- سنی آن لائن - https://sunnionline.us/urdu -

ایران میں الیکشن ایک قسم کے سلیکشن رہے ہیں

خطیب اہل سنت زاہدان نے چوبیس مارچ دوہزار تئیس کے بیان میں نئے ہجری شمسی سال کے پہلے جمعے میں گزشتہ سال کے اہم واقعات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے احتجاج کرنے والوں کو گولی مارکر شہید کرنے کو حکومت کی بڑی غلطی قرار دی۔ انہوں نے امید ظاہر کی نئے سال میں عوام حقیقی طورپر اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کرسکیں اور انتخابات حقیقی انتخابات بن جائیں۔

عوام کے پرامن احتجاج کو نہیں دبانا چاہیے تھا
مولانا عبدالحمید نے زاہدان میں ہزاروں نمازیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا: گزشتہ سال بطورِ خاص ہمارے ملک میں ہنگامہ خیز سال تھا۔ عوامی احتجاج شروع ہوئے اور عوام نے مشکلات کو احساس کیا۔ انہوں نے خود کو زندگی میں ناکام اور بہت سارے دیگر مسائل بشمول معیشت میں مشکلات میں جکڑے ہوئے پایا۔عوام سخت ترین دباؤ کو برداشت کرتے ہیں اور ان کے ہاتھ خالی ہیں۔ بہت سارے لوگوں کی پوری دولت گئی ہے اور وہ ایک عام زندگی کے لیے بھی محتاج ہیں۔
انہوں نے پرامن احتجاج کو عوام کا حق یاد کرتے ہوئے کہا: مختلف ادارے اور محکمے کرپشن کا شکار ہوچکے ہیں اور عوام نے بھی دیکھا بہت سارے قومی اثاثے برباد ہوچکے ہیں اور داخلہ و خارجہ پالیسیوں کی وجہ سے عوام پر دباؤ بڑھ رہاہے، اسی لیے وہ احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکلے۔ قانون نے بھی عوام کو پرامن احتجاج کا حق دیا ہے تاکہ وہ اپنی بات پیش کرسکیں۔ عوام نے اسی قانونی حق سے استفادہ کیا۔ ہم بھی احتجاجوں کے پرامن ہونے پر زور دیاہے۔ لیکن افسوس ہے کہ احتجاجوں سے برتاؤ ایسا ہوا کہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔

عوام کو جنگی گولیوں سے شہید کرنا بڑی غلطی تھی
خطیب اہل سنت زاہدان سنہ 1401 کے شہدا کی یاد تازہ کرتے ہوئے کہا: مناسب یہ تھا کہ حکام عوام کی باتوں پر کان دھریں اور ان کے ساتھ بیٹھیں۔ یہ مسئلہ طول نہیں پکڑنے نہیں دیتے۔ شروع ہی سے عوام کی بات سن لیتے اور ان کے مسائل حل کردیتے۔ جنہوں نے ذمہ داری کا احساس کیا، انہوں نے یاددہانی کی کہ عوام کی بات سن لیں، لیکن اس سال میں بہت سارے شہری شہید ہوئے۔ یہاں بھی زاہدان میں اسی عیدگاہ میں بہت سارے نماز کسی جرم کے بغیر شہید ہوئے۔ اس سے معلوم ہوتاہے ملک میں کس قدر غلطی کا ارتکاب ہوتاہے۔
انہوں نے مزید کہا: عوام کو قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں ایسا نہیں ہے کہ عوام احتجاج نہ کریں، جہاں بھی احتجاج ہوتاہے، عوام کی بات سنتے ہیں اور احتجاج کی سزا میں انہیں قتل نہیں کرتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ کچھ لوگوں کو حراست میں لے کر پھر رہا کرتے ہیں۔ لیکن یہاں احتجاج میں بہت سارے لوگ مارے گئے۔ یہ بہت سنگین غلطی ہے۔ نہتے عوام کو جنگی گولیوں سے نہیں مارنا چاہیے تھا۔

ایرانی قوم نے چوالیس سال برداشت کی، ان سے اچھا برتاؤ کرنا چاہیے
مولانا عبدالحمید نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا: احتجاجی تحریک کے دوران بہت سارے شہریوں کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈالا گیا؛ قیدیوں سے بدسلوکی ہوئی اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ بہت ہی رنج و الم کا باعث ہوا۔ اب بھی نیا سال آیاہے اور ہم دیکھتے ہیں لوگ خوشی منانے کے بجائے اپنے عزیزوں کی قبروں پر جاکر روتے ہیں۔ نوروز پر جشن منانا ایرانی ثقافت کی پرانی رسم ہے، لیکن اس سال شہری غمزدہ ہیں۔
انہوں نے کہا:یہ سب مسائل حل طلب ہیں اور تدبیر کی ضرورت ہے۔ یہ ایرانی قوم ہے جو دنیا کی بہترین اقوام میں شمار ہوتی ہے۔ اس اچھی قوم نے چوالیس سال حکومت کو برداشت کی؛ کمزوریوں، نابرابری اور امتیازی رویوں کو برداشت کی اور اچھائیوں پر شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کمزوریوں پر نگاہیں بند رکھیں، اب جب احتجاج کے لیے نکلے ہیں ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا چاہیے تھا۔
ممتاز عالم دین نے مزید کہا: قوم نے چوالیس سال ساتھ دیا اور ان کی اس خوبی کو نظرانداز نہیں کرنی چاہیے تھی۔ اب احتجاج کم ہوئے ہیں، لیکن سب کے دل رنج و غم سے نڈھال ہیں۔ مناسب تھا حکام عوام کے مطالبات کے سامنے سرِ تسلیم خم کرتے۔ عوام کی اکثریت کا مطالبہ برحق ہے۔ میں نہیں کہتا ہر انسانی فرد کا تقاضا حق ہے، لیکن ایک عمومی مطالبہ کہیں اور سے پیدا ہوتاہے۔ نئے سال میں ان مطالبات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ملک کی بیمار معیشت کا علاج داخلہ و خارجہ پالیسیوں کی اصلاح میں ہے
مولانا عبدالحمید نے ایران کے معاشی بحران کو غلط پالیسیوں کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا: بعض بزرگانِ قوم نے معیشت کا مسئلہ پیش کیا ہے۔ اس ملک کی بیمار معیشت اس وقت تک ٹھیک نہیں ہوسکتی جب تک غلط داخلہ و خارجہ پالیسیوں کو اصلاح نہ کی جائے۔ معیشت کی بیماری کی جڑ سیاسی مسائل میں ہے، جب تک ملک کے داخلی اور سیاسی بحرانوں کا حل پیدا نہ ہوجائے اور ملک کے سفارتی تعلقات ترقی یافتہ دنیا سے نارمل نہ ہوجائیں، معیشت کا مسئلہ ٹھیک نہیں ہوگا۔ ان مسائل کے حل کے لیے فکر کریں اور دانشوروں کی آرا و افکار سے فائدہ اٹھائیں۔
انہوں نے مزید کہا: جو کچھ عوام چاہتے ہیں، اسی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس پر سوچیں کہ موجودہ اور آئندہ نسلیں ہمارے بارے میں کیا فیصلہ کریں گی۔تاریخ میں ہمارا کیا مقام ہوگا اور تاریخ ہمارے بارے میں کیا لکھے گی۔ صرف پاؤں کے سامنے نہ دیکھیں۔ انسانیت کی تاریخ سے دوراندیشی اور انصاف کا سبق حاصل کریں۔ہمارا وجود سب انسانوں کے لیے رحمت ہو، یہی ہے دین کا سبق۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: ہم امید کرتے ہیں نیا سال پرخیر و برکت ہو۔ اس سال میں ایرانی قوم ان سب مسائل سے آگے چلے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم سب انسانوں اور ایرانی قوم کی مشکلات اور مصائب کی وجہ سے رنج و غم میں مبتلا ہیں۔ خواتین سے بدسلوکی اور انہیں پیٹنے سے ہمیں بہت دکھ ہوا۔ اس سے ہم نفسیاتی تشدد کا نشانہ بن گئے۔ نوجوان جو زندگی کی امید ہیں، ان سے اچھا سلوک نہیں ہوا۔ حکام ان مسائل کا ازالہ کریں اور مسائل کو حل کرائیں۔

حقیقی انتخابات میں عوام قابل اور اہل لوگوں سے انتخاب کرنے میں آزاد ہیں
اگر ملک خوشحال نہ ہوتا، نصف قوم بھوک سے مرجاتی

ایران کی معروف سیاسی و سماجی شخصیت نے الیکشن میں امیدواروں کی جانچ پڑتال کی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا: جب تک آزاد انتخابات منعقد نہیں ہوں گے، عوام اپنی تقدیر کا فیصلہ خود نہیں کرسکیں گے۔ اب تک جو الیکشن ہوئے ہیں، وہ دراصل سلیکشن ہی رہے ہیں۔ ہم نے ووٹ دیاہے لیکن حقیقی انتخابات میں نہیں؛ جب لوگ قابل افراد میں چننے کی اجازت حاصل کریں گے، تب انتخابات آزاد ہوگا۔ لیکن یہ جب گارڈین کونسل کچھ محدود افراد کی اہلیت منظور کرتی ہے اور ان میں کوئی بھی ملک چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتا، یہ الیکشن نہیں ہے۔ پارلیمانی الیکشنز میں قابل افراد کی اہلیت منظور نہیں ہوتی، پھر کچھ کمزور لوگوں میں ہمیں کسی کو ووٹ دینا پڑتاہے، یہ کیسا انتخاب ہے؟
مولانا عبدالحمید نے واضح کرتے ہوئے کہا: اصل الیکشن وہی ہے کہ لوگ قابل افراد میں انتخاب کرنے کے مختارہوں، مسلک اور حتیٰ کہ مذہب بھی اہلیت کا معیار نہ ہو۔ یہ میرا خیال ہے کہ اہلیت کا معیار افراد کی قابلیت ہی ہو۔ ایران میں اکثریت مسلمانوں کی ہے؛ اگر کوئی مسلمان قابل ہو اسے حق پہنچتاہے، لیکن اگر کوئی قابل شخص نہیں ہے، کوئی بھی فرد جس کا مذہب کچھ بھی ہو، اگر وہ ملک کو خوشحال کرسکتے ہیں اور اپنی جیب اور رشتہ داروں کے لیے صرف نہیں سوچتے ہیں، پھر ان سے بھی کام لیاجاسکتاہے۔ ہم اسی شہر میں دیکھتے ہیں کہ بعض ذمہ دار اپنے بہن بھائیوں، بہو، داماد اور سب رشتے داروں کو محکموں میں داخل کراتے ہیں۔ اس بات کا انکار، حقیقت کا انکار ہے۔ یہاں ہرگز الیکشن انصاف کی بنا پر نہیں ہوئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: یہاں تک کہ جو ملازمین لیے گئے ہیں انہیں بھی ملک کی خیرخواہی اور نظام کی بھلائی کو مدنظر رکھ کر تقرر نہیں کیا گیاہے، وہاں بھی قرابت اور رشتہ داری کو پیش نظر رہی ہے۔ وزارتخانوں کا حال ہمیں پتہ ہے کہ کیسے قابل افراد کو نااہل قرار دیتے ہیں اور کیسے کمزور لوگوں کو تقرر کرتے ہیں۔ اسی سے عوام میں غم و غصہ پیدا ہوتاہے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: اگر یہ ملک خوشحال و آباد نہ ہوتا، ان مسائل سے اب قوم کی نصف آباد بھوک سے مرجاتی۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو دولت، اثاثے اور توانائیاں عطا کی ہے، اور اسی سے آج تک یہ قوم اپنے پاؤں پر کھڑی ہے۔ امید کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس قوم کو نجات دلائے اور مسائل کو حل فرمائے۔

