیر نہ بنائیں۔ تنقید مفید ہے اور اس سے راہیں کھلتی ہیں۔ جب تک مجھ سے بھی تنقید نہ ہو، میں بھی اپنی کمزوریوں کی اصلاح نہیں کرسکتا۔تم نے قوم کے چیدہ افراد کو بزرگانِ قوم سے تعلق بنانے اور بات کرنے سے روکا۔
انہوں نے مزید کہا: اسلام میں کوئی شخص ریڈ لائن نہیں ہے۔ سرخ لکیر متعین نہ کریں۔ سب انسان ہیں اور انسان خطا اور غلطیوں کا پتلا ہے۔پارلیمانی قوانین میں بھی غلطی کا امکان ہے۔ سپریم لیڈر نے بھی کبھی معصوم ہونے کا دعویٰ نہیں کیاہے۔ لیکن جس راہ پر تم گامزن ہو، اس سے مسائل بڑھ ہی جائیں گے۔ واحد راستہ بات چیت اور قوم کی اکثریت کی رضامندی حاصل کرنا ہے۔
خطیب اہل سنت نے کہا: چند سال قبل بندہ نے تجویز پیش کی کہ حکام فری فورم لگاکر عوام کو عدلیہ، پارلیمنٹ اور صدر سے تنقید کریں۔ سپریم لیڈر سے تنقید کے بارے میں کچھ نہیں کہا، لیکن میرا خیال ہے یہ سپریم لیڈر سمیت سب اعلیٰ حکام کے مفاد میں ہے کہ عوام کو بات کرنے اور تنقید کرنے کی اجازت دیں، لیکن اس تجویز پر توجہ نہ دی گئی۔

جیل اور قتل سے تمہارا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا؛ مخالفین اور ناقدین کی باتیں سن لیں
مولانا عبدالحمید نے نماز جمعہ سے پہلے کے خطاب میں کہا: ایک ایسی شخصیت جس کے اختیار میں پوری قوم کی تقدیر اور قانون ہے، اس کے اردگرد ایک مخصوص گروہ نے گھیرا تنگ کیا ہے۔ بعض دیگر ملکوں میں بھی ایسے مسائل موجود ہیں جس کی وجہ سے وہاں بحران پیدا ہوتاہے۔ جو ذمہ دار ہیں سب لوگوں کو اس تک رسائی حاصل ہونی چاہیے۔ جیل اور قتل کروانے سے تمہارے مسائل حل نہیں ہوسکتے ہیں۔ اس خیرخواہ کی بات مان لیں اور سب سیاسی قیدیوں، مردوزن اور علما و دانشوروں کو رہا کریں۔
انہوں نے مزید کہا: ہم کسی بھی شہری کے قتل پر رضامند نہیں ہیں، چاہے وہ عام شہری ہو یا کوئی اہلکار۔ میں نے سکیورٹی اہلکاروں کو بارہا کہا ہے عوام کو نہ ماریں؛ یہ ایران کے شہری ہیں اور تم بھی ایرانی ہو اور ان ہی افراد کی اولاد ہو۔ تم یہاں سے بھاگ کر کہیں اور زندگی نہیں گزارسکتے ہو۔ تمہیں ان ہی لوگوں کے ساتھ رہنا ہے۔ عوام بھی پولیس والوں کو نہ ماریں؛ ہم ہم وطن ہیں اور ہمارے مشترکہ مفادات ہیں۔
ممتاز عالم دین نے واضح کرتے ہوئے کہا: میں کھل کر کہتاہوں کہ اس طرح ملک چلانا ممکن نہیں۔ جیل تمہاری مشکل کا حل نہیں ہے۔ تم نے بہت سارے علما کو جیل بھیج دیاہے اور علما شکوہ کرتے ہیں۔ اگر میں نے کوئی بات کی ہے، ان علما نے تدریس کے سوا کچھ نہیں کیا ہے۔ جب علما اور فاضل افراد کو جیل میں دیکھتاہوں مجھے بڑا افسوس ہوتاہے۔ بعض لوگ اگر سپریم لیڈر کو خط لکھ کر تنقید کرتے ہیں انہیں گرفتار کرکے جیل بھیج دیتے ہیں۔ انہیں جیل کے بجائے سپریم لیڈر کے پاس لے جائیں تاکہ اپنی بات کریں۔

معاشی پابندیوں کا فائدہ مخصوص افراد کو پہنچا
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: آج ملک ایک خطرناک بحران سے دوچار ہے۔ مسلح اہلکار بھی بھوکے ہیں اور وزارتخانے مورال سے خالی ہیں۔ سب طبقے نالاں ہیں اور قومی کرنسی کی قدر گرچکی ہے۔ مزدوروں اور ملازموں کی تنخواہیں کم از کم ایک ہزار ڈالر کے بجائے چندسو ڈالر ہیں۔ تنخواہیں بڑھانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے، کرنسی کی قدر بڑھائیں تاکہ لوگ نان شبینہ کے محتاج نہ ہوں۔
انہوں نے مزید کہا: مسائل کے حل کے لیے تمہارے پاس بہت موقع تھا، لیکن تم نے عوام کی بات نہ مانی اور کچھ حکام نے یہاں تک دعویٰ کیا کہ بین الاقوامی پابندیاں ہمارے لیے نعمتیں ہیں، اب دیکھیں عوام کیا حال ہوچکاہے۔ ان پابندیوں کا فائدہ بعض مخصوص حلقوں اور حکام کے صاحبزادوں کو پہنچا جنہوں نے تیل کو بلیک مارکیٹ میں بیچ کر منافع اپنی جیب میں ڈالا۔ تم نے کرپشن کا صحیح مقابلہ نہیں کیا اور اب خزانے خالی پڑے ہیں۔ افواہیں گردش کررہی ہیں کہ حکام بہت کچھ بیچنے کے لیے تیار ہیں تاکہ نقصان کا ازالہ کریں۔

معاشی عدم استحکام کی وجہ سیاسی عدم استحکام ہے
صدر جامعہ دارالعلوم زاہدان نے اپنے خطاب کے آخر میں کہا: ایرانی قوم دنیا کی بہترین اقوام میں شمار ہوتی ہے اور ایران دنیا کے سب سے زیادہ امیر ملکوں کی فہرست میں شامل ہے۔ اس ملک کا سب سے بڑا اثاثہ ملک کے دانشور اور قابل افراد ہیں۔ ایسے لوگوں کی بڑی تعداد ملک چھوڑکر باہر بھاگ چکے ہیں؛ ان سے چاہتے ہیں واپس وطن آجائیں۔ انہیں ترغیب دینے لیے قومی کرنسی کی قدر بڑھائیں تاکہ لوگ کم تنخواہ پر اپنی زندگی سنوارسکیں۔
انہوں نے مزید کہا: ماہرین کو ملک واپس لانے کے لیے قومی کرنسی کی فکر کریں۔ معیشت کی اصلاح کی راہ یہی ہے۔ آج اگر معیشت عدم استحکام کا شکار ہے، وجہ یہ ہے کہ سیاست بھی عدم استحکام کا شکار ہے۔ جب ملک میں سیاسی استحکام نہ ہو، سب کچھ متزلزل ہوجائے گا۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں