- سنی آن لائن - https://sunnionline.us/urdu -

ملک کی تقسیم کے سخت مخالف ہیں

اہل سنت ایران کے ممتاز عالم دین نے اپنے تیس دسمبر دوہزار بائیس کے بیان میں مختلف ایرانی قومیتوں پر ‘علیحدہ پسندی’ کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا: اگر کوئی علیحدہ پسندی کا اظہار کرے، اس کا سب سے پہلا مخالف ہم بلوچ، کرد، فارس، عرب، ترک، ترکمن، گیلکی سمیت دیگر ایرانی قومیتیں ہیں جو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔

خواتین کے حقوق اور عزت کا خیال رکھاجائے
مولانا عبدالحمید نے دوہزار بائیس کے آخری جمعے کو زاہدان میں ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے خواتین کے لیے حصولِ علم کو ضروری یاد کرتے ہوئے کہا: علم جس طرح مردحضرات کے لیے ضروری ہے، خواتین کے لیے اہم اور ضروری ہے۔ یہ سنگین غلطی ہے اگر کوئی یہ سمجھ بیٹھے کہ خواتین صرف بچے پالنے اور خانہ داری کے لیے پیدا ہوچکی ہیں۔ ایسے لوگ خواتین کا مقام نیچے لاتے ہیں۔ خواتین کالجوں اور مدارس کو سنبھال سکتی ہیں، لکھاری اور سائنسدان بن کر دنیا کو علم کے زیور سے آراستہ کرسکتی ہیں۔ اللہ نے انہیں طاقت دی ہے اور ان کے لیے اسباب فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے حقوق اور عزت کا خیال رکھنا از حد ضروری ہے۔
انہوں نے زاہدان کے خونین جمعہ کے ایک شہید کا واقعہ سناتے ہوئے کہا: خدانور لجہ ای شہید کی والدہ سے پوچھا گیا کہ آخر تمہارے بیٹے نے ایسا کیا خاص کام کیا تھا جو بین الاقوامی سطح پر اس کا نام بلند ہواہے۔ انہوں نے کہا ہے وہ مجھ سے بہت محبت کرتا تھا اور ہمیشہ میرے ہاتھ پاؤں پر بوسہ دیتا تھا اور شہادت کی تمنا دل میں لیے ماں کی خدمت کرتا تھا۔ یہ ماں کا احترام ہے جو بندے کو بلند کرتاہے۔ بہت سارے والد، شوہر اور بیٹے مرنے کو تیار ہیں، لیکن بیٹی، بیوی اور ماں کو ذرہ برابر نقصان پہنچے کو برداشت نہیں کرسکتے ہیں۔

علماکے حکومت کرنے پر تحفظات ہیں/ قوت اور شہرت نہیں چاہتاہوں
خطیب اہل سنت زاہدان نے واضح کرتے ہوئے کہا: میں جو کچھ یہاں کہتاہوں، وہ صرف اپنی ذمہ داری پوری کرنے کی خاطر ہے؛ میں پوری ایرانی قوم کی بھلائی چاہتاہوں۔ حکومت اور قوم کی خیرخواہی میرا مقصد ہے۔ میرا کوئی ذاتی مقصد نہیں ہے۔
بعض الزام تراشیوں کا جواب دیتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: گزشتہ سالوں میں ہم نے اسلامی جمہوریہ ایران کی حمایت کی ہے اور انتخابات سمیت مختلف میدانوں میں پیش پیش رہے ہیں، لیکن حکام خود بھی جانتے ہیں کہ ہم نے کبھی حکومت سے کوئی چیز نہیں مانگی ہے۔ ایک وقت بتایا گیا خطیبوں کو کار دی جاتی ہے اور اس کا پیسہ بھی لیا جائے گا، لیکن میں نے کہا میں تمہاری کارپر بھی سوار نہیں ہوجاؤں گا۔ اگر کوئی سمجھتاہے میں شہرت یا قوت حاصل کرنے کی کوشش میں ہوں، اسے جان لینا چاہیے کہ ہرگز ایسا نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا: میری صرف دو تمنائیں ہیں؛ لوگوں کی دنیا آباد ہوجائے اور آزادی اور انصاف کے سایے تلے باعزت زندگی گزاریں جو ایرانی عوام کا حق ہے۔ یہ ان کا حق ہے کہ دنیا میں انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھاجائے اور وہ سربلند ہوں۔ دوسری تمنا ان کی آخرت کی آبادی ہے، اللہ کی رضامندی انہیں حاصل ہو۔ میں دنیا اور آخرت کی سعادت تمہارے لیے چاہتاہوں۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے کہا: میں اپنی موجودہ زندگی کو بادشاہت اور دنیا کے ہر اعلیٰ عہدے پر ترجیح دیتاہوں اور علما کے لیے بھی ایسی ہی زندگی چاہتاہوں۔ میرا عقیدہ ہے علما اپنی اصل ذمہ داری کی طرف واپس لوٹیں۔ میرا خیال نہیں ہے کہ علما حکومت کا لگام ہاتھ میں لیں؛ ہر کسی کی مہارت اور تخصص کا میدان الگ ہے۔ ایک عالم دین ہمارے یہاں الیکشن میں حصہ لینا چاہتے تھے، ہم نے کہا کسی عام پڑھے لکھے شخص کو آگے آنے دیں؛ اگر اس کی کارکردگی غلط ہو، لوگ اسی کو گالیاں دیں گے، لیکن عالم دین کی عزت ہر حال میں محفوظ رہنی چاہیے۔