ماضی میں نہ اب میں نے اپنے لیے کوئی چیز نہیں مانگتا
خطیب اہل سنت زاہدان نے ایک بار پھر زور دیتے ہوئے کہا: میں اس مسئلے کو حکام پر واضح کرنا چاہتاہوں کہ ملک کا مسئلہ صرف معیشت اور روٹی نہیں ہے۔ اندرون ملک کی پالیسیوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے، بصورتِ دیگر کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔ بنیادی حل کے لیے سوچیں۔ ہم اس قوم کی اور آپ کی بھلائی چاہتے ہیں۔ میں اپنے لیے دور اور قریب کی ماضی میں کبھی کوئی چیز نہیں مانگی ہے اور اب بھی کچھ نہیں مانگتاہوں۔ میری تمنا ہے کہ یہ باتیں جو میں کہتاہوں اللہ کی رضامندی کے لیے ہوں۔
انہوں نے مزید کہا: ہمارے لیے دین و مذہب معیار نہیں ہے۔ دین اہم ہے، لیکن ہمارے لیے انسانیت معیار ہے۔ یہ لوگ اس ملک کے باشندے اور شہری ہیں اور ان کے شہری اور انسانی حقوق کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ سب شہریوں کا احترام کرنا چاہیے؛ سب خوشحال ہوں۔ انہیں آزادی میسر ہو تاکہ اپنی بات کہہ سکیں۔ یہ ہمارا مطالبہ ہے اور ہم چاہتے ہیں لوگ دین کے حوالے سے بدبین نہ ہوجائیں۔ دین آپ کے لیے نقصان دہ نہیں ہے۔ بہت سارے برتاؤ افراد کی ذاتی رائے ہیں۔ اگر میرے اور میرے آس پاس کے لوگوں کے عمل میں کمزوری تھی، یہ ہماری ہی کمزوری ہے؛ اسے دین کی کمزوری نہ سمجھیں۔ افراد اپنے اعمال کے ذمہ دار ہیں۔

تقویٰ روزے کی سب سے اہم حکمت اور انسان کا اثاثہ ہے
مولانا عبدالحمید نے اپنے بیان کے پہلے حصے میں رمضان المبارک کی آمد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے سورت البقرہ کی آیت 183 کی تلاوت سے اپنے خطاب کا آغاز کیا۔ انہوں نے ماہ رمضان کو ایک بہت بڑی نعمت اور رب العالمین کا لطف یاد کیا۔
انہوں نے کہا: دین کے سب احکام میں حکمتیں ہیں اور ان میں معاشرے کے لیے تاثیر رکھی ہوئی ہے جن پر عمل کرکے انسان میں اعتدال پیدا ہوتاہے۔ ان سے اللہ کے ساتھ تعلق اور انسان میں تواضع پیدا ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے جسم و روح کی ضرورتوں کو مدنظر رکھ کر منصوبہ بندی فرمائی ہے۔
خطیب اہل سنت نے کہا: اللہ تعالیٰ نے رمضان میں روزے کو انسان پر فرض قرار دیا ہے تاکہ اس میں تقویٰ پیدا ہوجائے۔ تقویٰ انسان کی بڑی دولت ہے جس کا مقصد ہے اللہ کے احکام اور لوگوں کے حقوق کے سامنے سرِ تسلیم خم کریں۔ کسی کی جان و مال پر دست درازی نہ ہو، زندگی پاک صاف ہو۔ تقویٰ انسان کے لیے حفاظت اور ہدایت ہے۔ رمضان تقویٰ پیدا کرتاہے اور جب تقویٰ پیدا ہوجائے، انسان اللہ کی ہدایت سے فائدہ اٹھاتاہے۔ یعنی وہ اللہ اور اس کے رسولِ برحق کی اطاعت کرنے لگتاہے۔
انہوں نے کہا: رمضان میں روزہ روح اور جسم کی پاکی اور اصلاح کے لیے بہت مفید اور موثر ہے۔ اس سے روحانیت پیدا ہوجاتی ہے۔ روزے کے بغیر انسان کی اصلاح و تزکیہ ممکن نہیں ہے، جس طرح زکات اور صدقات دیے بغیر انسان سے بخل اور حبِ مال کی بیماری ختم نہیں ہوجاتی ہے۔