- سنی آن لائن - https://sunnionline.us/urdu -

ایرانی قوم پھانسی کے خلاف ہے

خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے ستائیس جنوری دوہزار تئیس کے خطبہ جمعہ میں ایرانی قوم کی پھانسی سے مخالفت پر تاکید کرتے ہوئے اس سزا سے بچنے پر زور دیا۔ انہوں نے ایرانی قوم کو ایک ہی خاندان کے افراد کی مانند قراد دیتے ہوئے ان کے اتحاد کو سراہا۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے جامع مسجد مکی زاہدان میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے کہا: جو اتحاد و یکجہتی آج کل ایرانی عوام میں دیکھنے میں آتاہے، یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے کے غم میں شریک ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کی خوشی سے خوش ہوتے ہیں، اس سے پہلے ایران میں اس کی مثال نہیں ملتی ہے۔ ایرانیوں میں محبت و یکجہتی قابل تقلید ہے۔ میری رائے میں سب ایرانی ایک ہی خاندان کے افراد کی مانند ہیں چاہے وہ ایران میں ہوں یا ملک سے باہر کہیں رہتے ہوں۔
انہوں نے مزید کہا: یہ اتحاد اور پائی جانے والی یکجہتی ہمارے ملک اور اس کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے کافی ہیں۔ ہمیں یقین ہے اس اتحاد و ہمدلی کی وجہ سے کوئی دشمن ہماری سرزمین پر طمع نہیں کرسکتا۔ یہ لوگ آج بہت متحد ہیں اور ایک دوسرے کی خوشی غم میں شریک ہیں۔

آج کے عوام وہی 79ء کے انقلاب کے نعروں کو دہرارہے ہیں
ممتاز سنی عالم دین نے 79 ء کے انقلاب کے مطالبات کا حالیہ احتجاجوں میں تکرار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: انیس سو اناسی کے انقلاب میں ایران کے عوام ایک دوسرے کے ساتھ مل کر آزادی، انصاف، اور اپنے حقوق حاصل کرنے اور ایران کو سربلند کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے۔ انہوں نے نعرے لگائے تاکہ ان کے ملک کے سرمایے ان ہی کے ملک میں خرچ ہوجائے، باہر نہیں۔ ان لوگوں نے کوشش کی اور بالاخر وہ کامیاب ہوئے۔ اب اسی انقلاب کی سالگرہ کے ایام ہیں۔ آج بھی لوگوں کا مطالبہ وہی ہے جو اس وقت تھا۔ ایرانی قوم صرف انصاف، متعارف اور قانونی آزادی چاہتی ہے۔ آج ایرانی عوام غربت اور ناداری سے نالاں ہیں۔

قومی کرنسی کی قدر کیوں اس قدر گرچکی ہے؟ عوام ایک ترقی یافتہ ملک چاہتے ہیں
مولانا عبدالحمید نے ایرانی کرنسی کی قدر میں شدید گراوٹ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: آج کا ایک ڈالر [ینتالیس ہزار ہے؛ اس کا مطلب ہے جس کی تنخواہ پینتالیس ملین ہو، وہ ایک ہزار ڈالر کماتاہے (اتنی تنخواہ عام لوگوں کو ملتی بھی نہیں)۔ اس سے چند ماہ قبل دس ملین کی قدر ایک ہزار ڈالر تھی۔ اس وقت بھی لوگ شکوہ کرتے تھے کہ قومی کرنسی کی قدر گرچکی ہے۔ لوگ ہمیں خط لکھتے ہیں کہ ہم کیسے زندگی گزاریں؟ کچھ لوگ روٹی اور انڈے خریدنے سے بھی عاجز ہیں۔ ہمارا ملک کیوں اس حال پر پہنچے؟ جو ملک گنج اور مختلف قسم کی نعمتوں سے مالامال ہے، حتی کہ دنیا کے دیگر ممالک اور قوموں کا پیٹ بھرسکتاہے، وہ کیوں ایسے حالات سے دوچار ہوجائے؟
انہوں نے عوامی مطالبات کو برحق یاد کرتے ہوئے کہا: یہ ایرانی قوم کا حق ہے کہ انہیں انصاف فراہم ہو، اظہارِ رائے کی آزادی انہیں حاصل ہو اور وہ قابل لوگوں کو ملک چلانے کے لیے انتخاب کریں۔ایرانی لوگ چاہتے ہیں ان کا ملک ترقی یافتہ اور امیر ملکوں سے مقابلہ کرے، اور اس ملک میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ اپنی کرنسی سے یورو اور ڈالر سے مقابلہ کرکے عوام کو آرام دہ زندگی فراہم کرے۔ یہ قوم کا حق ہے اور وہ اپنے جائز حقوق کا مظطالبہ کررہی ہے۔

علما کا احترام کریں
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا: ایرانی قوم قابلِ رحم ہے۔ یہ دنیا کی بہترین اقوام میں شمار ہوتی ہے اور اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فراخی لائے اور حکام بھی عوام کی پکار سن لیں۔
انہوں نے مولانا محمد حسین گورگیج سمیت دیگر سنی علمائے کرام پر دباؤ کے بارے میں کہا: مولانا محمدحسین گورگیج کا تعلق اسی عظیم ایرانی خاندان سے ہے؛ موصوف تفسیرِ قرآن کے اعلیٰ پایہ کے استاذ ہیں۔ لیکن انہیں منبر و محراب سے منع کیا گیا ہے۔ علما اور دانشوروں کے حق میں فراخدلی اور سعہ صدر سے کام لیاجائے۔ اگر کردستان میں علما کے لیے مسائل پیش آئیں، یہ پوری قوم کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ ماموستا سیف اللہ حسینی اور ماموستا خضرنژاد سمیت بعض دیگر کرد علما کو گرفتار کیا گیا ہے، یہ سب کا مطالبہ ہے کہ علما کا احترام کرکے انہیں برداشت کریں۔

ایرانی عوام صلح کے بارے میں سوچتے ہیں
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: آج ایرانی قوم صلح کے بارے میں متفکر ہے اور خارجہ پالیسیوں میں ٹینشن ختم کرنے کاحامی ہے۔ وہ چاہتے ہیں ایرانی ایک مصالحت جو ملک ہو۔ یمن میں صلح ہونا چاہیے، جنگ نے ان کے ملک کو تباہ کردیاہے۔ عادلانہ مصالحت اور جامع حکومت بنانے سے یمن کی جھڑپیں ختم ہوسکتی ہیں۔ ہم فلسطین میں بھی امن چاہتے ہیں اور اسرائیل اور فلسطینی عوام کو صلح کرنا چاہیے اور فلسطینیوں کو ایک مسقتل ریاست حاصل کرنا ضروری ہے۔ ایرانی عوام پوری دنیا میں امن چاہتے ہیں؛ روس یوکرین کی جنگ میں ہم صلح کے حامی ہیں۔ جنگ سے بڑا نقصان ہوتاہے. سب لوگ ”عیال اللہ“ ہیں اور سب کو اللہ ہی روزی دیتاہے۔ اللہ اپنی مخلوقات پر رحم کرتاہے؛ ہم کو بھی انسانیت اور حتی کہ جانوروں پر رحم کرنا چاہیے۔

پھانسی کی سزا کسی کے لیے نہیں چاہتے ہیں
مولانا عبدالحمید نے ایرانی قوم کو صلح اور امن کا پیغامبر یاد کرتے ہوئے کہا: ایرانی قوم پھانسی کی سزا کو No کہتی ہے اور دنیا میں کہیں بھی پھانسی کی سزا ہو، ہم اس کے خلاف ہیں۔ پھانسی چین میں ہو یا سعودی عرب میں، ہم اس کے حق میں نہیں ہیں۔ اگر ہم صدر اسلام اور خلفائے راشدین کے عہد کو دیکھ لیں، بہت کم لوگوں کو موت کی سزا سنائی گئی۔ ہمارے خیال میں اسلام پھانسی کی سزا کو صرف قصاص اور بعض خاص صورتوں کے لیے جائز سمجھتاہے جو بہت ہی کم اور نادر ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: ہم سب کے خیرخواہ ہیں اور ایران کے عظیم خاندان کے رکن کی حیثیت سے کہتے ہیں کہ سب ممالک پھانسی کی سزا سے دور رہیں۔ قصاص ایک شرعی حق ہے اور دنیا بھی اسے مانتی ہے، لیکن اسی قصاص کے ساتھ ساتھ دیہ اور عفو کی گنجائش بھی رکھی گئی ہے۔ اگر قصاص میں پھانسی کی سزا دی جاتی ہے، دیگر صورتوں میں بہت ہی احتیاط کی ضرورت ہے۔
خطیب اہل سنت نے کہا: جو خاندان اپنے سرپرستوں کو گنوادیتے ہیں، ان کے لیے زندگی بہت مشکل ہوجاتی ہے۔ حکام وہی طریقہ اپنالیں جو صدر اسلام میں تھا۔ ہم امن اور بات چیت کا مطالبہ کرتے ہیں اور ایرانی قوم بھی گفتگو چاہتی ہے۔ جب ایک خدانان میں اختلاف پیش آتاہے، وہ ساتھ بیٹھ کر بات چیت کرتے ہیں؛ ایران کا عظیم خداندان مختلف قومیتوں، مسالک اور مذاہب پر مشتمل ہے۔ آج کے ایرانی عوام کے لیے مسلک اور عقیدہ اہم نہیں، صرف ہم وطن ہونا اہم ہے؛ اسی لیے کسی بھی ایرانی شہری کے حق میں زیادتی ہو، اس سے وہ پریشان ہوجاتے ہیں۔

عالمی برادری افغانستان کو پاجائے
اہل سنت ایران کی سب سے زیادہ بااثر شخصیت نے افغان عوام کی تشویشناک صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: افغان لوگ ایک بے مثال صورتحال سے دچار ہیں۔ بڑے پیمانے پر مواشی، زراعت اور عام شہریوں کو نقصان پہنچا ہے۔ افغانستان کے سفارتی تعلقات دیگر ملکوں سے نہیں ہیں اور اس سے ان کے مسائل بڑھ چکے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: افغان قوم قابل رحم ہے اور ہم عالمی برادری سے چاہتے ہیں کہ افغان قوم کو پاجائیں، ان کے ساتھ رحم کرنا چاہیے۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ افغان قوم اور عوام کی خاطر افغانستان سے سفارتی تعلقات قائم کیاجائے۔ جو مسائل وہاں کی حکومت سے ہیں، اس صورت میں بہتر حل ہوسکتے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں انسانی حقوق کے مسائل، خواتین کی تعلیم اور کام کرنے کے مسائل حل ہوجائیں۔ سفارتی تعلقات بنانے کی صورت میں عالم اسلام کے علما بہتر انداز میں وہاں موثر ہوسکتے ہیں۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: ہم بھی انسانی حقوق پر یقین رکھتے ہیں اور ہمارے خیال میں اسلامی شریعت اور انسانی حقوق بہت ہی قریب ہیں۔ ہمارا عقیدہ ہے خواتین کو تعلیم حاصل کرنے اور کام کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ اس بارے میں مسلم علما بھی کوشش کرتے ہیں اور اگر یہ تعلقات قائم ہوجائیں افغان قوم ان حالات سے نجات حاصل کریں گے۔
انہوں نے افغانستان کی اسلامی حکومت سے درخواست کی کجکی ڈیم کے پیچھے جمع ہونے والے پانی سے ایران کا حصہ چھوڑدیں تاکہ بارڈر کے اس پار فصلیں تباہ نہ ہوجائیں اور کاشت کار مسائل سے دوچار نہ ہوجائیں۔

مقدسات کی توہین اظہارِ رائے کی آزادی نہیں ہے
مولانا عبدالحمید نے سوئیڈن اور ہالینڈ میں قرآن پاک کی توہین اور جلانے کی حرکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا: قرآن پاک کو جلانے کی حرکت بہت خطرناک ہے۔ یہ اللہ رب العزت سے جنگ کا اعلان اور اس ذات پاک کے غضب کو آزمانا ہے۔ اس سے دو ارب کے قریب مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے۔ یہ اشتعال انگیز اقدام ہے جسے اظہارِ رائے کی آزادی کے بہانے کیاجارہاہے۔ یہ کیسی آزادی ہے جس سے کروڑوں انسان کے جذبات مجروح ہوتے ہیں اور ان کی مقدسات کی توہین ہوتی ہے؟! مختلف اقوام کی مقدسات کی توہین سمجھ سے بالاتر ہے۔ کیا حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت مریم یا تورات و انجیل کی شان میں گستاخی کسی کے لیے قابل قبول ہے؟ یہ کسی کے لیے بھی قابل برداشت نہیں ہے۔ مسلمانوں کے لیے بھی قرآن پاک اور دیگر انبیا ؑ اور آسمانی کتابوں کی توہین قابل برداشت نہیں ہے؛ کسی بھی ملک کے قانون میں مسلمانوں کی مقدسات کی توہین کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
خطیب اہل سنت نے کہا: ایسے اقدامات سے شدت پسند لوگ مشتعل ہوتے ہیں، اور کل اگر یہ لوگ کوئی اقدام کریں سب کہیں گے یہ دہشت گرد ہیں۔ ہم سب دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں، لیکن اس کی اصل علت سے مقابلہ ضروری ہے۔ ہر اس کام سے اجتناب کرنا ضروری ہے جس سے عوام کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ ہماری آج کل ریلی اسی موضوع پر ہے اور اس گستاخی کی مذمت کریں گے۔
مولانا عبدالحمید نے اپنے بیان کے آخر میں جامع مسجد مکی کی تعمیر نو کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: اس مسجد کی تعمیر میں کسی بھی حکومت سے مدد نہیں لی گئی ہے؛ اس مسجد کے اخراجات عوام ہی نے برداشت کیا ہے جن کا تعلق مختلف طبقہ ہاے زندگی سے ہے۔ مسجد کی تعمیر کا کام جاری ہے، عوام اس آخری مرحلے میں تعاون کے لیے کوشش کریں۔