حکام کی وجہ سے خواتین دوپٹہ جلاتی ہیں
انہوں نے خواتین کو جیلوں میں ڈالنے پر تنقید کرتے ہوئے کہا: مجھے حیرت ہوتی ہے کیسے خواتین کو پسِ دیوار زنداں رکھتے ہیں۔ اگر میرے اختیار میں ہوتا میں کسی خاتون کو سوائے جنایت کرنے والی خواتین کے جن کا جرم ناقابل معافی ہو، جیل میں رہنے نہیں دیتا۔ احتجاج کرنے اور دوپٹہ جلانے پر کسی کو جیل نہیں ڈالنا چاہیے۔ یہ حکام ہی کے رویے سے دوپٹہ جلاکر احتجاج کرنے پر مجبور ہوئی ہیں۔ پولیس اہلکار انہیں دکھا دے کر وین میں ڈالتے تھے۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: میرے خیال میں ایرانی خواتین دوپٹے کے خلاف نہیں ہیں، یہ حکام کے رویے سے غصے میں آکر ایسے اقدامات کرتی ہیں۔ خواتین کو نظرانداز کرکے ان کے جائز حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ اگر ان خواتین کے معاشی حالات ٹھیک ہوتے اور سماج میں ان کا مقام محفوظ ہوتا، وہ کسی بھی قسم کا پردہ الزام اور زبردستی کے بغیر قبول کرتیں۔ جب زورزبردستی سے کسی حکم کو نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس کا نتیجہ یہی نکلتاہے۔ دنیا کی تمام حکومتیں اس موضوع پر توجہ دیں اور حکمت کا خیال رکھیں۔ آنکھیں بند کرکے صرف زورِ بازو اور طاقت پر توجہ دینا غلط ہے۔

