- سنی آن لائن - https://sunnionline.us/urdu -

احتجاج کرنے والوں کو ‘محارب’ کہنا غلط فہمی ہے

زاہدان کے مرکزی اجتماع برائے نماز جمعہ کے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے خطیب اہل سنت زاہدان نے دو دسمبر دوہزار بائیس کو ایران کی بعض عدالتوں میں کچھ مظاہرین کے لیے ‘‘محاربہ’’ کی سزا تجویز کرنا جس کی سزا پھانسی ہے پر تبصرہ کرتے ہوئے ایسی سزاؤں کو حکم قرآن کے خلاف قرار دیا۔

وہ ججز جو پھانسی کی سزا دینے پر جرات کرتے ہیں، وہ جہنم کی آگ پر جرات کرتے ہیں
سنی آن لائن نے مولانا عبدالحمید کی آفیشل ویب سائٹ کے حوالے سے رپورٹ دی، خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: محاربہ کی سزا ان لوگوں کے لیے جنہوں نے پرامن احتجاج کیا ہے یا احتجاج میں کوئی غلطی بھی ان سے سرزد ہوئی ہے، قرآن پاک سے غلط استنباط ہے۔ جو پتھر اٹھاکر مظاہرہ کرتاہے یا نعرے بازی کرتاہے، اس کو محارب کہنا ہرگز درست نہیں ہے۔ اندیشہ ہے کہ بہت سارے ججز اور قاضی جو پھانسی کی سزا دینے میں جرات کرتے ہیں، قیامت کو اللہ کی گرفت سے دوچار ہوجائیں۔ جس طرح حدیث میں آیاہے فتوا پرزیادہ جرات کرنے والا جہنم کی جرات کرتاہے۔
انہوں نے مزید کہا: ایک بال کے برابر بھی انصاف سے عدول کرنا منع ہے اور ایسے ججز جو عدل سے کام نہیں لیتے، انہیں قیامت کو جوابدہ ہونا پڑے گا۔ صدرِ اسلام اور صحابہ و اہل بیتؓ کے زمانے کو دیکھیں تو اس وقت پھانسی کی سزا نہ تھی۔ جنگ میں اگر کوئی ماراجاتا، بعد میں قید ہونے والے افراد کو رہا کیا جاتا۔ جب ابن ملجم نے حضرت علیؓ کو تلوار سے سخت زخمی کیا، لوگ سخت غصے تھے اور وہ قاتل کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتے تھے، لیکن سیدنا علیؓ نے فرمایا میں ابھی تک زندہ ہوں اور کسی کو ضارب سے بدسلوکی کی اجازت نہیں ہے۔ اپنے فرزند کو انہوں نے بتایا کہ یہ تمہارے ہاتھوں اسیر ہے اور قیدی سے اچھا سلوک کریں۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ حضرت علی نے یہ تعلیم نبی کریمﷺ سے حاصل کی تھی اور غزوہ بدر کے بعد مشرکین کے قیدیوں سے آپﷺ کا سلوک ایک مثال کے طورپر ان کے سامنے تھا۔ حضرت علیؓ نے خوارج کے خلاف جنگ لڑی جنہوں نے تلوار نکالی تھی، لیکن ان کے قیدیوں میں سے کسی کو بھی پھانسی نہ دلوائی۔ یہی خوارج اگر تمہاری قید میں آتے، سب پھانسی کی سزا پاتے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: یہ غلط بات ہے کہ مظاہرین کو شدت پسند گروہوں کے رکن اور محارب کہہ کر ان کے قتل کا حکم دیاجائے۔ ان مسائل پر شرعی لحاظ سے گفتگو کی ضرورت ہے اور بندہ اس بارے میں گفتگو کے لیے تیار ہے۔ ٹی وی میں پروگرام رکھیں تاکہ سب عوام دیکھیں۔ جن لوگوں نے ہمارے فوجداری قوانین مرتب اور تدوین کی ہے، وہ ہم جیسے لوگ تھے۔ ان کے اجتہاد کے مقابلے میں دیگر اجتہاد موجود ہیں اور ان قوانین میں نظرثانی کی ضرورت ہے۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا: کچھ گروہ خود کو جہادی کہہ کر عوام کو قتل کرتے ہیں، مساجد اور علما کی عزت بھی پامال کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اسلام کی راہ پر گامزن ہیں؛ ایسا نہیں ہے۔ ہر آیت اور حدیث کو نبی کریم ﷺ کی سیرت اور حیات طیبہ سے تطبیق دے کر اس
پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ آپﷺ قرآن پاک کے سب سے بڑے مفسر تھے۔

