- سنی آن لائن - https://sunnionline.us/urdu -

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ۔ حکمرانی کا بہترین ماڈل

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنی ذہانت و فطانت، جذبہ خدمت خلق اور معاشرے کو فلاحی و مثالی بنانے کے لیے بے شمار تجدیدی کارنامے سرانجام دیے۔
آپ نے اپنے دورِ حکومت میں چند ایسے شعبے قائم کیے جو اس وقت نظام میں موجود نہ تھے یا پھر ان کی اس طرح تنظیم نہ تھی۔ سب سے پہلے عدالتی نظام حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مرتب کروایا۔ محکمہ قضا قائم کیا۔ اسلام کی روشنی میں معاشی، معاشرتی زندگی میں ترقی کے لیے انقلابی اقدام کیے۔ مجلس شوری قائم کی۔ منظم فوج، اس کی تنخواہ اور چھاؤنیاں بنوائیں۔ راتوں کو شہر شہر، گلی گلی پہرہ داروں کا انتظام کیا۔ خراج کا نظام بنایا۔ مال گزاری کے قواعد بنوائے۔ جیل خانے بنوائے۔ بیت المال کا نظام منظم کروایا۔ سڑکوں اور نہروں کی تعمیر کروائی۔ نئے شہر آباد کرنے کی طرح ڈالی۔ تعلیم کے شعبے کو منظم اور چھٹیوں کا نظام وضع کروایا۔ مردم شماری کروائی۔ ہر سطح پر امتیازی سلوک کا خاتمہ کروایا۔
اسی طرح تاریخ وضع کرنے کی طرح ڈالی۔ حج کے موقع پر کانفرنسیں اور جلسے کرنے کو رواج دیا۔ دُرے کے ذریعے سزا دینے کا نظام بنایا۔ حکمرانوں کے لیے سادہ طرز زندگی متعارف کروائی۔ بیواؤں کے لیے سرکاری خزانے سے وظیفہ جاری کروایا۔ پولیس کا باقاعدہ محکمہ بنایا۔ زمینی محصولات کا نظام بنایا۔ غلاموں اور ملازموں کے لیے خصوصی اقدامات کیے۔ یتیم اور لاوارث بچوں کی نگہداشت، تعلیم و تربیت کے لیے ادارے قائم کیے۔ لاوارث بچوں کے لیے بیت المال سے وظیفوں کا انتظام کیا۔ ان کے مصارف کے لیے پہلے سو درہم مقرر کیے اور پھر اس میں ہر سال اضافہ کرواتے رہے۔ یتیموں کے پاس اگر جائیداد ہوتی تو اس کی حفاظت کروانے اور تجارت میں لگا کر اضافے کا انتظام کرواتے۔ ریسرچ کے دوران میں حیران رہ گیا کہ معاشرے کو مثالی و فلاحی بنانے کے لیے جو آٹھ شعبے، محکمے اور اقدام حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیے تھے ان پر آج مغربی معاشرے میں سو فیصد عمل ہورہا ہے، لیکن مسلم معاشرے میں ایسے اقدامات خال خال ہی نظر آتے ہیں۔
یہ وہی عمر ہیں جن کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’’اے عمر! مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے جس راستے سے تم گزروگے اس راستے سے شیطان نہیں گزرے گا۔ اگر کوئی میری امت کا ذی رائے ہے تو وہ عمر رضی اللہ عنہ ہے۔‘‘ میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا وہ عمر ہوتے۔‘‘
اللہ تعالی نے عمر کی زبان اور دل پر حق جاری فرمادیا، وہ ہمیشہ حق ہی بولتے ہیں۔ یہ ارشادات سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کی شان میں فرمائے ہیں۔آپ کے مقام و مرتبہ کا اندازہ صرف اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اکثر اوقات حضرت عمر رضی اللہ عنہ کسی اہم مسئلے میں رائے دیتے تو قرآن کریم کا حکم اسی کے مطابق نازل ہوتا۔ علامہ جلال الدین سیوطی نے تاریخ الخلفائ میں ان بیس واقعات کا ذکر کیا ہے جہاں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی رائے کے مطابق آیات نازل ہوئیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کی حکمرانی نہ صرف لاکھوں مربع زمین پر تھی بلکہ ہوا، پانی، آگ اور مٹی بھی اللہ کے حکم سے آپ کے کسی حد تک تابع تھے۔ اس کی ایک جھلک آپ بھی پڑھیے: ’’امیرالمومنین حضرت فاروق اعظم نے حضرت ساریہ رضی اللہ عنہ کو ایک لشکر کا سپہ سالار بنا کر جہاد کے لیے روانہ فرمایا۔ آپ جہاد میں مصروف تھے کہ ایک دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی کے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے اچانک یہ ارشاد فرمایا: ’’یا ساریۃ الجبل۔۔۔اے ساریہ! پہاڑ کی طرف اپنی پیٹھ کرلو۔‘‘ حاضرین مسجد حیران رہ گئے کہ حضرت ساریہ تو مدینہ منورہ سے سیکڑوں میل دور جہاد میں مصروف ہیں۔ آج امیرالمومنین نے انہیں کیونکر اور کیسے پکارا؟ جب حضرت ساریہ رضی اللہ عنہ کا قاصد آیا تو اس نے یہ خبر دی کہ میدان جنگ میں جب کفار سے مقابلہ ہوا تو ہم کو شکست ہونے لگی۔ اتنے میں اچانک ایک پکارنے والے کی آواز آئی جو کہہ رہا تھا کے اے ساریہ! تم پہاڑ کو اپنی پیٹھ پر لے لو۔ حضرت ساریہ نے فرمایا: یہ تو امیرالمومنین حضرت فاروق اعظم کی آواز ہے، چنانچہ فوراً ہی انہوں نے اپنے لشکر کو پہاڑ کی طرف پشت کرکے صف بندی کا حکم دیا اور اس کے بعد جو ہمارے لشکر کی کفار سے ٹکر ہوئی تو یک دم جنگ کا پانسہ ہی پلٹ گیا اور اسلامی لشکر نے کفار کی فوجوں کو روند ڈالا، حملوں کا تاب نہ لاکر کفار کا لشکر میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ نکلا اور مسلمانوں نے فتح کا پرچم لہرادیا۔
آپ کے دورِ خلافت میں ایک مرتبہ مصر کا دریائے نیل خشک ہوگیا۔ مصری باشندوں نے مصر کے گورنر عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے کہا: ’’مصر کی تمام تر پیداوار کا دار و مدار اسی دریا کے پانی پر ہے۔ اب تک ہمارا یہ دستور رہا ہے کہ جب کبھی بھی دریا خشک ہوجاتا تھا تو ہم ایک خوبصورت کنواری لڑکی کو اس دریا کی بھینٹ چڑھایا کرتے تھے، پھر یہ دریا جاری ہوجایا کرتا تھا۔ اب ہم کیا کریں؟‘‘ گورنر نے جواب دیا: ’’ہمارا دین اسلام ہرگز ظالمانہ کام کی اجازت نہیں دے سکتا لہذا تم لوگ انتظار کرو، میں دربار خلافت میں خط لکھ کر معلوم کرتا ہوں۔ وہاں سے جو حکم ملے گا ہم اس پر عمل کریں گے۔‘‘ چنانچہ گورنر کا ایک قاصد خط لے کر مدینہ منورہ دربارِ خلافت میں حاضر ہوا۔ امیرالمومنین نے گورنر کا خط پڑھ کر دریائے نیل کے نام ایک خط تحریر فرمایا جس کا مضمون یہ تھا: ’’اے دریائے نیل! اگر تو خود بخود جاری ہوا کرتا تھا تو ہم کو تیری کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اگر تو اللہ تعالی کے حکم سے جاری ہوتا تھا تو پھر اللہ تعالی کے حکم سے جاری ہوجا۔‘‘
امیرالمومنین نے قاصد کو حکم دیا کہ میرے اس خط کو دریائے نیل میں ڈال دیا جائے۔ چنانچہ آپ کے فرمان کے مطابق گورنرِ مصر نے اس خط کو دریائے نیل کے سپرد کردیا۔ خدا کی شان کہ جیسے ہی امیرالمومنین کا خط دریا میں ڈالا گیا، فورا ہی دریا جاری ہوگیا اور اس کے بعد آج تک پھر کبھی خشک نہیں ہوا۔ نیل کی یہ لہریں فرمان فاروقی کی مرہونِ منت ہیں۔