معیشت کا حل سیاسی ہے
ایران کے معاشی مسائل پر تبصرہ کرتے ہوئے خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: ہماری معیشت کا حل میدانِ سیاست میں ہے۔ تم مجھے ایک دن کے لیے اختیار دے دو، میں ایک سیاسی قیدی کو بھی جیلوں میں نہیں رہنے دوں گا، پھر اس کا اثر معیشت پر دیکھیں۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے جو بچوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کا احترام نہ کرے، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ لیکن ہم دیکھتے دس بارہ سال کے بچوں کو قید میں رکھا جاتاہے۔ ان بچوں کو نصیحت کریں، لیکن احتجاج کرنے پر جیل میں نہ ڈالیں۔ بعض اوقات بچوں کو سخت سزائیں دی جاتی ہے، حالانکہ اگر وہ کسی بڑے جرم کا بھی ارتکاب کریں اور کسی کو قتل کریں، وہ قتل عمد شمار نہیں ہوتاہے۔ بچوں کو جیلوں میں رکھ کر بالغ ہونے کے بعد انہیں پھانسی دینا غلط ہے۔ کام اپنے وقوع کے وقت معتبر ہے۔ بچوں پر رحم کرنا چاہیے؛ یہ دیکھیں اب تک کتنے بچے احتجاجوں میں قتل ہوئے ہیں؟! یہ انتہائی المناک ہے۔ ان ہی دنوں ضلع بستک میں سکیورٹی فورسز کی غلطی کی وجہ سے ایک بارہ سال کی بچی کی جان گئی ہے جو بہت المناک ہے۔
انہوں نے علمائے کرام پر بڑھتے ہوئے دباؤ اور بعض کی گرفتاری اور طلبی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا: علما کو گرفتار کرنے اور طلبی سے گریز کریں۔ علما سے اپنے مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرائیں۔ جس مذہب میں گذشت اور مسامحہ نہ ہو، اس میں کوئی خیر نہیں ہے۔ اللہ کی رحمت ان لوگوں کے ساتھ ہے جو بندوں پر رحم کرتے ہیں، ان پر رحم نہیں کرتا جو اس کے بندوں پر رحم نہیں کرتے ہیں۔تایباد اور خراسان کے علما نے صرف ایک بیان دیا ہے، کسی عمل کا ارتکاب نہیں کیاہے؛ اسی پر انہیں حساس ادارے طلب کرتے ہیں اور بعض کو گرفتار کیا جاچکاہے۔ تنقید کو برداشت کریں یہ تمہارے عین مفاد میں ہے۔ اگر تنقید نہ ہو، آمریت پیدا ہوجاتی ہے اور معاشرے کی اصلاح نہیں ہوسکتی ہے۔ جب کوئی کمزوری بیان ہوتی ہے، اس کے ازالے کی کوشش کریں۔
مولانا عبدالحمید نے تہران سے دبئی جانے والی فلائٹ کو جس میں معروف ایرانی فٹبالر (علی دائی) کے گھروالے سوار تھے، زبردستی اتارنے اور ان کے گھروالوں کو واپس گھر بھیجنے پر تنقید کرتے ہوئے کہا: یہ واقعہ ہم سب پر گراں گزرا۔ تمہیں ان کی بیٹی اور بیوی سے کیا کام ہے؟ اپنی نگاہیں بلند کریں۔

دوسروں کے اعمال کی وجہ سے اسلام سے گریزاں نہ ہوں
خطیب اہل سنت زاہدان نے ایرانیوں میں بڑھتے ہوئے دین بے زاری کے رجحان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: میں یہ واضح کرنا چاہتاہوں، معزز ایرانی ہم وطنو، چاہے اندرون ملک ہوں چاہے بیرونِ ملک، میری کسی کمزوری کی وجہ سے اسلام کے بارے میں بدگمان نہ ہوجائیں۔ اگر اسلام کو دیکھنا چاہتے ہو، نبی کریم ﷺ اور صحابہ و اہل بیتؓ کی زندگی کو دیکھیں۔ آج کے لوگوں کے اعمال کی وجہ سے، چاہے حکام اور ذمہ دار ہوں یا عام شہری، اسلام سے بیزاری اختیار نہ کریں۔
انہوں نے مزید کہا: جہاں بھی جائیں اسلام سے بہتر تمہیں کوئی مذہب نہیں ملے گا۔ مجھے اطلاع ملی ہے کہ بعض لوگ اپنے گھروں سے قرآن پاک اٹھا کر مسجدوں میں لے جاچکے ہیں۔ کسی ذمہ دار اور حاکم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے تعلق ختم نہ کریں۔ ہم میں سے کوئی بھی دین کا نمائندہ نہیں ہے کہ ہمارے اعمال کی وجہ سے تم دین سے بدظن ہوجاؤ۔ اللہ سے تعلق قائم کریں اور کسی بھی صورت میں یہ تعلق ختم نہ ہونے دیں۔ اللہ سے مدد مانگو اور اسی کو پکارو۔ اگر ہم سب اللہ ہی کو پکاریں، ایرانی عوام کے سب مسائل حل ہوجائیں گے۔