قوم نے 43 سال برداشت کی، اب تم انہیں برداشت کرو
ممتاز عالم دین نے ایران کے سیاسی منظرنامہ کے پیش نظر حکام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: قیدیوں کی پٹائی، توہین اور انہیں تشدد کا نشانہ بنانا نبی کریم ﷺ اور صحابہ و اہل بیتؓ کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ آدمی کو چاہیے اپنے دشمن اور مخالف سے بھی اچھا برتاؤ رکھے۔ کیا ہم مسلمان نہیں ہیں؟ تم بھی قیدیوں سے اسلامی تعلیمات کے مطابق برتاؤ رکھو۔ قیدیوں پر محاربہ کا الزام نہ لگائیں۔ احتجاج کرنے والا ‘محارب اور مفسد’ سے مختلف ہے۔ عوام سراپا احتجاج ہیں۔ اس قوم نے 43 سال تک تمہیں برداشت کرکے صبر سے کام لیا، اب ان کی صدائے احتجاج بلند ہوچکی ہے اور اب تم انہیں برداشت کرو۔
انہوں نے واضح کرتے ہوئے کہا: عوام پرامن احتجاج کریں اور پبلک جائیداداور سکیورٹی اہلکاروں کو نقصان پہنچانے سے گریز کریں۔ ہمیں بھی برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ احتجاج کرنے والے اسی ملک کے شہری ہیں اور ان کی بات سننی چاہیے۔ کمال اسی میں ہے کہ بندہ اپنے مخالفین اور ناقدین کے ساتھ بیٹھ کر ان کی باتیں سن لے۔ تنقید کی راہ بند نہیں ہونی چاہیے؛ ورنہ آمریت پیدا ہوجاتی ہے۔ کوئی نرم لہجہ سے کوئی شدت سے تنقید کرتاہے۔ نبی کریم ﷺ اور خلفائے راشدین و اہل بیت سے سخت الفاظ میں تنقید ہوئی ہے اور انہوں نے برداشت کا مظاہرہ کرکے حوصلہ سے جواب دیاہے۔ جس کے حق میں ظلم ہوا ہے، اس کی آواز بلند ہے اور اس کی بلند آواز کو برداشت کرنی چاہیے۔ حکام کے علاوہ سب طبقے اس تعلیم پر عمل کریں۔