آپ کے دور خلافت میں ایک پہاڑ کے غار سے ایک بہت ہی خطرناک آگ نمودار ہوئی۔ جب لوگوں نے دربارِ خلافت میں فریاد کی تو امیرالمومنین نے حضرت تمیم داری کو اپنی چادر عطا فرمائی اور ارشاد فرمایا تم میری یہ چادر لے کر آگ کے پاس چلے جاؤ، چنانچہ تمیم داری رضی اللہ عنہ اس چادر کو لے کر روانہ ہوگئے۔ جیسے ہی آگ کے قریب پہنچے تو وہ آگ بجھنے اور پیچھے ہٹنے لگی، یہاں تک کہ وہ غار کے اندر چلی گئی۔ جب چادر لے کر غار کے اندر داخل ہوگئے تو وہ آگ بالکل ہی بجھ گئی اور پھر کبھی بھی ظاہر نہیں ہوئی۔
ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں زلزلہ آگیا اور زمیر زور زور سے ہلنے لگی۔ امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے زمین پر ایک درّہ مار کر فرمایا: ’’اے زمین! ساکن ہوجا! کیا میں نے تیری پشت پر عدل نہیں کیا ہے؟‘‘ آپ کا فرمان سنتے ہی زمین تھم گئی اور زلزلہ ختم ہوگیا۔ اس کے بعد کبھی بھی مدینہ منورہ میں زلزلہ نہ آیا۔
غزوہ احد میں جب یک دم پانسہ پلٹ گیا تو ابوسفیان ﴿جو اس وقت سالار قریش تھا﴾ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق(رض) کا نام لے کر پکارا کہ کیا وہ زندہ ہیں؟ آپ سے ضبط نہ ہوسکا اور جواباً کہا: ’’اے اللہ کے دشمن! جن کو تم نے پکارا ہے سب زندہ ہیں۔‘‘
آپ کا نام عمر، کنیت ابوحفص اور لقب فاروق اعظم ہے۔ آٹھویں پشت میں آپ کا خاندانی شجرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جاملتا ہے۔ 26 ذی الحجہ سنہ 23 ہجری آپ(رض) پر قاتلانہ حملہ وا، یکم محرم کو آپ کی شہاد ت ہوئی۔ بوقت شہادت عمر مبارک 63 سال تھی۔ نماز جنازہ حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ نے پڑھائی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ارشاد فرماتی ہیں: میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے گھر میں تین چاند اترے ہیں۔ انہوں نے اپنا خواب اپنے والد محترم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بیان کیا تو آپ نے تعبیر بتلائی کہ تمہارے گھر میں دنیا کے تین بہترین افراد دفن ہوں گے۔ چنانچہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو اتو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: ’’اے عائشہ! یہ تمہارے تین چاندوں میں سے بہترین چاند ہے۔‘‘ جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا وصال ہوا تو آپ کو بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفن کردیا گیا، یہ دوسرا چاند تھا۔ اب آپ کو انتظار تھا کہ تیسرا چاند کون ہے؟ وقت گزرتا رہا۔ جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ زخمی ہوئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے باقاعدہ اجازت طلب کی کہ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفن ہونے کی اجازت دیں تو انہوں نے بخوشی اجازت دے دی۔ اس طرح یہ تیسرا چاند بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں پہنچ گیا۔
اگر مسلم حکمران، حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو اپنے الیے اسوہ اور آئیڈیل بنالیں تو وہ تاریخ میں روشن اور نمایاں جگہ پاسکتے ہیں، ورنہ ہزاروں حکمرانوں نے دنیا پر حکمرانی کی لیکن آج تاریخ کے اوراق میں صرف انہی کے نام ملتے ہیں جنہوں نے اسوہ فاروقی اپناتے ہوئے عدل و انصاف کا بول بالا کیے رکھا۔