آئین میں بڑی کمزوریاں پائی جاتی ہیں، لیکن اس پر بھی عملدرآمد نہیں ہوتا
ممتاز سنی عالم دین نے قوم کے مختلف گروہوں کے خلاف امتیازی سلوک پر شکوہ کرتے ہوئے کہا: ایران کے عوام آزادی اور انصاف کے سوا کچھ نہیں مانگتے ہیں۔ 1979ء کو ان ہی مسائل کے لیے انہوں نے انقلاب کیا۔ خواتین و حضرات میں فرق نہیں ہونا چاہیے۔ سرکاری مسلک کے پیروکاروں کو بھی امتیازی سلوک کی شکایت ہے۔ اب سب ایرانی شہری امتیازی رویوں سے نالاں ہیں۔ بعض شیعہ شہریوں کی شکایت ہے کہ انہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے، مہارت حاصل کی ہے، لیکن جب وہ کسی روزگار کے لیے اپلائی کرتے ہیں ان کی مہارتوں اور علم کے بجائے یہ دیکھاجاتاہے کہ وہ کس حد تک قومی اور مذہبی تقریبات میں شریک ہوتے ہیں، اور اسی مسئلے نے ملک کو یہاں تک پہنچایاہے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: اگرچہ بعض لوگوں کا دعویٰ ہے اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین کی مثل و مانند نہیں ہے، لیکن اس میں بڑی کمزوریاں پائی جاتی ہیں جن کا تذکرہ نہیں کرنا چاہتاہوں۔ لیکن اسی کمزور آئین پر بھی پوری طرح عملدار آمد نہیں ہوتاہے۔اس کے بجائے حکام کی من مانیاں چلتی ہیں۔ کسی بھی صورت میں عوام کو بات کرنے سے منع نہ کریں۔ احتجاج کرنا بین الاقوامی قوانین کی رو سے ایک جائز حق ہے۔ ان احتجاجوں کو تشدد اور توہین و تخریب کاری سے پاک رکھنا چاہیے۔ ان احتجاجوں کو روکنے کی کوشش نہ کریں۔

علیحدہ پسندی کے سب سے پہلے مخالف ہم ہیں
انہوں نے ایرانی قومیتوں پر علیحدہ پسندی کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا: سب ایرانی ایک ہیں اور آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ آج ایرانیوں میں ایک خاص محبت پیدا ہوچکی ہے۔ سب ایرانیوں کے درد سے ہمدردی کرتے ہیں جو ہمارے لیے عزیز ہیں۔ ہر ایرانی کے انسانی حقوق ہیں۔ ہمیں انسانیت کے لیے سوچنا چاہیے۔
مولانا نے مزید کہا: غیرمسلموں کے بھی حقوق ہیں۔ اگر ان کے آباؤ اجداد مرتد شمار ہوتے ہیں جیسا کہ بہائی شہری، اس حکم کو ان کی اولاد اور بعد کی نسلوں پر نہیں لگایا جاسکتاہے جو امتیازی رویہ ہوگا۔ بہائی جو بھی ہوں انسان تو ہیں، ان کے انسانی حقوق کا خیال رکھیں۔ حتیٰ کہ اگر کوئی خدا کو بھی نہ مانے، اس کے بھی انسانی حقوق ہیں۔ ماضی میں کسی نے اسلام چھوڑدیاہے یا ختم نبوت کا انکار کیا ہے، وہ نسلیں گزرچکی ہیں، آج ان کی اولاد اور نسلوں کو کچھ نہیں پتہ اور وہ مرتد شمار نہیں ہوسکتے ہیں۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: ملک میں بہت سارے لوگوں کا حق ضائع ہوتاہے۔ بہت سارے حضرات و خواتین ملک چھوڑ کر جاچکے ہیں اور دیگر ملکوں کو خوشحال بنانے اور آباد کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ ہمارے قومی اثاثہ ہیں۔ افغانستان سے بھی جو افراد جاچکے ہیں، وہ واپس جاکر اپنے ہی وطن کو خوشحال بنائیں۔
انہوں نے اپنے خطاب کے آخر میں کہا: کئی سالوں سے خواتین یہاں نماز جمعہ میں شریک ہوتی ہیں۔ موجودہ حالات میں ان کی حاضری کمزور ہوچکی ہے، آئندہ انہیں چاہیے بڑھ چڑھ کر نماز جمعہ اور عیدین کی نمازوں میں شرکت کریں۔