- سنی آن لائن - https://sunnionline.us/urdu -

گزشتہ 43 سالوں سے خواتین، مسالک اور اقلیتیں امتیازی سلوک سے دوچار ہیں

زاہدان (سنی آن لائن) ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان کے صدرمقام زاہدان کی مختلف یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم طالبات نے مولانا عبدالحمید سے ملاقات اور گفتگو کی۔ مولانا عبدالحمید نے خطاب کرتے ہوئے ملک میں خواتین کے حقوق کی فراہمی پر زور دیا۔
خطیب اہل سنت زاہدان کی ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق، انہوں نے اسلام کے بعد خواتین کے مقام کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا: اسلام سے پہلے خواتین کا کوئی مقام نہیں تھا اور ان کے حق میں بڑا ظلم ہوتا تھا۔ اسلام نے یہ سب ختم کردیا اور انہیں انصاف دلایا۔ اللہ تعالیٰ نے بعض خواتین کو کچھ ایسی توانائیاں عطا کی ہیں جو مردوں میں بھی ناپید ہیں۔ جو مسائل مردوں پر آتے ہیں، وہ بھی مشکلات سہنے میں برابر کی شریک ہیں۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے کہا: آج اگر ملک میں دین بے زاری کا رجحان بڑھ رہاہے، اس کی وجہ دین نہیں، نالایق حکام کا رویہ اور نااہلی ہے۔ اگر نبی کریم ﷺ اور خلفائے راشدینؓ کے دور کا عدل و انصاف معاشرے میں نافذ ہوتا، قوم میں اتنی ناراضگی پیدا نہ ہوتی۔

خواتین کیوں وزیر نہیں بن سکتیں؟
مولانا عبدالحمید نے خواتین کے حقوق کا مسئلہ اٹھاتے ہوئے کہا: انقلاب سے 43 سال گزرچکے ہیں اور اس دوران خواتین سمیت مختلف برادریاں امتیازی پالیسیوں اور رویوں کا شکار رہی ہیں۔ خواتین کے بغیر سماج کا وجود ہی ناقابل تصور ہے؛ پھر انہیں کیوں نظرانداز کیاجارہاہے؟ امتیازی سلوک ہی کی وجہ سے ملک مسائل سے دوچار ہے۔
انہوں نے مزید کہا: خواتین کے بغیر ملک چلانا اور معاشرے کو تعمیر کرنا ممکن نہیں ہے۔ جب کسی خاتون کے پاس ٹیلنٹ، علم اور عملی قوت ہے، پھر اسے کیوں سماجی کاموں سے روکاجاتاہے؟ جب وہ محکموں میں کام کرسکتی ہیں، پھر وہ وزیر بننے سے کیوں محروم ہیں؟
ممتاز عالم دین نے ایران میں خواتین کی سڑکوں پر نکلنے اور احتجاج کو عدم مساوات اور امتیازی پالیسیوں پر ردعمل یاد کرتے ہوئے کہا: عوام نے اناسی کے انقلاب میں آزادی اور انصاف کا نعرہ لگایا اور اب بھی وہی نعرے دہرائے جارہے ہیں۔ جو لوگ اونچے عہدوں پر براجماں ہیں، عوام اور خواتین کی پکار سن لیں۔ زبردستی کرنے اور تشدد دکھانے کے بجائے، مثبت تبدیلی لائیں۔ ملک کے مالکان یہی لوگ ہیں جو تبدیلی چاہتے ہیں۔
انہوں نے زاہدان اور خاش میں نمازیوں پر فائرنگ کی مذمت کرتے ہوئے کہا: ہمارے لوگوں شدت پسند اور علیحدہ پسند بتاکر غلط پروپیگنڈا کیاجارہاہے۔ لوگوں کو مارنے کے بجائے، ان کی باتیں سن لیں۔ بعض حکام عوام پر فائرنگ اور انہیں قتل کرنے کی مذمت کے بجائے، ایسے حملوں کا دفاع کرتے ہیں جو افسوسناک ہے۔ عوام پتھر سے کسی پولیس سٹیشن یا سرکاری عمارت پر قبضہ نہیں کرسکتے، یہ جھوٹے دعوے ہیں۔
یاد رہے اس مجلس میں بعض طالبات نے خطاب کرکے مولانا عبدالحمید کے بیانات اور قومی حقوق کے دفاع میں ان کے موقف کی تائید کی۔