- سنی آن لائن - https://sunnionline.us/urdu -

اخلاق نبوی صلی اللہ علیہ وسلم، قرآن کا عملی نمونہ ہے

« عن زرارة أن سعد بن هشام قال: قلت : يا أم المؤمنين أنبئيني عن خلق رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟ قالت : ألست تقرأ القرآن ؟ قلت : بلى . قالت : فإن خلق نبي الله صلى الله عليه وسلم كان القرآن .»

ترجمہ:
سعد بن ہشام کہتے ہیں کہ میں نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: ام المومنین! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق مبارکہ کے بارے میں بتلائیے، انہوں نے کہا: کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں! پس انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق قرآن ہی تھے (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و کردار قرآن کا عملی نمونہ ہے)۔

تشریح:
آج سے ساڑھے چودہ سو سال قبل اہل عرب کی صورت حال پر نظر ڈالتے ہیں تو تاریخ عالم شہادت دیتی ہے کہ یہ لوگ دین و ایمان اور اخلاق و صفات کی روشنی سے محروم تو تھے ہی، انسانیت و آدمیت کے نام کی بھی کوئی چیز ان میں نہ تھی، خداوند عالم نے علم و ہدایت سے بے خبر اور بے راہ اپنے اِن بندوں کو ہدایت و انسانیت کے ارفع و اعلیٰ مقام پر فائز کرنے کے لئے محبوب رب العالمین سرور کونین سید عالم حضرت محمد مصطفی احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا؛ جن کے نبوت و رسالت کے فرائض منصبی میں ‘‘تزکیہ قلوب انسانی’’ کو بھی شامل فرمایا، دوسرے لوگوں کے قلوب کو کفر و شرک کی نجاستوں اور معصیت و نافرمانی کی ناپاکیوں سے پاک و صاف کرکے اُن کو معرفت رب و حب خداوندی کے نور سے منور کرنے کے لئے خود کا مجلّیٰ و مصفّیٰ ہونا کس حد تک ضروری ہے، یہ کسی بھی حامل عقل و فہم پر مخفی نہیں ہے۔
اِس کام کے رفیع الشان اور عظیم المرتبت ہونے ہی کی بنا پر اللہ پاک ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ‘‘تعلیم و تادیب’’ خود فرمائی، ‘‘علمنی ربی فاحسن تعلیمی و ادبنی ربی فاحسن تادیبی’’ پھر اُنہیں اپنے خلق عالیہ اور صفات حسنہ سے ایسے آراستہ اور مزین فرمایا کہ اپنی یہ شہادت بھی قرآن مجید میں ثبت فرمادی ‘‘و انک لعلی خلق عظیم’’ اسی ‘‘خلق عظیم’’ اور ‘‘تعلیم و تادیب’’ کے حسن کی بنا پر محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو سارے بندوں کے لئے قابل قبول نمونہ اور اسوہ بنایا ‘‘لقد کان لکم فی رسول اللہ أسوۃ حسنۃ’’
سیرت و کردار کی عمدگی، احوال و صفات کی سلامتی، عادات و اطوار کی پاکیزگی حسنِ اخلاق کا وہ اعلیٰ معیار ہے جس کی نہ صرف تعریف و توصیف کی گئی ہے؛ بل کہ اُسے اپنانے اور حاصل کرنے کی ترغیب و تاکید بھی کی گئی ہے، حسن اخلاق کے اعلیٰ و ارفع مقام پر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم فائز تھے، حدیث مذکور میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہی بات سائل کے سوال کے جواب میں نہایت بلیغ انداز میں بیان فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق ہی قرآن ہے۔
مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے جتنے امور کو مستحسن فرمایا، اور اُس کی طرف دعوت دی اُن تمام امور سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس آراستہ تھی، اور جتنے کاموں سے منع فرمایا اور اُس سے اجتناب کی تاکید فرمائی اُن تمام کاموں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اطہر دور اور نفور تھی، یہی وجہ ہے کہ مکارمِ اخلاق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کامل و مکمل تھے، حیا و پاک دامنی، ایفاء ِ عہد و وعدہ، رحم و کرم، عفر و درگذر کا حلم و ضبط، صدق و دیانت، صبر و ثبات، غریبوں او رضعیفوں کے ساتھ خیرخواہی، مظلوموں کی فریادرسی، بیماروں کی تیمارداری، جنازوں میں حاضری، بدخواہوں کے ساتھ خیرخواہی، عزت و آبرو جان و مال تک کے دشمنوں کو کھلے دل سے معافی، یہ اور اِن جیسے تمام نیک صفات سے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدسہ متصف تھی، جس کی شہادت زوجہ مطہرہ صدیقہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اِس جملے سے دی ‘‘کان خلقہ القرآن’’
اے خاور حجاز کے رخشندہ آفتاب
صبح ازل ہے تیری تجلی سے فیضیاب
شایاں ہے تجھ کو سرور کونین کا لقب
نازاں ہے تجھ پر رحمت دارین کا خطاب
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق عالیہ کو پڑھنے کے بعد امتی ہونے کی حیثیت سے ضروری ہے ہم اِن اخلاق مبارکہ سے باطنی احوال کو پاکیزہ بنائیں، کہ حسنِ اخلاق ہی سب سے بڑی دولت ہے، اِس دولت کو حاصل کرنے کے لئے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا نہایت اہتمام سے مطالعہ کریں، اُس کے ساتھ اہل اللہ کی صحبت و معیت نسخہ اکسیر ہے؛ کہ اِسی ذریعہ سے بلند اقدار اور عالی اخلاق کا حصول ممکن ہے۔
ربیع الاول کا مہینہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کا مہینہ ہے، اس مبارک مہینے میں ہر مسلمان کے دل میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد تازہ ہوجاتی ہے؛ اس بہانے سے پوری سیرت پاک نہ سہی صرف وہ حصہ جس میں حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک اخلاق و عادات کا ذکر ہے ہر مسلمان کو ضرور مطالعہ کرنا چاہیئے۔