عوام امتیازی سلوک سے تھک چکے ہیں
خطیب اہل سنت زاہدان نے زور دیتے ہوئے کہا: اپنے مخالفین کو جیل میں نہ ڈالیں، ان سے بات کریں اور اگر کوئی غلطی ان سے سرزد ہوئی ہے، انہیں قائل کرنے کی کوشش کریں۔ اگر کوئی حق بات کہتاہے، وہ امریکی یا اسرائیلی ہی کیوں نہ ہو، پھر بھی مان لیں۔
انہوں نے مزید کہا: نبی کریمﷺ کو اللہ تعالیٰ کا حکم تھا کہ مومنوں کے لیے اپنے بازو نیچے رکھیں۔ جب حکام اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں، انہیں عوام کے سامنے تواضع اختیار کرنا چاہیے۔ سیاسی اور مذہبی رہ نما عوام کے ساتھ رہیں اور بیٹھیں، ان کے ساتھ زندگی گزاریں اور ان کی باتیں سن لیں۔ صحابہ و اہل بیت ؓ عوام ہی کے ساتھ تھے۔ وہ کسی مخصوص گروہ سے مشورت لینے کے بجائے سب سے مشورت لیتے تھے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: ہم اس ملک کے دشمن نہیں ہیں اور کئی مسائل میں ہم نے دشمن کے سامنے سینہ تھان کر ملک کا دفاع کیا ہے۔ شام اور عراق میں جن جنگوں میں تم شریک تھے، اس کے پاداش میں سب دشمن متحد ہوئے کہ بلوچستان کے ذریعے ملک میں بدامنی پھیلائیں۔ لیکن اسی علاقے کے لوگ ہی تھے جنہوں نے دشمن کی سازشوں کو ناکام بنادیا، البتہ ہم تمہارے کردار کا انکار نہیں کرتے ہیں۔ ہم نے امریکا کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہوئے اور بدامنی کو یہاں آنے نہیں دی۔اب بھی اگر کوئی غیرملکی طاقت یہاں بدامنی پھیلانا چاہے، ہم اجازت نہیں دیں گے۔ تیس ستمبر کو ہمیں مشین گنوں سے قتل عام کیا گیا، لیکن ہم نے چند ہی گھنٹے بعد بیان دیا اور عوام سے پرامن رہنے کی اپیل کی۔ ہم قتل ہوئے، لیکن کسی کو قتل نہیں کیا۔ ہمارا ایک ہی مطالبہ تھا اور ہے کہ جن لوگوں نے عوام کو مارا ہے انہیں سزا دی جائے۔ شہدا کے اہل خانہ نے بھی کہا ہے کہ وہ پیسہ نہیں چاہتے ہیں؛ وہ اپنا حق اور عزت چاہتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: چوالیس سال ہونے والا کہ ہم تمہارے امتیازی سلوک، نابرابری اور دباؤ کو برداشت کرتے چلے آرہے ہیں، پوری قوم چاہیے شیعہ ہوں یا سنی امتیازی پالیسیوں سے نالاں ہیں۔ لیکن عوام نے سب برداشت کی تاکہ دشمن غلط فائدہ نہ اٹھائے۔ اب لوگ تنگ آچکے ہیں اور امتیازی سلوک اور دباؤ سے تھک چکے ہیں۔ ان لوگوں کو جیلوں میں بند کرکے نہ ماریں۔ یہ ایرانی قوم ہی کے افراد ہیں۔

جس عزت کو اللہ نے دی ہے، اللہ کے سوا کوئی اور اسے نہیں چھین سکتاہے
مولانا عبدالحمید نے لیک ہونے والی بعض رپورٹس جن کے مطابق ان کی کردارکشی کی سازش پر زور دیا گیا ہے،پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا: اللہ تعالیٰ نے تمہیں طاقت اور حکومت عطا کی ہے۔ ہمارے پاس بھی جو کچھ ہے اور لوگ عزت دیتے ہیں اور محبت کرتے ہیں، یہ بھی اللہ کی عطا ہے۔ جس چیز کو اللہ دیتاہے، اللہ ہی اسے واپس لے سکتاہے۔ اللہ عزت دیتاہے اور عزت واپس لیتاہے۔ کوئی اور عزت نہیں چھین سکتاہے۔
انہوں نے کہا: میں جذبہ خیرخواہی کے تحت کہتاہوں کہ مظاہرین کو پھانسی دینے اور مارنے سے گریز کریں۔ ان لوگوں کے علاوہ جنہوں نے قتل کا ارتکاب کیا ہے، دیگر مظاہرین کو رہا کریں۔ ملک کو پرامن اور متحد رہنے دیں۔ ہم سب ایرانی ہیں؛ چاہے کوئی پارسی ہو یا عیسائی یا درویش یا بہائی؛ سب انسان اور ایرانی ہیں۔ سب کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے۔
خطیب اہل سنت نے اپنے بیان کے آخر میں مظاہرین کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: احتجاج کے دوران گالی دینا اور نعروں میں بدزبانی کرنا اسلامی اخلاق کے خلاف ہے۔ بینکوں، دوکانوں اور شیشوں کو توڑنا غلط کام ہے۔ پرامن مظاہرہ کریں اور نعروں کا کوئی نہ کوئی پیغام ہونا چاہیے۔ ان میں انصاف، آزادی جیسے امور کا مطالبہ ہو تاکہ دیگر لوگوں کو پتہ چلے تمہارے مطالبات کیا ہیں۔