- سنی آن لائن - https://sunnionline.us/urdu -

سب ذمہ داران و غیرذمہ دار افراد مقدسات کی توہین سے گریز کریں، باجماعت نماز پڑھنے سے ممانعت ناقابل قبول ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے تازہ ترین خطبہ جمعہ میں بعض اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کی جانب سے امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی کی مذمت بیان کرتے ہوئے صحابہ کے احترام پر زور دیا۔ انہوں نے تہران سمیت بعض شہروں میں اہل سنت نمازیوں کو باجماعت نماز پڑھنے سے منع کرنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ایسے اقدامات کو ناقابل قبول قرار دیا۔
سنی آن لائن نے مولانا عبدالحمید کی آفیشل ویب سائٹ کے حوالے سے رپورٹ دی، خطیب اہل سنت زاہدان نے انیس اگست دوہزار بائیس کو زاہدان میں نماز جمعہ سے پہلے خطاب کے دوران کہا: اگر کسی کے دل میں صحابہ کرام اور اہل بیت عظام کی محبت نہیں ہے، ہمارا خیرخواہانہ مشورہ اس کو یہی ہے کہ کم از کم ان حضرات کی توہین و گستاخی سے بازآجائے۔حکومتی ذمہ دار اور غیرذمہ دار افراد سب مقدسات کے احترام اپنے اوپر لازم کریں؛ یہ بہت ضروری ہے۔
انہوں نے مزید کہا: حضرت معاویہؓ کاتبِ وحی تھے اور نبی کریمﷺ نے ان پر اعتماد کیا تھا؛ کتابتِ وحی کی ذمہ داری ہر کسی کو نہیں دی جاتی۔آپؓ کے بارے میں حدیث میں آیاہے کہ نبی کریم ﷺ نے دعا فرمائی کہ اے اللہ! معاویہ کو ہدایت نصیب کر اور اس کے ذریعے دوسروں کو بھی ہدایت دے۔

تم حضرت حسنؓ سے بڑھ کر معاویہ کو نہیں جانتے ہو
خطیب اہل سنت زاہدان نے مزید کہا: حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد اختلافات پیدا ہوئے؛ جمل اور صفین کی جنگیں پیش آئیں، لیکن حضرت حسنؓ نے حضرت معاویہؓ سے صلح کرکے پورا عالم اسلام ان کے حوالے کیا۔ کوئی بھی شخص یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ ہم حضرت حسنؓ سے بڑھ کر معاویہؓ کو جانتے ہیں۔ آپؓ حضرت معاویہ ؓ کو بہتر جانتے تھے، تب ہی مسلمانوں کے امور ان کے سپرد کیا۔ ہرچند ہمارے نزدیک صرف نبی کریم ﷺ معصوم تھے اور صحابہ و اہل بیت ؓ معصوم نہیں تھے، لیکن شیعہ حضرات کا عقیدہ ہے کہ ان کے ائمہ معصوم تھے اور معصوم خطا کا ارتکاب نہیں کرتا۔ لہذا حضرت حسنؓ کا عمل درست اور شناخت پر مبنی تھا۔
انہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کے قائد کے بیانات کی روشنی میں حکومتی ذمہ داروں سے مطالبہ کیا صحابہ کرامؓ کے احترام کا خیال رکھیں۔

کم ازکم لوگوں کو گھروں میں نماز پڑھنے دیں
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے ایران کے بعض بڑے شہروں میں سنی شہریوں پر باجماعت نماز پڑھنے کے حوالے سے دباؤ پر افسوس کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا: تقریبا تمام چھوٹے بڑے شہروں میں اہل سنت رہتے ہیں۔ اس ملک کا تعلق بھی سب شہریوں سے ہے؛ یہ صرف شیعہ یا سنی برادری کا یا کسی مخصوص قومیت کا ملک نہیں ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ سب شہروں میں ہمیں مسجد تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے اور ہم اس حوالے سے شکوہ کرتے چلے آرہے ہیں۔ مسجد اللہ کا گھر ہے اور یہ کسی شیعہ یا سنی کا ذاتی مکان نہیں ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ سب شہروں میں اہل سنت اپنی اپنی مسجد یں تعمیر کروائیں۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: تہران سمیت بعض شہروں میں جہاں اہل سنت کو مسجد تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے، کم از کم انہیں گھروں اور کرایے کے مکانات میں باجماعت نماز پڑھنے کی اجازت دیدیں۔ یہ سنی برادری کے لیے ناقابل قبول ہے کہ نمازخانوں کے سامنے سکیورٹی اہلکار آجائیں اور لوگوں کو نماز پڑھنے سے منع کریں۔
انہوں نے کہا: اہلکار کہتے ہیں یہ مکانات رہائشی ہیں اور ان میں نماز پڑھنا منع ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے پوری زمین کو مسجد قرار دی ہے اور تم نے اس زمین میں مکان بنایاہے۔ انصاف کریں، یہ کیا بات ہے کہ لوگ گھروں میں نماز نہیں پڑھ سکتے ہیں!
خطیب اہل سنت نے کہا: شیعہ حضرات سے ہماری درخواست ہے اپنے مکانات کے دروازے کھول دیں اور اہل سنت کو نماز پڑھنے دیں۔ جیسا کہ ہمارے گھروں کے دروازے پوری دنیا میں شیعہ حضرات کے لیے کھلے ہیں۔
انہوں نے کہا: کچھ عرصے سے اہل سنت کے نمازخانوں پر دباؤ ڈالا جارہاہے اور یہ حیرت انگیز بات ہے۔ مجھے یقین ہے سپریم لیڈر ایسے اقدامات سے ناراض ہیں اور ان کی نگاہ وسیع ہے۔ ہم سپریم لیڈر اور صدر مملکت کو جانتے ہیں؛ وہ سوفیصد ایسے اقدامات کے خلاف ہیں۔ تنگ نظر اہلکارو! یاد رکھو شیعہ و سنی بھائی بھائی ہیں۔ جو شخص اس بھائی چارہ کو ختم کرنا چاہے، وہ شیعہ ہو یا سنی، اللہ کی سزا سے دوچار ہوگا۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: اب گاؤں اور بستیوں میں بھی مسجد تعمیر کرنے کے لیے سرکاری اجازت لینے کا کہا جاتاہے۔ بستیوں میں کون سا مکان اجازت سے بنا ہے کہ مسجد کے لیے اجازت لی جائے؟ ایسے کام مت کریں۔ اللہ کی قسم یہ اقدامات اسلامی جمہوریہ ایران کے مفاد میں نہیں ہیں۔ ہم جذبہ خیرخواہی سے یہ باتیں کرتے ہیں۔ اگر پوری قوم نماز پڑھے تمہیں خوش ہونا چاہیے۔ لیکن بعض اوقات فوجی چھاؤنیوں میں بھی اہل سنت کو باجماعت نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔

فرقہ واریت پھیلانے والے اہل فتنہ ہیں
ممتاز عالم دین نے اقامہ نماز کو ہر اسلامی حکومت کی سب سے اہم ذمہ داریوں میں شمار کرتے ہوئے کہا: اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے نماز سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے۔ جب نمازخانوں کے بارے میں تنگ نظری کا مظاہرہ کیاجاتاہے، اس سے فرقہ واریت پیدا ہوتی ہے اور ایسے اقدامات کو روکنا چاہیے۔ متعلقہ حکام اس کا نوٹس لیں ، اس بات کی نوبت نہ آنے دیں کہ عوام اپنے مذہبی مسائل کی وجہ سے آواز اٹھانے پر مجبور ہوجائیں۔ فرقہ واریت پھیلانے والے چاہے شیعہ ہوں یا سنی، سب اہل فتنہ ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: اسلامی جمہوریہ کا مطلب ہے ایک دینی حکومت؛ جن کو یہ پتہ نہیں وہ اس بات کو سمجھ لیں۔ اسلامی حکومت کی سب سے اہم ذمہ داری اقامہ نماز ہے۔ دینی شعبہ میں سب سے اہم ذمہ داری نماز ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی سورت الحج کی آیت اکتالیس میں ارشاد فرمایاہے کہ جن جن لوگوں کو ہم نے طاقت اور حکومت دی ہے، وہ نماز برپا کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: اگر کسی نے فرقہ وارانہ بات کی، اسے روکیں، لیکن نماز پڑھنے سے لوگوں کو منع نہ کریں۔ سکیورٹی اہلکاروں اور حساس اداروں سے میری توقع ہے کہ ہرگز ایسی کوئی حرکت نہ کریں جس سے اللہ تعالیٰ اور اہل بیتؓ ناراض ہوجائیں گے۔ہم نے مضبوطی سے اتحاد کا خیال رکھاہے اور ہمیں توقع ہے کہ سپریم لیڈر اہل سنت کی مذہبی آزادی کے مسئلے کو اپنی سرپرستی میں لے لیں اور دیگر اعلیٰ حکام مانیٹر کریں کہ کہیں ہماری آزادی پر ڈاکہ نہ ڈالاجائے۔

سب اقوام کی توہین منع ہونا چاہیے
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے امریکا میں سلمان رشدی پر قاتلانہ حملے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے عالمی برادریوں سے مطالبہ کیا کہ اظہارِ رائے کی آزادی اور توہین و گستاخی میں فرق رکھیں۔
انہوں نے کہا: ہم بھی اظہارِ رائے کی آزادی پر یقین رکھتے ہیں، لیکن توہین کرنا کچھ اور ہے۔ اگر استدلال اور منطق کی بنیاد پر کوئی بات کرتاہے، اسے اظہارِ رائے کی آزادی حاصل ہونی چاہیے، لیکن گستاخی کرنا اور توہین کرنا اظہارِ رائے نہیں ہے۔مسلم قوم کے لیے کسی بھی پیغمبر اور قرآن پاک کی توہین ناقابل قبول ہے۔ کیا عیسائیوں کے لیے قابلِ قبول ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت مریم کی شان میں گستاخی اور توہین کی جائے؟ جب یہ تمہارے لیے قابلِ قبول نہیں ہے، پھر مسلمان کیسے برداشت کریں کہ نبی کریم ﷺ اور حضرت مریم و عیسیؑ کی شان میں گستاخی کی جائے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: جب دو ارب مسلمانوں کی مقدسات کی توہین ہوتی ہے، عین ممکن ہے کوئی شخص بے قابو ہوجائے اور کوئی اقدام اٹھائے جس کو اظہارِ رائے کی آزادی پر حملہ قرار دیاجاتاہے۔ ہم اقوامِ متحدہ سمیت تمام عالمی اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ایسا کوئی قانون پاس کرائیں کہ کسی بھی قوم اور مذہب کی توہین نہ ہوجائے؛ چاہے وہ مسلمان ہوں یا یہودی، عیسائی یا بدھ مت۔ یہ سب سے زیادہ عادلانہ موقف ہے اور اسی صورت میں امنِ عالم کی ضمانت ہوگی۔