- سنی آن لائن - https://sunnionline.us/urdu -

اسلام کی باکمال خواتین؛ حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا

حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا خباط کی بیٹی اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی والدہ تھیں، حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا کے آباء و اجداد اور خاندان کا کوئی پتہ نہیں چلتا، کتب سیر سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ زمانہ جاہلیت میں مکہ کے ایک رئیس ابوحذیفہ بن المغیرہ مخزومی کی کنیز تھیں، بعثت نبوی کے تقریباً پینتالیس سال قبل کی بات ہے، اسی زمانہ میں ایک قحطانی النسل صاحب یاسر بن عامر اپنے مفقود الخبر بھائی کی تلاش میں مکہ آئے اور یہیں کی مستقل سکونت اختیار کرلی اور ابوحذیفہ بن المغیرہ المخزومی کے حلیف بن گئے، اس نے اپنی کنیز سمیہ رضی اللہ عنہا کی شادی یاسر بن عامر سے کردی، انہیں کے صلب سے حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا کے یہاں دو بیٹے تولد ہوئے، عبداللہ اور عمار رضی اللہ عنہم۔ حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا کا شمار عظیم صحابیات میں ہوتا ہے، ان کو اسلام کی راہ میں سب سے پہلے جام شہادت نوش کرنے کا شرف حاصل ہے۔

قبول اسلام اور تکلیفیں
ان کے ایام پیری میں مکہ سے اسلام کی صدا بلند ہوئی تو حضرت سمیہ، یاسر اور عمار تینوں نے اس دعوت کو لبیک کہا، تاریخ میں ہے کہ حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا کا اسلام قبول کرنے والوں میں ساتوا ں نمبر تھا؛ (کانت سابع سبعة فی الاسلام) [اسد الغابۃ: سمیہ بن عمار: 152/7، دارالکتب العلمیۃ، بیروت] اس وقت تک ابوحذیفہ مخزومی کا انتقال ہوچکا تھا، حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا ان کے ورثاء کی غلامی میں تھیں، کچھ دن اطمینان سے گزرے تھے کہ قریش کا ظلم و ستم شروع ہوگیا اور بہ تدریج بڑھتا گیا، چنانچہ جو شخص جس مسلمان پر قابو پاتا طرح طرح کی دردناک تکلیفیں دیتا، حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا کو بھی خاندان مغیرہ نے شرک پر مجبور کردیا، لیکن وہ اپنے عقیدہ پر نہایت شدت سے قائم رہیں، جس کا صلہ یہ ملا کہ مشرکین ان کو مکہ کی جلتی تپتی ریت پر لوئے کہ زرہ پہنا کر دھوپ میں کھڑا کرتے؛ لیکن ان کے عزم و استقلال کے چھینٹوں کے سامنے یہ آتش کدہ ظلم و ستم سرد پڑ جاتا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ادھر سے گزرتے تو یہ حالت دیکھ کر فرماتے آل یاسر! صبر کرو، اس کے عوض تمہارے لئے جنت ہے۔ ‘‘صبراً آل یاسر موعدکم الجنۃ’’ (اسد الغابۃ: سمیہ بن عمار: 152/7، دارالکتب العلمیۃ، بیروت) بوڑھے یاسر رضی اللہ عنہ یہ ظلم و ستم سہتے ہوئے اس جہان فانی سے کوچ کرگئے، حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا اور ان کے بچوں پر یہ ظلم و ستم جاری رہا۔

شہادت:
دن بھر اس مصیبت میں رہ کر شام کو نجات ملتی تھی، ایک مرتبہ شب کو گھر آئیں تو ابوجہل نے ان کو گالیاں دینی شروع کیں اور پھر اس کا غصہ اس قدر تیز ہوا کہ اٹھ کر ان کی اندام نہانی میں ایسی برچھی ماری کہ حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا جان بحق تسلیم ہوگئیں، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ‘‘فجعل یشتم و یرفث، ثم طعنها فی قبلها فقتلها’’ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب: 1865/4، دارالجیل، بیروت) ایک روایت میں ہے کہ ابوجہل نے حضرت سمیہ کے فرزند عبداللہ کو بھی شہید کردیا۔
حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو اپنے والدہ کی اس بے کسی پر سخت افسوس تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر شکوہ کناں ہوئے کہ اب تو حد ہوگئی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر کی تاکید فرمائی اور کہا: ‘‘خداوند! آل یاسر کو جہنم سے بچا’’ (اللھم لاتعذب من آل یاسر بالنار) [الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب: 1863/4، دارالجیل، بیروت]
یہ واقعہ ہجرت نبوی سے قبل کا ہے، اس بناء پر حضرت سمیہ اسلام میں سب سے پہلے شہید ہوئیں، رضی اللہ عنہا۔
غزوہ بدر میں جب ابوجہل مارا گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ‘‘دیکھو تمہاری ماں کے قاتل کا خدا نے فیصلہ کردیا’’ (قد قتل اللہ قاتل أمک)۔ [طبقات ابن سعد: سمیہ بن خباط: 207/8، دارالکتب العلمیہ، بیروت]
حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا کی شہادت ہجرت نبوی سے کئی سال پہلے واقع ہوئی، اس لئے تمام اہل سیر کا اس پر اتفاق ہے کہ حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا اسلام کی سب سے پہلی شہید خاتون ہیں۔ ‘‘اول شهید استشهد فی الاسلام’’ (طبقات ابن سعد: سمیہ بن خباط: 207/8، دارالکتب العلمیہ، بیروت)